آج جب ہم قومی و نظریاتی انحطاط
پذیری کی صورتحال میں ریاست جموں و کشمیر کے ان باشندوں کی بات کرتے ہیں
جنہوں نے کشمیریوں کے حقوق ،عزت نفس کے لئے بے دریغ قربانیاں دیں اور قوم
کے لئے اپنی جانیں بھی نچھاور کر دیں ،تو لوگوں کو بڑا عجیب سا لگتا ہے کہ
وہ کیسے لوگ تھے جو مال و اسباب بنانے کے بجائے ریاستی باشندوں کے حقوق کے
لئے اپنا تن ،من ،دھن لٹا دیتے تھے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آزاد کشمیر
اپنے قیام کا جواز فراموش کرتے ، تحریک آزادی کشمیر سے متعلق اپنے فرائض کو
پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے خاندانوں،قبیلوں کے مفادات میں محدود ہو کر رہ گیا
ہے۔آزاد کشمیر کی سول سوسائٹی جہاں آزاد کشمیر حکومت کو حقیقی طور پر
بااختیار بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے وہاں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آزاد
کشمیر کے سیاستدانوں کو ملک و عوام کے مفاد پر مبنی سیاسی تربیت کی ضرورت
ہے۔کشمیر کی ریاست اور عوام کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائین کے آر پار
سیاستدانوں کی عمومی نااہلی سے جہاں کشمیری عوام کی طرف سے دی گئی بے دریغ
قربانیوں کا صلہ نہ ملا وہاں تحریک آزادی کشمیر کی عشروں پہ محیط تحریک کو
نیم تاریک سرنگ میں پھنسا دیا ہے۔
29 اپریل 1931 ءکو جموں میں ”مداخلت فی الدین “کا وہ واقعہ پیش آیا جو
تحریک آزادی کشمیر کا آغاز ثابت ہوا۔ جموں میں امام صاحب نماز عید کا خطبہ
عید دیتے ہوئے موسیٰ علیہ اسلام اور فرعون کا واقعہ بیان کر رہے تھے تو
اچانک ایک غیرمسلم سب انسپکٹر پولیس پکار اٹھا۔”امام صاحب خطبہ بند کیجئے
آپ قانون کی حدود کو پھاند رہے ہیں اور جرم بغاوت کے مرتکب ہو رہے
ہیں“۔مسلمانوں میں اس واقعہ سے زبردست اشتعال پیدا ہوا اور نماز کے فورا ً
بعد جامع مسجد جموں میں ایک پرجوش احتجاجی جلسہ عام ہوا جس میں ینگ مینز
مسلم ایسوسی ایشن کے نوجوانوں نے پرجوش اور جذبات سے بھرپور تقریریں کیں
اور ”مداخلت فی الدین “ پر شدید احتجاج کیا ۔ بعض اعتدال پسند مسلمانوں نے
سب انسپکٹر پولیس کے خلاف توہین دین کا مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا
کہ”خطبہ نماز کا جزو قرار نہیں دیا جا سکتا ہے“۔فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ
میں اپیل کی گئی تو فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوا کہ ”خطبہ مسلمہ طور پر
نماز کا جزو ہوتا ہے“۔
چند دن ہی گزرے توجموں جیل کی پولیس لائینز میں ایک ہندو ہیڈکانسٹیبل کے
ہاتھوں توہین قرآن کا حادثہ پیش آیا۔ ان ہی دنوں جموں کے ایک گاﺅں میں
