عدالتیں ختم ہی کیوں نہیں کر دیتے

غریب آدمی کو عدالتوں سے انصاف ملے نہ ملے دھکے خواری اور ذلت تو ضرور ملتی ہے۔۔لیکن کبھی کبھار خوش قسمتی سے انصاف بھی مل جاتا ہے۔اسی انصاف کی توقع سے ہی غریب مجبور اور لا چار آدمی کی ہمت بندھی ہوئی ہوتی ہے ورنہ پریس کلب یا پارلیمنٹ کے سامنے اپنے اوپر مٹی کا تیل یا پٹرول چھڑک کر آتش برد ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مقدمہ کسی چھوٹی عدالت میں ہو یا بڑی عدالت میں انصاف کے تقاضے ایک ہی ہوتے ہیں۔اصول ایک ہی ہوتے ہیں اور معیار بھی ایک ۔۔۔جج صاحب کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ ملزم چاہے سچا ہو یا جھوٹا ۔۔وکیل چاہے قابل ہو یا ٹائم پاس۔بات آ کر جج صاحب پر ہی آکر رکتی ہے۔۔۔ لیکن پھر بھی لوگوں کا عد التوں پر اعتماد قائم ہے خاص طور چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد اور اُن کے از خود نوٹس لینے کے بعد مقدمات کو فیصلے تک پہنچانے پر۔۔۔کرپشن مافیا جس قدر ہمارے ملک میں سر گرم عمل ہے اگر اُن کے خلاف ایکشن لینے والا کوئی نہ ہوتا تو ذرا سوچیئے اس ملک کا کیا حال ہوتا ۔ نوچ نوچ کر کھانے والے اور قانون کی دھجیاں اُڑانے والے کب چاہیں گے کہ اس ملک میں عدلیہ آزاد ہو۔ چور ڈاکو اورلٹیرے کب چاہیں گے کہ کسی کو انصاف ملے۔لوٹنے والے لوٹتے رہیں اور لٹنے والے اُف بھی نہ کر یں ۔۔یہی تو وہ سب چاہتے ہیں۔۔۔۔ سب بے ایمان ضمیر فروش اکٹھے ہو کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں۔۔ یہ اُن کی مفاہمت ہے۔۔۔۔ وہ قتل بھی کریں اور چرچہ بھی ہو اُنہیں کا ۔۔یہی اُن کی پالیسی ہے۔۔۔۔آئیں اور آ کر اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر چلیں جائیں۔۔یہی اُن کا منشور ہے۔۔۔۔روٹی کپڑا اور مکان کا جھانسہ دے کر عوام کو بھوکے ننگے اور بے گھر کر دیں ۔۔ یہی اُن کا نعرہ ہے۔۔۔۔غیروں سے بھیک مانگنے کے بدلے میں اپنوں کا لہوپیش کریں۔۔ یہ اُن کی فارن پالیسی ہے۔۔۔۔اس ملک سے لوٹی ہوئی دولت دوسرے ملکوں کے بنکوں میں جمع کرواتے رہیں۔۔ یہی اصل میں اُن کا کام ہے۔۔۔۔ان سب خصوصیات کے حامل کب چاہیں گے کہ اُن کے ہاتھ روکے جائےں ۔ اُن کے معاملات میں ٹانگ اڑائی جائے۔اُن سے کوئی یہ پوچھ لے کہ تم نے یہ سب کیوں کیا ہے؟؟ اور جو کچھ تم نے غیر آئینی اقدامات کرنے کی جرا ت کی ہے اُس کا حساب دو۔۔۔ آﺅ عدالت میں حا ضر ہو کر یہ بتاﺅ کہ تم نے عدالت کا حکم کیوں نہیں مانا۔ اور یہ بھی بتاﺅ کہ تم نے عدالت کی توہین کیوں کی ہے۔ملک کے سب سے بڑے اور با وقار ادارے کی توہین۔۔۔

اُن کو اس بات کا غم ہے کہ عدالت نے خط نہ لکھنے پر وزیراعظم کو عدالت میں کیوں طلب کیا گیا اور بعد میں توہین عدالت کرنے پراُن کو نا اہل کیوں کرار دے دیا گیا اور کسی بھی پارلیمانی ممبر کی دوہری شہریت ہونے پر اُس کی پارلیمانی ممبر شپ کیوں ختم کر دی گئی وغیرہ وغیرہ۔۔۔اُنہیں اصل میں اسی بات کا ڈر ہے کہ عدالت نے تو عدل کرنے سے باز نہیں آنا اور یونہی ہمیں تنگ کرتی رہے گی اس لیئے بہتر یہی ہے ہمیں جلد از جلد کوئی ایسا قانون بنانا چاہئیے جس کی وجہ سے ہم سب چور ڈاکو اور لٹیرے قانون کی گرفت سے بچ جائیں۔۔عدالت ہم سے کوئی سوال نہ پوچھ سکے ۔۔عدالت ہمیں طلب نہ کر سکے۔۔عدالت کی شان کے خلاف ہم جو کچھ بھی بکیں وہ عدالت کی توہین کے ذمرے میں نہ آئے۔۔نہ ہی ہم خط لکھیں اور نہ ہی ہماری دوہری شہریت ہمارے پارلیمانی ممبر ہونے میں رکاوٹ بنے۔۔۔۔کاش کہ کبھی اتنی محنت اتنی تگ و دواتنی بھاگ دوڑ اور اتنی کوشش ان پارلیمانی چوروں نے اس ملک کی سلامتی اور خود مختاری کے لیئے کی ہوتی جتنی وہ اپنے کالے کرتوتوں کو چھپانے کے لیئے کر رہے ہیں تو یقینا ا س ملک میں اتنی غربت اتنی لا قانونیت اتنی دہشت گردی اور اتنے جرائم نہ ہوتے ۔ بلکہ یہ ملک خوشحالی کی طرف گامزن ہوتا یہاں روزگار ہوتا بے روزگاری میں کمی آتی۔۔۔لیکن !۔۔۔اس حکومت کی ساری کی توانائیاں عدلیہ کے خلاف لڑنے میں صرف ہو رہی ہیں۔۔۔اگر عدالتوں سے اتنا ہی ڈر اور خوف ہے تو
ان عدالتوں کو ختم ہی کیوں نہیں کر دیتے
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 101239 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.