بھارت اور پاکستان کشمیر سمیت اپنے تنازعات خود حل کریں

اوباما نے کہہ دیا، بھارت اور پاکستان کشمیر سمیت اپنے تنازعات خود حل کریں... ؟؟
بھارت کی امریکی چاپلوسیوں، نازبرداریوں اور خوشامدی رویوں کا کیا ہوگا....؟

کافی عرصے سے ا مریکی مداخلت کے ذریعے کشمیر کو ہتیانے کے چکر میں مصروف بھارت کواُس وقت دن میں تارے نظر آگئے جب امریکی صدر مسٹر بارک اوباما نے ایک بھارتی خبررساں ادارے کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں جیسے صاف صاف یہ کہہ دیاہے کہ ہم بھارتیوں کی چاپلوسیوں اور چمچہ گیری کو خو ب سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی جانتے ہیں کہ خطے کے حوالے سے بھارت بڑھ بڑھ کر ہمارے مفادات کے لئے اتنی آوازیں کس لئے بلندکرتاہے اور ہر لمحے ہماری نازبرداریوں اور ہمارے نخرے اٹھانے میں کیوں متحرک رہتاہے...؟اِس پر اِن کا کہناتھاکہ یہ کچھ بھی کرلے مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ بھارت یہ سب کچھ کس لئے کررہاہے اِس کے بعد اپنے اِسی انٹرویو میں امریکی صدرمسٹر بارک اُوبامانے مسئلہ کشمیر کے لئے کسی بھی بیرونی حل کی نفی کرتے ہوئے کہاہے کہ” اِس تنازعہ سمیت اور دیگر تنازعات کوصرف اور صرف بھارت اور پاکستان کو خود ہی حل کرنے ہوں گے اِس معاملے میں امریکاسمیت کوئی بھی تیسراملک مداخلت نہیںکرسکتاہے اور نہ ہی اِس تنازعہ کے حوالے سے کوئی حل دونوں ممالک پر تھوپ سکتاہے اور اِس کے ساتھ ساتھ مسٹر اوباما نے یہ بھی کہہ دیاہے کہ ضروری ہے کہ دونوں ممالک کو ہر حالت میں مل کرخطے میں امن و سکون اور اپنی اپنی معیشت کو پروان چڑھانے میں اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالنی ہوں گی مگریہاں یہ امرقابلِ ذکر ضرور ہے کہ اِس موقع پرامریکی صدر بارک اوباما نے پاکستان کا خصوصی طور پر تذکرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم تمام ممالک ایک مستحکم ، خوشحال اور جمہوری پاکستان میںدلچسپی رکھتے ہیںاور یہ تمام خوبیاں پاکستان میں اُس وقت ہی پیداہوسکتی ہیں جب پاکستان میں پائیدار امن قائم ہواور یہاں کی معیشت میں استحکام آئے پاکستان میں اِن تمام خوبیوں کو پیداکرنے اور اِنہیںپروان چڑھانے میں امریکاسمیت تمام دوست ممالک کو اپنااپناکردار اداکرناہوگا کیوں کہ امریکا یہ بات اچھی طرح سے سمجھتاہے کہ خطے میں استحکام او ر دیرپاامن کے لئے ایک جمہوری اور مستحکم پاکستان ضروری ہے۔

اگرچہ دنیاکی سُپرطاقت کہلانے والے ملک امریکا کے صدر مسٹر بارک اوبامانے بھی بھارت اور پاکستان کے قدیم تنازعہ کشمیر کے حل پر زوردیتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیاہے کہ خطے میں قیام امن اور2014میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاءکے بعد افغانیوں کی مددکے لئے ضروری ہے کہ پہلے خطے کی دونوں ایٹمی طاقتیں بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات کا حل نکلا جائے تو خطے میں خود بخود امن قائم ہوجائے گااِس حوالے سے اُنہوں نے امریکا سمیت کسی تیسرے ملک کی مداخلت کو بھی مسترددیاہے جبکہ اُنہوں نے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے دورہ بھارت کو خطے میں قیام امن اور دونوں ممالک کی معیشت میں استحکام لانے کے لئے مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک کے عوام کے مابین رابطے اور تجارت کے فروغ کے لئے تمام راستے یقینی طور پر اِن ممالک کی خوشحالی کی جانب کُھلتے ہیںاور اِسی طرح مسٹر بارک اوباما نے آئندہ دنوں میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کا متوقع دورہ پاکستان پرکو خطے میں قیا م امن کے لئے اچھی پیش رفت قرار دیتے ہوئے اِس پراچھی اُمیدظاہر کی ہے۔