پولیس نے مسلمانوں کو عیدگاہ میں نماز پڑھنے سے روک دیا۔ ان تمام واقعات نے
ریاست کے مسلمانوں میں سخت اشتعال پیدا کیا اور ریاست کے ایک سرے سے لے کر
دوسرے سرے تک ایک آگ سی لگ گئی۔سرینگر کی جامع مسجدمیں اسلامیان کشمیر کا
ایک بھاری جلسہ عام ہوا جس میںمقررین نے جموں کے واقعات پر زبردست احتجاج
کیا ۔ تمام ریاست کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ گئی۔ مہاراجہ
ہری سنگھ کا مشیر خاص مسٹر ویکنفیلڈ اس سلسلے میں جموں آیا اس نے مسلمانوں
کو ایک وفد کی صورت میں مہاراجہ ہری سنگھ سے ملنے کا مشورہ دیا ۔ چنانچہ
مسلمانان جموں نے چوہدری غلام عباس٬ مستری یعقوب علی٬ سردار گوہرالرحمن اور
شیخ عبدالحمید کو ایک جلسہ عام میں اپنا نمائندہ چن لیا۔ سرینگر والوں کو
بھی اپنے سات نمائندے چننے کا مشورہ دیا گیا۔ ‘ چنانچہ 21 جون کو خانقاہ
معلی میں اسلامیان کشمیر کا ایک یادگار تاریخی جلسہ عام ہوا جس میں ہر طبقہ
اور فرقہ کے مسلمانوں نے بھاری تعداد میں شرکت کی۔ اس اجلاس میں خواجہ
سعیدالدین شال ٬ میر واعظ محمد یوسف شاہ ٬ میر واعظ احمد اللہ ہمدانی ٬
آغاسید حسین شاہ جلالی ٬ خواجہ غلام احمد عثمانی ٬ شیخ محمد عبداللہ اور
منشی شہاب الدین کو نمائندگان منتخب کیا گیا جلسے کے اختتام پر ایک غیر
ریاستی پٹھان عبدالقدیر (جو ایک انگریز کے ساتھ مطبورخانساماں یوپی سے آیا
تھا) سٹیج پر آکر مہاراجہ ہری سنگھ اور ڈوگرہ راج کے خلاف ایک پرجوش اور
باغیانہ تقریر کی۔ جلسہ عام اس تقریر کے بعد حیرانگی کے عالم میں منتشر
ہوگیا۔ 25 جون کو عبدالقدیر دفعہ 34 الف (بغاوت) کے تحت گرفتار کیا گیا اور
اس پر مقدمہ قائم کیا گیا ۔ 9 جولائی 1931 ءکو مہاراجہ ہری سنگھ گول میز
کانفرنس لنڈن سے واپس آیا تو اس نے رعایا کے نام ایک پیغام جاری کیا جس میں
اور باتوں کے علاوہ یہ بتایا کہ ”میر ا مذہب انصاف ہے“۔
13 جولائی 1931 ء کے دن سنٹرل جیل سرینگر میں عبدالقدیر کے مقدمہ کی پیشی
تھی۔ عدالت کا اجلاس شروع ہونے سے قبل ہی کشمیری مسلمان جیل کے باہر جمع
ہونے لگے۔ جلد ہی ان کی تعداد سات ہزار تک پہنچ گئی۔ لوگ مجاہدعبدالقدیر کو
دیکھنا چاہتے تھے۔ کیونکہ شہر میں یہ افواہ گرم تھی کہ عبدالقدیر کو قتل کر
دیا گیا ہے۔ عوام کی خواہش پر زور مطالبے میں بدل گئی۔ اور ان کا اصرار
بڑھتا گیا ۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے عوام کے مطالبے کی کوئی پرواہ نہ کی۔ اس پر
لوگوں نے مقدمہ کی کارروائی دیکھنے کے لئے جیل کے احاطے میں داخل ہونے کی
کوشش کی ۔ پولیس نے مداخلت کی اور چند آدمیوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو
