تحریر : مولانا محمد زاہد ،
استاذ جامعۃ الصابر ، بہاولپور
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا جہاد
آج ایک ایسے شخص کا ذکر ہو رہا ہے جسے خود اللہ کے نبی نے اللہ سے مانگا
تھا چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی ’’اللّٰہم اعز الاسلام بعمر بن الخطاب خاصۃ‘‘
اے اللہ! بطور خاص عمر بن خطاب کے ذریعے اسلام کو قوت عطا فرما۔ ﴿حاکم،
طبرانی اوسط و کبیر کذا فی تاریخ الخلفاء للسیوطی﴾
نیز ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی تھی کہ ’’اللّٰہم اعز الاسلام بأحد
ہذین الرجلین الیک بعمر بن الخطاب أو بأبی جہل بن ہشام‘‘ اے اللہ! عمر بن
خطاب اور ابوجہل میں سے جو آپ کو محبوب ہو، اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت
عطا فرما۔ ﴿ترمذی، طبرانی، کذا فی تاریخ الخلفاء للسیوطی﴾
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا علم
پیچھے گذر چکا ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم کے زمانے میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ذیل میں آپ کے علم کے بارے
میں چند احادیث پیش خدمت ہیں۔
جامِ علم نبی کے ہاتھ سے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا خواب میں دیکھا کہ میں ﴿کچھ﴾ پی
رہا ہوں ﴿اور میں نے جی بھر کے پیا﴾ یہاں تک کہ سیرابی کے آثار اپنے ناخنوں
میں دیکھ لئے۔ پھر میں نے یہ جام عمر کو دیا۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول
اللہ! پھر اس کی تعبیر کیا ہوئی؟ فرمایا: علم۔ ﴿بخاری، مسلم، کذا فی تاریخ
الخلفاء﴾
الہامی علم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم
نے فرمایا آپ سے پہلی امتوں میں کچھ لوگ ایسے گزرے ہیں جن کو الہام ہوتا
تھا، میری امت میں اگر کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہے۔ ﴿تاریخ الخلفاء بحوالہ
بخاری﴾
زبانِ عمر ترجمانِ حق
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم نے فرمایا: ان اللّٰہ جعل الحق علی لسان عمر و قلبہ۔ یعنی اللہ
تعالیٰ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر جاری فرمایا۔
معلوم ہوگیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دل حق کی آماجگاہ اور آپ کی زبان
حق کی ترجمان ہے۔ اور ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کی رائے کا کتنا وزن ہے پس کیا خیال ہے آپ کا اس اجماع کے بارے
میں جو آپ کی زیر نگرانی منعقد ہوجائے؟ اب آپ اندازہ لگائیے ان لوگوں کی
بدقسمتی کا جو تراویح اور طلاق ثلاثہ وغیرہ مسائل کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتے
ہیں کہ یہ’’ بدعت عمری‘‘ ہے۔
’’عمر کا دل حق کی آماجگاہ اور زبان حق کی ترجمان ہے‘‘ کی تائید کے لئے ذیل
میں موافقات عمر کا ذکر کیا جاتا ہے۔
موافقات عمر
٭آپ کی رائے تھی کہ مقام ابراہیم میں نماز ہونی چاہئے چنانچہ آپ کی رائے کے
مطابق آیت اتری، ’’واتخذوا من مقام ابراہیم مصلیٰ‘‘۔
٭آپ کی رائے اور تمنا تھی کہ حجاب ہونا چاہئے چنانچہ آیت حجاب اتری۔
٭ایک موقع پر آپ نے امہات المؤمنین سے فرمایا عسیٰ ربہ ان طلقکن ان یبدلہ
ازواجا خیراً منکن. الآیۃ چنانچہ آیت اس طرح اتری۔
٭اسیران بدر سے متعلق قرآن آپ کے رائے کے مطابق اترا۔
٭آپ کی خواہش کے مطابق شراب کو بالکل حرام قرار دیا گیا۔
٭جب یہ آیت اتری ’’ولقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین‘‘ تو آپ نے فرمایا:
فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین چنانچہ اسی طرح قرآن اترا، فتبارک اللّٰہ احسن
الخالقین۔
٭رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی وفات پر آپ کی رائے تھی کہ اس کی نماز
جنازہ نہیں ہونی چاہئے چنانچہ آپ کی رائے پوری ہوئی۔
٭قصہ افک میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے مشورہ لیا تو
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ! عائشہ کی شادی کس نے آپ سے
کرائی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ نے۔ حضرت عمر نے فرمایا کیا
آپ کا خیال ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے دھوکے والا معاملہ فرمایا
ہے؟ سبحانک ہذا بہتان عظیم، چنانچہ آپ کے الفاظ کے مطابق قرآن اترا: سبحانک
ہذا بہتان عظیم۔
٭آیت استیذان﴿داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرنے کو استیذان کہتے ہیں﴾ آپ کی
خواہش کے مطابق نازل ہوئی۔
٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک فیصلے پر ایک منافق کو اعتراض ہوا،
آپ نے اس کا سر قلم کردیا کہ یہ مسلمان نہیں ہوسکتا گو بظاہر کلمہ گو ہے
چنانچہ آپ کی رائے کے مطابق قرآن اترا، فلا وربک لا یؤمنون. الآیۃ۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حق آپ کی رگ و پے میں پیوست ہوگیا تھا
اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو الہامی علم عطا ہوا تھا۔ حضرات صحابہ
کرام(رض) کو جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا اور قرآن و حدیث میں نہ ملتا تو وہ
