پاکباز ہستی کی قابل رشک زندگی

رمضان المبارک کی ان پاکیزہ ساعتوں میں کیا ہی اچھاہوکہ ہم پاکیزہ کام کریں ،پاکیزہ لوگوں کی صحبت اختیار کریں پاکیزہ لوگوں کو یاد کریں ان کی سیرت کواپنے لیے راہنمابنائیں ۔کیونکہ نیک اور پاکباز ہستیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔جن کاکردار آفتاب ہدایت ،جن کاگفتار مہتاب عنایت ۔ان کی سیرت کا ہرگوشہ انسانیت کے لیے انسانیت ساز کہ آج بھی تاریخ کے ورق پلٹتے ہیں تو عظیم ہستیوں کے عظیم کارناموں کی خوشبو سے مشام جاں معطر معطر ہوجاتے ہیں ۔ایسی ہی ایک عظیم نیک پارسا ہستی حضرت امام محمد باقر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ہیں ۔

آئیے :جانتے ہیں ان کی سیرت کے حسین گوشو۔جو پیغام ہیں ،جو درس ہیں ہمارے لیے ۔
(حضرت امام محمد باقر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ)
کنیت ولقب:
حضرت محمد بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ بارہ آئمہ میں سے پانچویں امام ہیں۔
آپ کی کنیت ابو جعفر اور لقب باقر ہے۔
لفظ باقر کی وجہ تسمیہ:
حضرت محمد بن علی رضی اللہ عنہ کے لقب باقر ہونے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ مختلف علوم میں وسعتِ نظر کے مالک تھے اور انھیں خوب فصاحت بلاغت سے بیان فرماتے۔
والدہ محترمہ کا اسم گرامی:
آپ کی والدہ کا اسم گرامی فاطمہ تھا جو حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔
ولادتِ باسعادت:
آپ مدینہ منورہ میں ٣ صفر المظفر بروز جمعۃ المبارک ٥٧؁ھ کو پیدا ہوئے یعنی حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے تین سال قبل۔
وصال شریف:
آپ رضی اللہ عنہ کا ١١٤؁ھ میں ستاون برس کی عمرشریف میں وصال شریف ہوا آپ کی قبر مبارک جنت البقیع میں اپنے والد گرامی کی قبر مبارک کے قریب ہے۔
نبی کریمؐ کا آپ کو سلام دینا:
حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالی عنہ خود بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اس وقت آ کر سلام کمیا جب کہ ان کی آنکھوں کی بینائی ختم ہو چکی تھی انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا پھر دریافت کیا کہ آپ کون ہیں۔،،
میں نے کہا؛ میں محمد بن علی بن حسین ہوںـ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بیٹے میرے قریب آؤ۔ میں قریب آیا تو انہوں نے میرے ہاتھ چومے اور پاؤں چومنے کے لیے آرزو کی میں دور جا کر کھڑا ہو گیا تو انہوں نے فرمایا:
خواجہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں سلام بھیجا ہے۔ میں نے کہا: آپ پر بھی صلوٰۃ وسلام ہو اور اللہ کی رحمت وبرکت ہو۔ پھر میں نے دریافت کیا؛ اے جابر یہ سب کچھ کیونکر ہوا ہے ؟
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا:
ایک روز میں نبی کریم ؐ کے پاس تھا تو آپؐ نے مجھے فرمایا اے جابر شاید تمھاری ملاقات میرے فرزند سے ہو جسے محمد بن علی بن حسین کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے انوار وحکم عطا کرے گا تو تم اسے میرا سلام پہنچا دینا۔
ایک اور روایت میں انہیں سے روایت ہے کہ محبوب خداؐ نے فرمایا:
اے جابر ہوسکتاہے کہ تو حسین کے ایسے بیٹے سے ملاقات کرنے کے لیے زندہ رہے جس کانام محمد ہے اورجودینِ محمدی کی خوب اشاعت کرے گا تو تُو اسے میرا سلام پہنچا دینا:ـ
(کراماتِ امام محمد باقر رضی اللّٰہ عنہ)
حضرت امام باقر کا غیب کی خبردینا:
ایک معتبر راوی نے روایت کیا کہ ہم حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہشام بن عبدالملک کے مکان کے قریب سے اس وقت گزرے جب وہ اس کی بنیاد رکھ رہا تھا تو آپ نے فرمایا:
ِِ قسم بخدا یہ مکان نیست و نابود ہو جائے گا اور لوگ اس کا گارا تک اٹھا کر لے جائیں گے یہ پتھر جس سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے کھنڈر بن جائیں گے۔