ہجوم بے قابو ہوگیا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے گولی چلانے کا حکم دیدیا۔ ڈوگرہ فوج
نے اشارہ پاتے ہی گولی چلا دی جس سے سرکاری اعلان کے مطابق 21 مسلمان شہید
اور بے شمار زخمی ہوگئے۔ اس حادثے کے بارے میں جو سرکاری اعلان جاری ہوا اس
میں بتایا گیا تھا کہ ”جب سماعت کنندہ مجسٹریٹ جیل کی ڈیوڑھی کے اندر داخل
ہوا تو ہجوم بھی غیر آئینی طور پر جیل کے احاطے میں داخل ہوگیا نقص امن کا
احتمال تھا اس لئے حکومت کو بہ امر مجبوری یہ اقدام کرنا پڑا“۔
13جولائی 1931 ءکا دن تحریک آزادی کشمیر کے لئے سنگ میل ثابت ہوا اور کشمیر
ی عوام آج تک اس دن کو قومی تہوارکے طور پر ”یوم شہدائے کشمیر “ کے نام سے
مناتے ہیں ۔ چوہدری غلام عباس خان اپنی خودنوشت سوانح حیات ”کشمکش“ میں اس
دن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ”13 جولائی کا یوم سعید اور تاریخ کشمیر
میں سب سے زیادہ اہم اور مقدس دن آپہنچا۔ اگر یہ دن کیلنڈر میں موجود نہ
ہوتا تو ریاست کشمیر کی سیاسی تاریخ بالکل مختلف ہوتی“۔پنڈت پریم ناتھ بزاز
اپنی کتاب ”انسائیڈ“ کشمیر میں لکھتے ہیں 13 جولائی کا دن تاریخی اور سیاسی
طورپر تاریخ کشمیر کا اہم ترین دن ہے“۔
عوام سینٹرل جیل سے شہداءاور زخمیوں کو جلوس کی صورت میں جامع مسجد تک لائے
۔ راستے میں مہاراج گنج بازار کے قریب ہندوﺅں کے ساتھ جلوس کا تصادم ہوا۔
مسلمانوں نے ان کی دکانوں پر حملہ کیا اس کے ساتھ ہی شہر کے مختلف حصوں
بالخصوص وچارناگ اور نوشہرہ میں ہندوﺅں کے مکانوں کو لوٹا گیا۔ تین ہندو
قتل کئے گئے اور 163 زخمی ہوئے۔ سینٹرل جیل کے واقعہ کے فوراً بعد فوج نے
شہر پر قبضہ کیا۔ اسی دن نواب بازار میں مسلمانوں پر پھر گولی چلی اور ایک
مسلمان شہیدہوا 300 مسلمان ہندوﺅں کو لوٹنے کے الزام میں گرفتار ہوئے اسی
دن جموں کے نمائندگان میں سے چودہری غلام عباس ٬ سردار گوہر الرحمان اور
مستری یعقوب علی کو گرفتار کر کے بادامی باغ چھاﺅنی میں پہنچایا گیا ۔ رات
کو شیخ محمد عبداللہ کو بھی گرفتار کیا گیا دوسرے دن مولوی عبدالرحیم اور
غلام نبی گلکار بھی گرفتار ہوئے۔ 15 جولائی 1931 ءکو ان سب لیڈروں کو قلعہ
ہری پربت میں قیدکردیا گیا ۔ کشمیری عوام نے مسلسل گیارہ روز تک مکمل ہڑتال
کی چنانچہ جولائی کے آخر میں یہ لیڈر رہا ہوئے۔
جولائی کے واقعات سے متاثر ہو کر پنجاب کے بعض سرکردہ مسلمانوں نے ریاست
جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی امداد کے لئے ”کشمیر کمیٹی “کے نام سے ایک
جماعت قائم کی۔ ان مسلمانوں میں حضرت علامہ اقبالؒ اور مرزا البشرالدین
محمود کے نام قابل ذکرہیں۔ اس سے قبل ہی برصغیر پاک و ہند کے ممتاز کشمیری
مسلمانوں نے ”آل انڈیا کشمیر ی مسلم کانفرنس“ کے نام سے نواب سلیم اللہ خان
