ذلت کا ٹیکس

انتخاب
بڑے بڑے لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ انہوں نے جب غیراللہ کے سامنے سر جھکایا تو ذلت و رسوائی کے ناقابل برداشت ٹیکس کا بوجھ اُٹھانا پڑا، ایسا بوجھ جوان کے سروں کو جھکا دیتا ہے،گردنیں موڑ دیتا ہے پھریہ لوگ اپنا بوجھ رکھنے اور ساری پونجی دے دینے کے بعد کتوں کی طرح دھتکار دیئے گئے دنیا وآخرت دونوں جہاں سے ہاتھ دھویا اور غلاموں کے زمرے میں داخل ہو گئے.

آج کوئی ان کا نام تک نہیں لیتا حالانکہ مجھے یہ علم ہے کہ ان کے اندر ایسی صلاحیتیں تھیں اور یہ اس پر قادر تھے کہ آزادی کی زندگی گذارتے مگر انہوں نے غلامی ہی کو پسند کیا وہ اثر انداز ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے لیکن. انہوں نے ذلت ہی کو اختیار کیا، وہ بار عب وبادبدبہ شخصیت بن سکتے تھے مگر انہوں نے بزدلی و کم ہمتی کو ہی اپنا شعار بنایا.

بسا اوقات وہ عزت سے اس لئے بھاگے کہ ان کو ایک دینار نہ دینا پڑے پھر انہیں ذلت کے لئے ڈھیر کاڈھیرخرچ کرناپڑا،صاحب مرتبہ،ذی اقتدار لوگوں کی خوشنودی کے لئے وہ بڑے بڑے جرائم کے مرتکب ہوئے ہوئے نظر آئے. یہی نہیںبلکہ مجھے تو بعض ایسے.خاندان نظر آئے جو آزادی کی خاطر ایک مرتبہ کی پر یشانی سے ڈرتے ہیں اور بار بار غلامی کا ٹیکس ادا کرتے ہیں ،ایسا ٹیکس جس کا آزادی کے ٹیکس سے کوئی تناسب نہیں،جو غلامی کے ٹیکس کا عشر عشیر بھی نہیں، قوم یہود نے بہت پہلے اپنے نبی سے کہا تھا﴿ اے موسیٰ اس میں ظالم لوگ ہیں وہ جب تک اس میں رہیں گے. ہم ہرگز ہرگز اس میں داخل نہ ہوںگے تم اور تمہارے رب جائو جنگ کرو ہم یہاں بیٹھے ہیں﴾ ﴿الآیہ﴾

یہود نے عزت و آزادی کی تکلیف کے اس انکار کی قیمت چالیس سال تک صحرا میں بھٹک کر ادا کی ، ریت ان کو جھلساتی رہی، پر دیس کی زندگی کی ذلت جھیلتے رہے، خطرات ان کو ادھر سے اُدھر دوڑاتے رہے مگر ان سے یہ نہ ہوسکا کہ اس کا بہت کم حصہ بہادری کی دنیا میں عزت وکامیابی کے لئے جھیل لیتے ،ٹیکس تو ہر حال، ہر فردو ہر جماعت اور قوم و ملت کے لئے ادا کرنا ضروری ہے چاہے وہ اس کوعزت و بڑائی کیلئے ادا کریں یا ذلت و رسوائی اور غلامی کے لئے، تجربات اس حقیقت کو بتاتے ہیں جس سے کوئی مفرنہیں۔

جو لوگ آزادی کی پر یشانیوں سے ڈرتے ہیں، عزت و شرافت کے انجام سے خائف رہتے ہیں اور اپنے چہروں کو آقائوں کے پیروں تلے روند کر ذلیل کرتے ہیں وہ لوگ امانت میں خیانت کرتے ہیں اپنی عزتوں سے خیانت کرتے ہیں مقام انسانیت سے خیانت کرتے ہیں ،ان بڑی بڑی قربانیوں سے خیانت کرتے ہیں، جو ان کی قوم اور انسانیت نے اپنی آزادی و گلو خاصی کے لئے پیش کیں۔

میں ان لوگوں سے کہتاہوں،ان ضمیرفروشوں سے کہتاہوں، خود فراموشی اور خدا فراموشی کے ان سورمائوں سے کہتا ہوں کہ وہ تاریخ کے عبرتناک واقعات پر غور کریں،عہد قریب میں جو ذلت کی مثالیں گذری ہیں ان پر غور کریں،میں ان کو شب وروز مسلسل پیش آنے والے واقعات پر غور کرنے کی دعوت دیتاہوں، وہ دیکھیں اور سوچیں کہ ذلت کا ٹیکس عزت کے مقابلے میں کتنا مہنگا پڑتا ہے، وہ سوچیں کہ آزادی کے مصائب غلامی کے مصائب سے کتنے کم ہیں،جو موت کو لبیک کہتا ہے زندگی اس کا دامن تھامتی ہے، جو لوگ فقر سے نہیں ڈرتے ان کو شاہوں کا ساغنا نصیب ہوتا ہے، جو لوگ جاہ و جلال اور اقتدار وقوت سے نہیں خائف ہوتے، جاہ وجلال اور اقتدارو قوت خود ان سے خائف رہتے ہیں۔

ہمارے سامنے ماضی قریب کی بہت سی مثالیں ہیں کہ وہ ذلیل و پست ہمت لوگ جنہوں نے ضمیر فروشی کی،خیانت و دغابازی کی،اپنے کو رسوائے زمانہ کیا وہ اس طرح گئے کہ کسی کو ان کے جانے کا غم نہ ہوابلکہ وہ خدا کی لعنت کے سزاوار اور لوگوں کی ملامت کا نشانہ بنے.

ٹھیک اسی طرح ہمارے سامنے ایسی بھی مثالیں ہیں، اگرچہ وہ تھوڑی ہیں کہ جن حوصلہ مندوں نے ذلت و رسوائی سے انکار کیا، خیانت کرنے اور جو ہر مردانگی کی سودے بازی سے انکار کیا، وہ عزت کے ساتھ زندہ رہے اورعزت کی موت مرے.

’’مومنوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اس وعدے کو سچ کر دیا جو انہوں نے خدا سے کیا تھا، ان میں سے کچھ وہ ہیں جنہوں نے جام شہادت پیا اورکچھ وہ ہیں جو انتظار کر رہے میں مگرذرہ برابر نہیں بدلے۔‘‘
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 155590 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More