عدلیہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی محاذ
آرائی نے حکومت کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ ایک طرف نئے وزیراعظم کو ان
کے پیشر و یوسف رضا گیلانی کے انجام سے بچانے کے لیے پارلیمنٹ نے توہین
عدالت سے استثنا کا بل منظور کر دیا ہے۔ جس کے بعد وزیراعظم، وفاقی و
صوبائی، وزرا، گورنرز اور وزرا ے اعلیٰ کو توہین عدالت کے حوالے سے استثنا
حاصل ہو گیا ہے۔ بل کے مطابق کسی جج کے خلاف سچا اور کسی عدالتی فیصلے پر
مناسب تبصرہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔
سوال یہ ہے کہ اس امر کا تعین کون کرے گا کہ کسی بھی عدالتی فیصلے پر کیا
جانے والا کونسا تبصرہ مناسب اور متوازن ہے اور کون سا غیر توازن؟۔ اس سے
بڑھ کر اہم یہ ہے کہ توہین عدالت سے استثنا صرف صدر، وزیراعظم، گورنر ز اور
وزرا اعلیٰ کو ہی کیوں دیا جائے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایوان اقتدار پر
قابض گروہ کو اپنی من مانیوں پر کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہ ہو۔ اگر ایک
عام آدمی سے جرم سرزد ہو جائے تو وہ فورا دھر لیا جائے گا، لیکن اگر ہمارے
حکمرانوں سے وہی فعل سر زد ہو تو انہیں کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکے گا۔
حالانکہ اگر غور کیا جائے تو قانون کی نظر میں چھوٹے، بڑے، امیر اور غریب
کی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ قانون میں چھوٹے اور بڑے
کی تفریق کرنے والی قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ پارلیمان کا کام عوام کی بھلائی اور ان کی خیر خواہی
کے لیے قانون بنانا ہوتا ہے، لیکن ہماری پارلیمنٹ میں موجود ارکان اپنی
مراعات میں اضافے اور اپنے تحفظ کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔ آپ
اٹھارہویں ، انیسویں، بیسویں، ترامیم اور اب توہین عدالت سے استثنا کا بل
دیکھ لیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارے رہنما کیا گل کھلا رہے ہیں۔
کسی ترمیم کے ذریعے 2 سے زاید بار وزیراعظم بننے کی شق ختم کی جارہی ہے، تو
کسی کے ذریعے غیر آئینی طریقے سے منتخب نمایندوں کو تحفظ دیا گیا، کہیں
اپنی مراعات میں اضافہ کیا گیا تو کہیں دہری شہریت کی اجازت دینے کے لیے بل
لایا گیا۔ یہ سب مل کر اس قوم کے ساتھ مذاق کررہے ہیں جس نے انہیں ایوان
اقتدار تک پہنچایا۔
توہین عدالت سے متعلق منظور کیے گئے بل کے خلاف ملک بھر کے وکلا اور سیاسی
جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ جمعرات کے روز کراچی سمیت متعدد شہروں میں
وکلانے احتجاج کیا اور یوم سیاہ منایا۔ کراچی بار ایسوسی ایشن نے ایم اے
جناح روڈ پرریلی نکالی۔ جس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی
شرکت کی۔ جبکہ پاکستان بار کونسل نے توہین عدالت کے نئے قانون کو مسترد
کرتے ہوئے 23 جولائی کو ملک گیر ہڑتال اور یوم سیاہ منانے کا اعلان کر دیا
ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے ترمیمی قانون کے خلاف دائر
درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی ہے۔ عدالت نے وفاق ودیگر فریقین کو 23
جولائی کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کی
ہے کہ عدلیہ کہاں تک آزاد ہے؟ قومی امکان یہی ہے کہ عدالت چند افراد کے
تحفظ کے لیے بنائے گئے اس قانون کی بعض شقوں کو آئین کے بنیادی اصولوں سے
متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے گی۔
حکومت نے جس عجلت میں یہ کالا قانون منظور کرایا ہے اس سے صاف اندازہ ہوتا
ہے کہ راجا پرویز اشرف کوسابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے انجام سے بچانے
کے لیے یہ قانون لایا گیا لیکن وہ ان کے کام نہیں آئے گا۔ کیونکہ سپریم
کورٹ نے این آر او عمل درآمد کے مقدمے میں وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو حکم
دیا ہے کہ وہ 25 جولائی تک صدر زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ مقدمات کھولنے
کے لیے سوئس حکام کو خط لکھ دیں اور اس کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔
عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں مناسب کارروائی ہوگی۔
اب نئے وزیراعظم بھی بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ کے حکم کے
مطابق صدر کے خلاف خط لکھ کر آئین کی پاسداری کرنا چاہیں، تو ان کے لیے
زبردست موقع ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوائیں۔ لیکن اگر
وہ یوسف رضا گیلانی کے نقش قدم پر چلتے ہےں تو پھر راجا پرویز اشرف کا
انجام سابق وزیراعطم سے بھی بدتر ہو گا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ خط حکومت کے
گلے کا چھچھوندر بن گیا ہے۔ جو نہ نگلا جاسکتا ہے نہ اگلا جاسکتا ہے۔
موجودہ حکومت جس طرح عدالتی فیصلوں کو تعمیل کی منزل سے دور رکھ کر ان کی
بے توقیری کا سامان کرتی رہی ہے، اس سے اتنی بات یقینی نظر آتی ہے کہ حکومت
سوئس حکام کو خط لکھنے کے موڈ مےں ہے اور نہ ہی یہ لکھا جائے گا۔ ہمارے
حکمران خود کو بچانے کے لیے عدالت کے ہاتھ پیر باندھنے کی کوشش میں مسلسل
غلطیاں کر رہے ہیں، جن سے قومی سیاست مزید الجھنوں کا شکار ہوگی اور ان کے
ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں سے عدلیہ کی آزادی ہضم نہیں ہو رہی اور وہ
نئے منظر نامے کا صحیح طور ادراک نہیں کر سکے یا وہ اسے دل سے تسلیم کرنا
نہیں چاہتے۔ موجودہ عدلیہ نے پہلی بار مکمل خود مختاری کے ساتھ آزادانہ
فیصلے کیے ہیں اور بیشتر مواقع پر حکمرانوں کی لوٹ مار کے سامنے بند
باندھنے کی کوشش کی ہے جس سے یہ پریشان ہیں۔ ہمارے ذمہ داران یہ چاہتے ہیں
کہ انہیں لوٹ کھسوٹ کی مکمل آزادی ہو۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ چاہے جتنی
بھی سازشیں کر لیں، جتنے ترمیمی بل پاس کر کے اعلیٰ عدلیہ کو روکنے کی کوشش
کریں، لیکن یہ ناکام ہوں گے کیونکہ قوم آزاد عدلیہ کی پشت پر کھڑی ہے اور
موجودہ کرپٹ حکمرانوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
( ختم شد) |