آف ڈھاکہ کی قیادت میں ایک انجمن اپنے شملہ کے اجلاس میں قائم کی تھی اس
جماعت نے کشمیری مسلم نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے وظیفے دیئے اور اسی
نوعیت کے دوسرے کام کئے۔ کشمیر کمیٹی نے مالی و عملی امداد کی ۔ دوسری طرف
ہندوستان کے ہندوﺅں نے ڈوگرہ راج کی حمایت کی۔ چنانچہ 27 مئی 1931 ءکو
انبالہ میں ہندو راجپوتوں نے ایک قرار داد کے ذریعے مہاراجہ ہری سنگھ کو
اپنی مکمل حمایت کا یقین دلاتے ہوئے مسلمانوں کی تحریک آزادی اور پنجاب کے
مسلم پریس کی شدید مذمت کی۔
کشمیر کمیٹی نے 14 اگست 1931 ءکو تمام برصغیر پاک و ہند میں ”یوم کشمیر“
منایا۔ ریاست میں بھی یہ دن پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا ڈوگرہ حکومت
نے 13 جولائی کے واقعے کی تحقیقات کرانے کے لئے دلال کیشن کے نام سے ایک
کمیٹی مقرر کی۔ مسلمان نمائندوں کے اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا ۔ اسی دوران
کانگرسی لیڈر مولانا ابوکلام آزاد(مرحوم) اور لبرل لیڈر میر تج بہادر سپرد
کشمیر آئے۔ مولانا آزادمرحوم نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنی تحریک
میں غیر مسلموں کو بھی شامل کریں۔ سرسپرد نے حکومت اور عوام دونوں کو
اعتدال پسندی کا مشورہ دیا۔ ان ہی ایام میں پنجاب کا ایک مسلمان لیڈر
سرمہرشاہ کشمیر آیا۔ ان کی مداخلت پر حکومت اور مسلم نمائندوں کے درمیان 26
اگست 1931 ءکو ایک سیاسی سمجھوتہ ہوا اس سے قبل مسلم نمائندوں نے مہاراجہ
ہری سنگھ سے بھی ملاقات کی۔ لیکن انہیں سوائے مایوسی اور بددلی کے کچھ حاصل
نہ ہوا۔ سمجھوتے کے مطابق مسلمان نمائندوں نے وعدہ کیا کہ وہ مسجدوں میں
حکومت یا کسی فرقہ کے خلاف تقریریں نہیں کریں گے۔ وہ باہر سے کسی کو اپنے
معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے اور مسلمان مہاراجہ کے وفادار
رہیں گے۔ مہاراجہ بھی مسلمانوں کی جائز شکایات اور مطالبات پر ہمدردانہ غور
کریں گے۔
حکومت خوش تھی کہ وہ تحریک کو خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کرنے میں کامیاب
ہوگئی۔ نمائندے اپنی اس کامیابی پر نازاں تھے کہ ان کو حکومت کے مساوی
حیثیت دی گئی۔ عوام تو حکومت سے پہلے ہی بے زار تھے اور اب اپنے نمائندوں
سے بھی ناراض ہوگئے کہ ان کے ساتھ بے وفائی کی گئی 28 اگست 1931 ءکو جامع
مسجد سری نگر میں مسلمانوں کا ایک عظیم جلسہ ہوا ۔ لیڈروں کے خلاف نعرے لگے
مگر جلد ہی میر واعظ محمد یوسف شاہ کی تقریر سے عوام کے جذبات سرد پڑ گئے ۔
جموں میں اسی قسم کا جلسہ عام ہوا جس میں چوہدری غلام عباس خان نے لوگوں کو
