جیسے ہی بجلی کا نزول ہوتا ہے
ایک عجیب سی رونق بپا ہوجاتی ہے گلی کونوں میں کھڑے پاکستان کے نئے قومی
لباس بنیان شلوار میں ملبوس افراد یکلخت گھروں کو بھاگتے ہیں کوئی موبائیل
چارج کرنے کےلئے بے تاب ہے تو کوئی استری اور کپڑوں کےلئے میدان جنگ تیار
کررہا ہے کوئی پانی کی موٹر چلانے کےلئے بٹن کی جانب لپکتا ہے تو کوئی
کمپیوٹرکے ساتھ دوستی نبھانے کےلئے بے چین ہے جبکہ خواتین کا یہ عالم کہ
کوئی ریفریجریٹر میں پانی کی بوتلیں بھر کر رکھ رہیں ہیں تو کوئی واشنگ
مشین کو جنگ و جدل کیلئے میدان میں لا رہی ہیں کوئی جوسر کو نئے محاذ کےلئے
تیار کر رہی ہیں تو کوئی ٹی وی کے ریموٹ کنٹرول پر انگلیاں دبا دبا کر اپنے
پسندیدہ ڈرامے کی تلاش میں سرکردہ ہیں غرض ایک عجیب سی چہل پہل ایک دم وقوع
پذیرہو جاتی ہے چہرے خوشی سے منور ہوجاتے ہیں لب و لہجہ کرختگی سے نرمی پر
منتقل ہو جاتا ہے وہ خوشی کے آثار جو چہروں پر سالہ سال بعد میسر آتے تھے
اب ہر ایک گھنٹے بعد میسر آتے ہیں شاید کہ وہ دعا جو عموماً عیدین پر کارڈز
اور ایس ایم ایس میں لکھی جاتی تھی ” اللہ کرے آپ کا ہر دن عید ہو“
پاکستانیوں کے حق میں قبولیت کا شرف حاصل کر چکی ہے ۔
خیر بجلی کی اس طویل ترین لوڈشیڈنگ پر کیا غصہ اور کیا غم کرنا اپنا ہی
بویا آج ہم کاٹ رہے ہیں کل اگر اچھا فیصلہ کیا ہوتا تو آج یہ سب کچھ نہ
دیکھنا پڑتا ۔حالیہ احتجاجی لہر کو دیکھ کر مجھے خلیل جبران کی مشہور زمانہ
نظم ” قابل رحم قوم “کے اشعار یاد آ گئے جس میں خلیل جبران کہتا ہے ” افسوس
اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال ڈھول تاشے سے کرے اور رخصت گالم
گلوچ سے کرے“ ۔یہ سطور پڑھ کر خیال آتا ہے کے شاید خلیل جبران نے افسوس
شاید ہم پہ ہی کیا ہے ۔حال تو ہمارا بھی کچھ ایسا ہی ہے کل انہی حکمرانوں
کو ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈال کر تخت بادشاہی سونپا اور آج انہی کو گالم
گلوچ سے نواز رہے ہیں صبح اٹھتے ہی حکمرانوں کےلئے ” پھولوں “سے بھر پور
الفاظ زبان سے نکلتے ہیں جو رات گئے تک زبان کی زینت بنے رہتے ہیں ۔اس قوم
کا معیار یہ دیکھ لیں کہ مڑ مڑ کا یہی چہرے اقتدار پر قابض ہو رہے ہیں جو
اسی قوم کی ووٹوں کا سرمایہ ہیں پھر یہی قوم ایک عرصہ تک انہی کو کوستی ہے
اور برا بھلا کہہ کر اقتدار سے ہٹا دیتی ہے ۔کچھ عرصہ بعد یہی دکھ درد کا
مداوا بن کر ظلم وستم کی وجہ بن جاتے ہیں اور یہ سلسلہ نسل در نسل منتقل ہو
رہا ہے ۔اب بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے کچھ عرصہ بعد یہی لٹیرے اقتدار کے
بھوکے اور لوگوں کے دکھ درد سے عاری انہی عوام سے ووٹ کی صورت میں بھیک