دیکھتے کہ اس مسئلے میں ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کی رائے و معمول کیا
تھا۔
آپ کی شجاعت
آپ کمال درجہ کے بہادر تھے، آپ کی شجاعت مشہور و معروف تھی۔ آپ کے اسلام کے
بعد مسلمان کھلے عام نماز پڑھنے لگے۔ جب ہجرت کا دور آیا تو مسلمان چھپ کر
ہجرت کرنے لگے لیکن جب آپ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو تلوار لی اور تیر و
کمان بھی، پھر کعبہ تشریف لائے، آس پاس قریش کے سردار مختلف مجالس میں
بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھی، پھر
ایک ایک مجلس کے پاس جاکر کہنے لگے، یہ چہرے برباد ہوگئے﴿یعنی کفار کو
بددعا دی﴾ جو چاہے کہ اس کی ماں اسے روئے اور اس کی بیوی رانڈ اور بچے یتیم
ہوں تو وہ اس وادی کے پیچھے نکل کر میرا مقابلہ کرے۔ کسی کی بھی ہمت نہیں
ہوئی کہ آپ کا پیچھا کرے۔ ﴿تاریخ الخلفاء﴾
آپ کا بغض فی اللہ اور شدت علی الکفار
ایمان کے تقاضوں میںسے ایک اہم تقاضا حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کا ہے،
ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے عموماً اور نیک لوگوں کے
لئے خصوصاً دل میں محبت و الفت اور کفار کے لئے دل میں بغض اور نفرت رکھے۔
حضرات صحابہ(رض) میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود تھی ان کے بارے میں قرآن کی
گواہی ہے، اشدائ علی الکفار رحمآئ بینہم۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں یہ صفت کسی درجے میں موجود تھی؟ یہ بچہ بچہ
جانتا ہے۔ یہاں صرف ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے۔ جب اسیران بدر کے بارے میں
مشورہ ہونے لگا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشورہ تھا، اضرب اعناقہم یا
رسول اللّٰہ! ان کی گردنیں مار دیجئے اے اللہ کے رسول! ۔
صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت
عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہر شخص اپنے عزیز کو قتل کرے۔
علی کو حکم دیں کہ وہ اپنے بھائی عقیل کی گردن ماریں اور مجھ کو اجازت دیں
کہ میں اپنے فلاں عزیز کی گردن ماروں اس لئے کہ یہ لوگ کفر کے پیشوا اور
سردار ہیں۔ ﴿سیرت المصطفیٰ مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ۔
شہدالمشاہدکلہا
آپ کے بارے میں تقریباً تمام علمائ سیر و طبقات نے لکھا ہے کہ، شہد المشاہد
کلہا یعنی آپ(رض) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تمام غزوات میں
شریک رہے۔ نہ صرف شریک رہے بلکہ جنگ کے سخت لمحات میں ثابت قدم رہے، غزوہ
احد کی سخت گھڑی میں بھی آپ کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔
جہاد سے عشق
آپ رضی اللہ عنہ کو جہاد سے عشق کی حد تک محبت تھی، خود مجاہد کی زندگی
گزارنے اور مسلمانوں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ اپنے امراء کو خطوط لکھتے،
دھوپ میں چلتے، گھڑ سواری اور تیر اندازی کی ترغیب دیتے، عیش کوشی اور آرام
پسندی سے منع فرماتے، معمولی کھانے اور کھردرا پہننے کی ترغیب دیتے۔ حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ذکر میں گزر چکا ہے کہ آپ کو صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ کی جہادی استقامت بہت پسند آئی یہاں تک کہ فرماتے میری ساری زندگی
کے اعمال کے بدلے اگر مجھے صدیق کا وہ دن مل جائے جب وہ جہاد پر ڈٹ گئے تو
میں سمجھوں گا میں نفع میں رہا۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ آپ جہاد کو کتنی
بڑی عبادت سمجھتے تھے۔
اس سلسلے میں آپ کا یہ مشہور جملہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انی لأجہز
الجیش و انا فی الصلوٰۃ، میں نماز کے اندر لشکر کو تیار کرتا ہوں۔ اس سے
اندازہ لگائیں کہ آپ کا دماغ جہاد کے بارے میں کتنا مصروف رہتا تھا یہاں تک
کہ نماز میں بھی لشکر سازی پر غور کرتے۔
آپ(رض) کے دور میں جہاد نے بہت ترقی کی۔ مدینے کی خندقوں میں روم و فارس کے
محلات کی خوشخبری کو آپ کے جہاد نے عملی جامہ پہنایا، قیصر و کسریٰ کے تخت
آپ کے پائوں میں گرگئے اور مسلمان ان کے خزانوں کے مالک ہوگئے۔ حضرت سراقہ
بن مالک رضی اللہ عنہ کو کسریٰ کے جن کنگنوں کے پہننے کی بات رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمائی تھی آپ رضی اللہ عنہ کے جہاد نے سراقہ رضی
اللہ عنہ کو کسریٰ کے کنگن کا مالک بنا کر چھوڑا۔ آپ نے اولی القبلتین و
ثالث الحرمین مسجد اقصیٰ کو آزادی کا تمغہ دیا اور بیت المقدس خود تشریف لے
گئے۔ آپ کے جہاد نے آدھی دنیا پر اسلام کا پرچم لہرایا۔
جہاد کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے لئے آپ رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ فوج
بنائی۔ ایک دیوان ﴿رجسٹر﴾ میں باقاعدہ ناموں کا اندراج ہوا اور ان کے لئے
وظیفے مقرر ہوئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آج کے عمر کو بھی طاغوت کا سر
کچلنے کی توفیق دے اور فاتح بیت المقدس بنائے۔
و ما ذلک علی اللّٰہ بعزیز
٭.٭.٭ |