جبکہ یہاں یہ امر قابل ذکر ضرور ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان کی یہ کوشش رہی ہے کہ خطے میں قیام امن کے لئے پاکستان اور بھارت بغیر کسی دوسرے یا تیسرے ملک کی مداخلت کے بغیر خود ہی سے تنازعہ کشمیر کاحل کشمیر یوں کی خواہش اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق نکال لیںمگر بھارتی حکمران اِس بات کے منتظر نظرآئے کہ اگر ایساہوگیاجس کا مطالبہ پاکستان کی جانب سے کیاجارہاہے تو بھارت کے ہاتھ سوائے کفِ افسوس کے کچھ بھی نہیں آئے گا اِس لئے بھارت کی کافی عرصے (نصف صدی ) سے ایک یہی کوشش رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بس سُپرطاقت امریکا کا دامن تھام لیاجائے تو اِس کا یہ مسئلہ اِس کی خواہش کے مطابق حل ہوجائے گا اور باقی سب خیرہے یوں اپنی اِسی سوچ کی وجہ سے بھارتی حکمرانوں نے امریکی خوشامد، چاپلوسی اور نازبردایوں کو اپنا دین دھرم سمجھ کر نبھایااور کشمیر کو اپنااتوت انگ کہہ کر اِس کا اتنا ویلاکردیا کہ یہ اِسے پہلے لئے ہی مقدم جاننے لگے اور اِس حد تک پہنچ گئے کہ جہاں اِنہیں اِس بات کا یقین ہوگیا کہ بس تنازعہ کشمیر ان کی خواہش اور فرمائش کے مطابق حل ہوجائے گا مگرامریکی صدرمسٹربارک اوباما کے تنازعہ کشمیر کے حل کے حوالے سے دوٹوک الفاظ کے بعد اَب سوال یہ پیداہوتاہے کہ بھارتی حکمران اِس پر کیا پیش رفت کرتے ہیں اور آنے والے دنوں میں جب بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ جی پاکستان اپنے متوقع دورے پرآتے ہیںتو دیکھئے کیا خوشخبری لاتے ہیں ...؟اگر اِس کے بعد بھی بھارت کی جانب سے کوئی مثبت پوائنٹ سامنے نہ آیاتو پھرکیا یہ سمجھ لیاجائے گا کہ بھارت اپنی مرضی اور کسی دوسرے یا تیسرے ملک کی مداخلت سے تنازعہ کشمیر کا حل چاہتاہے جس کے لئے یہ ابھی ضد پر قائم رہ کراِسی کوشش میں لگارہے گا کہ کشمیر کاحل اِ س کی خواہشات اور ضرورتوں کو مدِ نظر رکھ کا نکالا جائے چاہئے اِس میں کشمیر یوں کے جتنے بھی حقوق غضب ہوتے ہیں تو ہوجائیں مگر تنازعہ کشمیر کا حل نہ پاکستان کے مطالبات کی روشنی میں نکالاجائے اور نہ کشمیریوں کی رائے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیاجائے بس تنازعہ کشمیر کا حل بھارت کی مرضی اور اِس کی منشاکو سامنے رکھ کر نکالاجائے جس کے لئے بھارت نے امریکاجیسی سُپر طاقت کی نصف صدی سے بھی زائد عرصے تک چاپلوسی، نازبرداری اور خوشامد میں اپنا سب کچھ لُٹااوربھلاکر اِس کی جی حضوری کی ہے اورآج جب امریکی صدر اُوباما نے بھارتیوں کو تنازعہ کشمیر کا عندیہ کچھ اِس انداز سے دے دیاہے کہ جس سے یہ ظاہرہورہاہے کہ امریکا بھارت کو یہ سمجھاناچاہ رہاہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں اور پاکستان کے مطالبات اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہی حل کرنے میں اپنا ایسامثبت اور تعمیر کردار اداکرے کہ خطے میںامن اور استحکام قائم ہو اور پاک بھارت کے سائے میں افغانستان بھی ترقی کرے۔(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972365 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.