اصل پوزیشن سے آگاہ کیا۔ پھر کیا تھا! لیڈر وں کے حق میں پھر زندہ باد کے
نعرے بلند ہونے لگے۔ اسی دوران میں کشمیری پنڈتوں نے بھی ایک تحریک شروع کی
اور پنڈت کشپ بندھو قید ہوگئے۔ تحریک چلانے والوں کا مطالبہ یہ تھا کہ
کشمیری لیڈروں کو سخت سزا دی جائے کیونکہ یہی لوگ 13 جولائی 1931 ءکے
واقعات کے ذمہ دار ہیں۔
21 ستمبر 1931 ءکو کشمیری مسلم لیڈروں کو پھر گرفتار کیا گیا۔ سری نگر میں
گرفتار ہونے والوں میں شیخ محمد عبداللہ اور مسٹر جلال الدین سرفہرست تھے۔
عوام نے احتجاج کیا 23 ستمبر کو جامع مسجد سرینگر میں ایک بھاری احتجاجی
جلسہ ہوا۔ جلوس نکالنے کی کوشش میں دو مسلما ن پولیس ی گولیوں سے شہید
ہوگئے۔ اسی دن خواجہ سعیدالدین شال ٬ غلام احمد عشائی اور بخشی غلام محمد
کی گرفتاری کا حکم جاری کیا گیا۔ خواجہ سعیدالدین شال کی گرفتاری کے وقت
عوام نے مداخلت کی اور پولیس کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا ۔ شہر میں
احتجاجی جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ حکومت نے دفعہ 19 ایل کے تحت مارشل
لاءکا نفاذ کر کے سری نگر کو فوج کے سپرد کر دیا۔ تمام ریاست میں ہڑتال
ہوئی ٬ جلسے ہوئے جلوس نکالے گئے۔ اسلام آباد میں ملخ ناگ کے قریب پولیس کی
گولیوں سے 21 مسلمان شہید ہوئے۔ جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں اسلام
آباد میں بھی مارشل لاءکا اعلان ہوا۔ شوپیاں میں حالات اور بھی خراب ہوئے۔
یہاں ایک غیر مسلم پولیس افسر مارا گیا فوج نے مارشل لاءکا اعلان کر کے
قصبے کا انتظام سنبھال لیا تین مسلمان فوج کی فائرنگ سے شہید ہوگئے۔ سرینگر
میں نمائش گاہ میں ٹکٹکی کا مرکز قائم کر دیا گیا اور ایک سو سے زیادہ
کشمیری مسلمانوں کو درے لگائے گئے ۔ یہ سلسلہ 5 اکتوبر 1931 ءتک برابر جاری
رہا۔ اس دن مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی سالگرہ پر تمام سیاسی قیدیوں کو رہا
کر کے مارشل لاءکے خاتمے کا اعلان کیا اور ان تمام واقعات کی تحقیقات کے
لئے مسٹر مڈلیٹن کی صدارت میں ایک کمیشن مقرر کیا ۔ مسلمانوں نے اس کمیشن
کا بھی بائی کاٹ کردیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنے شاہی اعلان میں تمام
فرقوں کو اپنی شکایات اور مطالبات پیش کرنے کا حکم دیا اور ان پر ہمدردانہ
غور کرنے کا وعدہ کیا۔
ستمبر 1931 ءکے آغاز میں ہی پنجاب کی قوم پرست مسلم جماعت مجلس حرار اسلام
نے کشمیری مسلمانوں کی امداد اور کشمیر میں ذمہ دار نظام حکومت کے قیام کے
لئے ایک تحریک شروع کی اس میں پنجاب کے مسلمان جتھوں کی صورت میں ریاست میں
داخل ہوکر اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کرتے تھے۔ اس تحریک میں ہزاروں
