پاکستان میں جمہوریت،ہے یا نہیں؟

ملک میں پیپلز پارٹی کے رواں دور اقتدار کی کرپشن،اقرباءپروری،بد انتظام سلطنت دیکھتے ہوئے ملکی تاریخ سے واقف اکثر کئی سینئر صحافی اور دانشور بھی یہ کہتے ہیں کہ ” دیکھ لی جمہوریت،یہی جمہوریت تم چاہتے تھے،جمہوریت بہترین انتقام“۔ جمہوریت کے خلاف ایسا تاثر دینے والوں میں مخصوص حلقوں کے ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو اپنے سیاسی و مادی مفادات کا تحفظ فوجی آمریت میں ہی محفوظ تصور کرتے ہیں۔بلاشبہ ملک میں سیاست ایک تہمت اور ناجائز مفادات کے حصول کی علامت بن چکی ہے ۔تاہم ملک و قوم کے بہترین مفاد میں میری یہ رائے ہے کہ ملک میں جمہوریت کی ناکامی کا منظر نہیں ہے بلکہ یہ اس” ملٹری ڈیمو کریسی“ کی بدترین شکل ہمیں درپیش ہے جس کا پوداجنرل ایوب خان نے لگایا اور پھر ییحی خان ،جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف سے اسے پروان چڑہایا۔

جنرل ایوب نے 1958ءمیں مارشل لاءلگانے کے بعد جب ملک پر دائمی قبضے کا منصوبہ بنایا تو مختلف سیاسی جماعتوں نے محترمہ فاطمہ جناح سے درخواست کی کہ وہ ملک کی ابتر صورتحال کے پیش نظر قوم کی قیادت کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔محترمہ فاطمہ جناح اس وقت ضعیف العمری میں تھیںتاہم عوام کی حالت لاچاری اور دوسری طرف ایوب ٹولے کی ہٹ دھرمی دیکھتے ہوئے وہ میدان میں نکل آئیں۔محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت کیا میسر آئی کہ تمام سیاسی جماعتیں محترمہ فاطمہ جناح کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئیں اور ان میں وہ جماعتیں اور شخصیات بھی شامل تھیں جنہیںعرصہ دراز سے ”پاکستان مخالف عناصر“ کہا جاتا رہا ہے۔ناجائز طور پر برسر اقتدار ایوب خان نے قوم کی اس سیاسی قوت کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے افراد کی کھیپ تیار کی جو سیاست کو کمائی کا بڑا ذریعہ تصور کرتے ہوئے خوشامد اور ذاتی مفادات کی سیاست کاری کر سکیں۔ایوب خان کے بنائے گئے بی ڈی سسٹم کے باوجود محترمہ فاطمہ جناح صدارتی الیکشن جیت گئیں لیکن پاکستان کے وجود اور مستقبل پر ’ظلم عظیم‘ کرتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح کوجبر اور دھونس پر مبنی دھاندلی کے ذریعے شکست یافتہ ظاہر کیا گیا۔ایوب خان نے پاکستان کے وسیع تر مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے بھارت کے ساتھ ” انڈس واٹر ٹریٹی“ کرلیا جس کے تحت نہ صرف دو دریا بھارت کو بیچ دیئے گئے بلکہ بھارت کے ساتھ کشمیر کے دریاﺅں کی ”بندر بانٹ“ کرتے ہوئے متنازعہ ریاست جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کو سیز فائر لائین(جسے 1971ءکی جنگ کے بعد لائین آف کنٹرول کا نام دیا گیا)کی بنیاد پربھارت کے ساتھ تقسیم کرنے پر مہر ثبت کر دی۔ایک عشرہ حکومت کے بعد عوام کے مظاہروں کے دوران ایوب خان نے اس وقت اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کیا جب اس کے اپنے معصوم نواسے نے ایوب خان کو دیکھ کر اس وقت کا مقبول عام نعرہ ” ایوب کتا ہائے ہائے “ لگایا۔کہتے ہیں کہ ایوب کی بیٹی نے یہ سن کر اپنے بیٹے کو تھپڑ مارا تو ایوب نے کہا اسے نہ مارو یہ معصوم ہے اور معصوم کی بات وقت کی آواز ہوتی ہے۔ایوب نے اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن پاکستان کو چھوڑنے کا نہیں۔