مانگیں گے اور پھر یہی عوام انہی مفاد پرستوں کوانکے پچھلے کارناموں کو
معاف کر کے ووٹ دیکر اقتدا ر سونپے گی اور یہی سلسلہ پھر شروع ہو جائے گا۔
پھرسمجھ نہیں آتی کہ یہ احتجاج اور گالم گلوچ کیوں ؟؟ کیا عوام بھی مفاد
پرست ہیں ؟؟ اگر تو ایسا ہے تو پھر حکمرانوں کا مفاد پرست ہونا ایک حقیقی
امر ہے ۔
ظلم کی چکی میں پسنے والی اور اپنے گناہوں کی سز ا پانے والی عوام اگر ظالم
اور بے حس حکمرانو ں کے خلاف سراپا احتجاج ہے تو بات کچھ تھوڑی بہت پلے
پڑتی ہے مگر وجہ احتجاج حکمران اگر ان عوام کے ساتھ احتجاج کریں تو یہاں
معاملہ کچھ عجیب سا لگتا ہے ۔تمبو لگا کر اور احتجاجی مظاہروں میں بجلی کی
لوڈشیڈنگ کے خلا ف نعرے لگوا کر حکمران کیا ثابت کر نا چاہتے ہیں کہ یہ
عوام کے ساتھ ہیں ؟؟ اگر تو ایسا ہے تو پھر ےہ سرا سرجھوٹ اور فریب کے ساتھ
ساتھ دکھلاوا ہے ہاں اگر حکمرانوں کا ان احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنا کسی
اور وجہ سے ہے تو پھر وہ وجہ ووٹ ہی ہو سکتی ہے جو صرف اور صرف ظلم کی چکی
میں پستے عوام کے پاس ہے ۔چلیں یہ تو سمجھ آتا ہے کہ عوام حکومت وقت کی
پالیسیوں اور بے حسی پر سراپا احتجاج ہے مگر ان احتجاجی مظاہروں میں شامل
حکمران کس کے خلا ف سراپا احتجاج ہیں ؟؟حکمرانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے
کہ ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی ہے اسی بے حسی کے عالم کو دیکھتے
ہوئے عوام کے پاس صرف احتجاج کا ہی واحد آپشن ہے جسے عوام استعمال کر ہی
لیتے ہیں لیکن ہمارے خادم اعلیٰ کے پاس تو بجلی جنریشن سے لیکر اسمبلی
استعفوں تک بے شمار آپشن ہیں پھر یہ احتجاجی مظاہروں میں عوام کے شانہ
بشانہ شرکت کر کے اپنی جھوٹی بے بسی کیوں دکھانا چاہتے ہیں چار سال بعد
تمبو لگا کر اپنے دفتر کو اس میں منتقل کرنا کہاں کی عادلانہ حکمرانی ہے ۔اس
طرح ٹینٹ لگا کر اور احتجاجی مظاہروں میں عوام سے حکومت کے خلاف نعرے لگوا
کر عوام کے دکھوں کا کہاں مداوا ہوتا ہے عوام کو بناوٹ نہیں عمل چاہیے ایسا
عمل کے جس کے دورس نتائج بھی ہوں ۔وزیر اعلیٰ کا مرکزی حکومت کے خلاف
احتجاج کرنا مسلم لیگ کے شیروں کےلئے تو باعث فخرضرور ہے مگر پاکستان کے
باشعور شہریوں کےلئے نہیں اور نہ ہی ان باشعور شہریوں کی ہمدردیا ں اس طرح
کے احتجاجوں سے حاصل کی جاسکتی ہیں ۔لہذا خادم اعلیٰ کو چاہیے کہ اس قسم کی
سرگرمیوں میں شرکت کر کے اپنا وقت مت ضائع کریں اور عوام کےلیے حقیقی
اصلاحات لائیں تاکہ مسلم لیگ کے شیروں کے ساتھ ساتھ باشعور شہری بھی انکے
متوالوں میں شامل ہو جائیں اور عوام بھی ذرا ہوش کے ناخن لیکر مستقبل کےلئے
کچھ جاندار فےصلے کریں تاکہ آنے والی نسلوں کو کچھ تو راحت ملے۔ |