توہین عدالت اور سپریم کورٹ

گذشتہ روز رات دیر گئے قومی اسمبلی نے بڑی سرعت کے ساتھ توہین عدالت کے قوانین میں تبدیلی کا بل پاس کرلیا، اپوزیشن حسب روائت شور شرابہ کرتی رہی جبکہ حکومتی اتحادیوں نے کثرت رائے سے بل منظور کرلیا اور اپنے تئیں راجہ رینٹل عرف وزیر اعظم کو 12 جولائی اور اس کے بعد آنے والے دنوں میں محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ توہین عدالت ترمیمی بل 2012 کے مطابق وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور سینکڑوں کی تعداد میں مرکزی و صوبائی وزراءکو توہین عدالت سے مبرا قرار دیدیا۔ توہین عدالت کے نئے قانون میں وزیراعظم سمیت مذکورہ بالا سینکڑوں لوگوں کو استثنیٰ دیدیا گیا ہے، مطلب یہ ہوا کہ اب جو کوئی پچاس ساٹھ لاکھ لگا کر پہلے ایم پی اے یا ایم این اے بن جائے اور بعد میں مزید کچھ رقم خرچ کرکے وزیر کا عہدہ سنبھال لے اس کے لئے موجیں ہی موجیں ہیں، آج سے پہلے ان لوگوں کو عدالتوں کا کسی حد تک خوف محسوس ہوتا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں رہے گا، جنم جنم کے میلے لوگ وزیر بن کر ٹارزن کی طرح قانون کو اپنے پاﺅں تلے روندا کریں گے اور نعرے لگایا کریں گے اور کوئی مائی کا لعل ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، وہ کسی کی زمین جائیداد پر قبضے کریں، کسی کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائیں یا اس ملک کے خزانے کو باپ کا مال سمجھ کر لوٹ لیں اور باہر بھجوا دیں یا بینامی کی جائیدادیں خرید لیں، اور عدالتیں اگر کوئی احکامات صادر بھی کریں تو ان کو جوتے کی نوک پر رکھا جائے۔ توہین عدالت کے قانون کی منظوری کے ساتھ ہی وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے 21 ویں آئینی ترمیم کا بل بھی قومی اسمبلی میں پیش کیا جس کے مطابق اس ترمیم سے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز حضرات کی تنخواہیں بڑھائی جائیں گی۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ یہ بل جسٹسز کی تنخواہ بڑھانے سے متعلق ہے، کسی کو رشوت نہیں دے رہے، ان کا یہی بیان یہ ظاہر کررہا ہے کہ آئین میں یہ ترمیم ایک طرح کا ”رشوتی پیکیج“ ہے تاکہ وہ ججز حضرات (اگر کوئی ہوں) جو چیف جسٹس کی جانب سے حکومت کو ”ٹف ٹائم“ دینے کے خلاف ہوں، ان کی ہمدردیاں سمیٹی جاسکیں جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان ہرگز اس لالی پاپ کے لالچ میں نہیں آسکتے کیونکہ انہوں نے بھی آئین کے تحت حلف اٹھا رکھے ہیں اور توہین عدالت کا نیا قانون بہرحال آئین کے متصادم ہے۔یہ سراسر چوری اور سینہ زوری کی مثال ہے ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون پر از خود نوٹس لیتی ہے یا کسی کو درخواست جمع کرانا پڑے گی، ہوسکتا ہے خواجہ سیالکوٹی یا عمران خان نے درخواست پہلے ہی ٹائپ کرواکر رکھی ہو، کیونکہ مسلم لیگ کے پاس بھی بہت سے وکلاءموجود ہیں اور عمران خان کے تو اولین ساتھیوں میں حامد خان جیسے زیرک وکیل شامل ہیں جبکہ دوسری طرف گیلانی کو 100 روپے میں سزا کرانے والے وکیل صاحب شائد اس وقت ملک سے ہی باہر ہیں، چنانچہ از خود نوٹس یا کوئی رٹ اس قانون پر عملدرآمد روکنے کے لئے کافی ہوگی اور جب تک سپریم کورٹ اس کے آئینی یا غیر آئینی ہونے کا فیصلہ نہیں کردے گی، حکومت کے پاس سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے کوئی چیز نہیں بچے گی۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کے پاس سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے یہی واحد ”مواد“ ہوگا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور قانون یا آئین میں تبدیلی کرنا پارلیمنٹ کا حق ہے، جبکہ اس کے علاوہ جس طرح کرپشن کی گنگا بہہ رہی ہے، جس طرح امریکہ کے سامنے سجدے کئے جارہے ہیں اور جس طرح مہنگائی، لاقانونیت اور اندھیرے اس وقت ملک میں چھائے ہوئے ہیں، حکومت کسی اور معاملے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کسی بھی پوزیشن میں ہرگز نہیں۔ دوسری طرف چیف جسٹس نے ایک بار پھر Pre empt کرتے ہوئے چند دن قبل ہی یہ کہا تھا کہ آئین سب سے بالا دست ہے، ان کی اس بات میں یقینا وزن ہے کہ آئین بے شک آئین ساز اسمبلی نے بنایا تھا لیکن بننے کے بعد آئین کا رتبہ اس لئے بڑھا ہے کہ اسی کے مطابق سارے قوانین تشکیل دئےے جائیں اور اگر آئین میں بھی کوئی تبدیلی کرنی ہو تو اس کے لئے بھی واضح طریق کار کے ساتھ ساتھ حدود و قیود کا بھی تعین کردیا گیا ہے۔ ویسے آئین اور قوانین کو آئینی قرار دینا اور ان کی تشریح کرنا اعلیٰ عدالتوں کا دائرہ اختیار ہے۔ اب جبکہ پاکستان کے وکلائ، عوام الناس ، میڈیااور سول سوسائٹی نے دن رات کی محنت اور قربانیوں کے بعد عدلیہ کو بحالی اور آزادی دلوائی ہے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اس معاملے میں کسی بھی طرح پیچھے رہیں۔ توہین عدالت کا نیا قانون، قانون نہیں ہوگا، قانون کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ہوگا اور اسے کسی صورت قائم نہیں رکھا جاسکتا، نیز اس قانون سازی میں سراسر بدنیتی شامل ہے کہ صرف اور صرف کرپشن کو بچایا جائے اور تحفظ دیا جائے۔ پاکستان کے عوام اب تقریباً جاگ گئے ہیں، انہیں کسی حد تک برے اور بھلے کی تمیز ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ہم بطور پاکستانی قوم ابھی ارتقائی مراحل سے گذر رہے ہیں، انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہوگا اور بڑے بڑے لٹیرے جو جمہوریت ایک بہترین انتقام کا نعرہ لگا کر عوام سے بدترین انتقام لیتے ہیں، جو خود تو مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں لیکن عوام کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیتے ہیں، ان کا بستر بوریا گول کردیا جائے گا۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 206924 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.