ایوب خان نے اپنی ہی سیاسی حکومت کے بجائے اقتدار جنرل ییحی کے حوالے کر دیاجس کے ”منصفانہ“ انتخابات اور بنگالیوں کو انتقال اقتدار سے انکار نے پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیئے۔اسی ییحی حکومت کے تسلسل میںذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہوئی ۔بھٹو اپنے معیاد حکومت کے اختتام سے پہلے ہی من مانیوں اور سیاسی مخالفین کو ” ایف ایس ایف“ جیسے ظالمانہ حربوں سے کچلنے کی پالیسی کی بدولت عوام میں غیر مقبول ہوئے اور پھر الیکشن میں دھاندلی کے ردعمل میںسیاسی جماعتوں کے ”قومی اتحاد“ کی تحریک کی تان جنرل ضیاءالحق کے 5 جولائی1977ءکے مارشل لاءپر ٹوٹی۔یہی وہ وقت تھا جب امریکہ نے روس کی علاقائی سرگرمیوں کے ”کاﺅنٹر“ کے طور پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کی ”حوصلہ افزائی“ کی جنہوں نے پاکستانی عوام کو ”یہاں کیا چلے گا نظام مصطفے“ کا نعرہ دیا۔جنرل ضیاءکی صورت انہیں ”امیر المومنین“ اور جہاد افغانستان میسر آ گیا تو انہیں اپنے ”اسلامی جذبات“ کا بھرپور مظاہرہ کرنے کا موقع مل گیا۔جنرل ضیاءنے جنرل ایوب کی طرح اپنا الگ نظام حکومت اور پسندیدہ افراد کو متعارف کرایا۔1988ءمیںطیارہ تباہ ہونے پر جنرل ضیاءکا اقتدار ختم ہوا۔الیکشن ہوئے،پیپلز پارٹی کی حکومت بنی لیکن اس سابق حکومت کے تسلسل میں ہی جو جنرل ایوب حکومت کے تسلسل میں چلی آ رہی تھی۔جنرل مشرف کا مارشل لاءلگا،پھر مشرف نے جنرل ایوب اور جنرل ضیاءکی طرح اپنا نظام حکومت،اپنی سیاسی جماعت اور اپوزشن بھی اپنی ہی بنا ڈالی۔آخر مشرف کو بھی جانا پڑا ،پھر پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی لیکن اسی غیر قانونی مشرف حکومت کی تسلسل میں ۔یوں ملک میں غیر قانونی ،غیر آئینی حکومتوں کے طویل عرصہ اقتدار کی بدولت حقیقی سیاسی جماعتوں کی جگہ شخصی و علاقائی گروپ قائم کئے گئے ،جس کی بدترین شکل/صورتحال ملک و عوام کو درپیش ہے۔

”ملٹری ڈیموکریسی“نے ملک و عوام کا یہ حال کیا کہ اب سیاسی جماعتوں کے نام پر شخصی، خاندانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپ قائم ہیں۔نام تو سیاسی جماعتوں کے ہیں لیکن کسی گروپ میں سیاسی جماعت کے لوازمات ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ۔یوں ابھی پاکستان جمہوریت سے کوسوں دور ہے۔جمہوریت کا مطلب ہے کہ عوام کے مفاد کو سب پر ترجیح دینا،عوام کو حقیقی طور پر ملک و حکومت کا اختیار دینا۔لیکن ہمارے ملک میں تو عوام کو سب سے بے توقیر شے بنا دیا گیا ہے۔ہمارے برادری ازم ،طاقت ،دھونس،ظلم پر مبنی معاشرے میںعوام کو ” باعزت“ کب قرار دیا جائے گا ،ایک سہانا سپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ہم عوامی سوچ و مفاد کے مطابق جمہورت کے سفر میں آگے بڑھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن خرابیاں اور برائیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں اور مخالفانہ قوتیں اتنی مضبوط ہیں کہ باشعور لوگوں کو جمہوریت کا یہ سفر کو لہو کے اس بیل کی مانند لگتا ہے جو آنکھوں پہ پٹی بندھے ،دائرے میں گھومتے ہوئے سمجھتا کہ کہ وہ سفر کر رہا ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699770 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More