مسلمانوں نے پرجوش حصہ لیا احرار کے تمام سرکردہ لیڈر قید ہوگئے۔ ستمبر
1931 ءمیں 2500 رضاکار گرفتار ہوگئے۔ 29 اکتوبر سے 2 نومبر 31 ءتک صرف پانچ
دن کے اندر دو ہزار مسلمان رضا کار گرفتار ہوئے۔ کل 60 ہزار رضا کاروں نے
تحریک میں حصہ لیا۔ 5 اکتوبر 1931 ءکے شاہی اعلان کے بعد ریاستی مسلمان
احرار کی تحریک سے لاتعلق ہو گئے البتہ جموں کے بعض نوجوان اس تحریک سے
خاصے متاثر ہوگئے۔ اور یہاں حکومت کے خلاف سول نافرمانی شروع ہوگئی۔ 30
اکتوبر 1931 ء کو اللہ رکھا ساغر کی سرکردگی میں 30 رضا کاروں کے پہلے جیش
نے خلاف قانون اخبار ”انقلاب“ کے پرچے ہاتھ میں لئے ہوئے اپنے آپ کو
گرفتاری کے لئے پیش کیا۔ اسی دن ایک بھاری جلوس پر ”غازی کیمپ“ کے قریب
پولیس نے گولی چلائی اور دو مسلمان شہید اور چھ زخمی ہوگئے۔ تحریک کی شدت
سے مجبور ہو کر ڈوگرہ حکومت نے انگریزی فوج کی امداد حاصل کی ۔ چنانچہ 4
نومبر 31 ءکے دن انگریزی فوج جموں شہر میں داخل ہوگئی۔ نومبر کے آخری دنوں
میں میر پور کے حالات بھی خراب ہوگئے۔ یہاں کے مسلمانوں نے حکومت کو مالیہ
(سرکاری لگان) دینے سے انکار کر دیا اور ہندو ساہوکاروں کے خلاف تحریک شروع
کی۔ نومبر کے آخری ہفتے میں سردار گوہر الرحمن کی طرف سے ایک منشور جاری
ہوا جس میں ہندوساہوکاروں کے مظالم درج تھے حکومت نے سردار گوہر الرحمان کو
میر پور کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیکر گرفتار کر لیا بے شمار لوگ قیدکر
دیئے گئے ۔ میرپور کوٹلی ٬ راجوری اور پونچھ میں ہندوساہوکاروں کے خلاف
ماردھاڑ کی ایک زبردست تحریک شروع ہوگئی۔ ہندوﺅں کے بعض دیہات تباہ کر دیئے
گئے جگہ جگہ عوام نے اپنی حکومت قائم کی۔ راجہ پونچھ عوام کے ڈر سے قلعہ
بند ہوگیا۔ میرپور ٬ کوٹلی ٬ تھکیالہ٬ پڑاوہ راجوری کھوئی رٹہ اور پونچھ پر
کئی دن تک عوام کا قبضہ رہا۔ عوام نے ڈوگرہ فوج کا مردانہ وار مقابلہ کیا
اور اس دوران ایک ہزار مسلمان مارے گئے ۔ حکومت نے لاچار ہو کر متاثرہ
علاقہ انگریزی فوج کے حوالہ کیا۔ اس طرح بڑی مشکل سے جنوری 32 ءکے آخری
اعتدال پر آگئے۔ 19 جنوری 32 ءکو شیخ محمد عبداللہ اور دیگر لیڈروں کو پھر
گرفتار کر لیا گیا۔ شیخ صاحب نے جیل سے ایک تار میں حکومت کو یقین دلایا کہ
ان کا میرپور کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے چنانچہ انہیں جلد رہا کر دیا
گیا۔ اس دوران سوپور بارہ مولہ اوڑی میں پولیس نے مسلمانوں پر گولی چلائی ۔
کئی مسلمان مارے گئے بارہ مولہ میں ایک معمر عورت کو گولی مار کر شہید کیا
گیا اس نے فائرنگ کرنیوالے ایک سپاہی پر کانگڑی دے ماری تھی۔ ہندواڑہ میں
45 مسلمان مارے گئے ۔ 32 ءکے وسط میں حالات بہتر ہوگئے۔ |