راوی کہتا ہے کہ مجھے آپ کی بات سے تعجب ہوا کی ہشام کے مکان کو کون نیست و نابود کر ے گا۔ جب ہشام وفات پا گیا تو ولید بن ہشام کے کہنے پر اسے گرا دیا گیا اورتمام پتھریلی بنیاد کو اٹھا دیا گیا۔ یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا(اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو
سَر کو نیزے پر لٹکانا:
ایک معتبر راوی سے مروی ہے کہ میں حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھا کہ آپ کا بھائی زید بن علی ہمارے قریب سے گزرا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
قسم بخدا یہ کوفہ کی جانب چلا جائے گا اور لوگ اسے قتل کردیں گے اور اس کے سر کو گلی کوچوں میں پھراتے ہوئے یہاں لے آئیں گے اور نیزے پر لٹکا دیں گے۔،،
ہم آپ کی یہ باتیں سن کر حیران ہوئے کیونکہ مدینہ منورہ میں کبھی کسی کو نیزہ پر نہیں لٹکایا گیا تھا لہذا جب ان کے سر کو لایا گیا تو ساتھ ہی پھانسی کا سامان بھی لایا گیا۔
سوال سے پہلے جواب:
فیض بن مطر نامی ایک شخص نے کہا کہ میں حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے چاہا کہ عشاء کی نماز ادا کرنے کے لیے جگہ کی تعین کے متعلق سوال کروں۔میں ابھی سوال کرنے نہ پایا تھا کہ آپ نے حدیث بیان فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کشادہ جگہ پر جہاں گھاس بکثرت ہو نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔
بھیڑیے کا امام پاک سے گفتگو کرنا:
شواہدالنبوۃ میں کہ ایک راوی کہتے ہیں کہ ہم حضرت محمد بن علی امام باقر کے ہمراہ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کی درمیانی وادی میں محو سفر تھے اس وقت آپ ایک خچر پر سوار تھے اور میں ایک گدھے پر سوار تھا۔اچانک میں نے دیکھا کہ کوئی شخص پہاڑ سے اتر کر ان کے قریب آیا اور وہ آپ کے خچر کی نگرانی کرتا رہا اور ایک بھیڑیا اپنے ہاتھوں کو خچر کی زین کے اگے رکھ کر بہت دیر تک محوِ گفتگو رہا۔ وہ سنتے رہے آپ نے اس بھڑیے سے فرمایا:
اب تم واپس چلے جاؤ جو تم چاہتے تھے میں نے اسی طرح کر دیا ہے۔،،
بھیڑیا یہ سن کر واپس ہو لیا۔ پھر امام پاک نے مجھے فرمایا: کیا تجھے معلوم ہے یہ کیا کہتا تھا۔ اس شخص نے کہا: اللہ اور رسول اور اس کا فرزند ہی بہتر جانتے ہیں۔
امام پاک نے فرمایا: بھیڑیا فریاد کر رہا تھا کہ میری ہمسر اس وقت دردِ زہ میں مبتلا ہے دعا کیجئے کہ اللہ تعالی انھیں اس سے نجات دے اور میری نسل سے کسی کو بھی آپ کے عقیدت مندوں پر مسلّط نہ کرے۔چنانچہ آپ نے بھیڑیے کے حق میں دعائے خیر کی۔(اللہ عزوجل کی آپ پر رحمت ہواور آپ کے صدقے ہماری مغفرت ہو آمین)
بالوں کا سیاہ ہوجانا:
ایک راوی نے روایت کیا کہ دومستور جن کے نام جبابہ اور ابلیہ تھا حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے آئیں۔ آپ نے فرمایا:
تم ہمارے پاس دیر سے کیوں آئی ہو؟
جبابہ نے عرض کیا: حضور میرے بال سفید ہوگے ہیں میں انہیں درست کرنے میں لگی رہتی ہوں۔ امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مجھے دکھاؤ،،۔ اس نے اپنے بال دکھائے تو آپ نے اپنا ہاتھ مبارک پھیرا جس سے تمام بال سیاہ ہوگئے۔ پھر فرمایا:اسے شیشہ دکھاؤ۔ اس نے آئینہ دیکھا تو اس کے بال سیاہ ہو چکے تھے۔
آنکھوں کو بینائی عطا کرنا:
ایک شخص حضرت ابو بصیرنامی جو نابینا تھے انہوں نے کہا کہ ایک دن میں نے حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے کہا۔یا حضرت کیا آپ نبی کریمؐ کے دین کے محافظ ہیں۔ حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔ابو بصیر نے پھر کہا کہ:نبی کریمؐ توسب نبیوں کے وارث ہیں ۔
حضرت امام باقر نے فرمایا:ہاں آپ ان تمام علوم کے وارث ہیں۔ ابو بصیر نے پھر کہا: یاحضرت کیا آپ کو بھی وہ علوم میراث میں حاصل ہیں۔
حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں،
ابو بصیر نے پھر کہا کیا آپ مردوں کو زندہ کر سکتے ہیں اندھوں کو روشنی دے سکتے ہیں اور کوڑھ والوں کو تندرست کر سکتے ہیں نیز یہ بھی بتائیں کہ لوگ اپنے گھروں میں کیا خور دو نوش کرتے ہیں اور کیا کچھ بچا کر رکھتے ہیں؟
حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اے ابو بصیر آپ میرے سامنے بیٹھ جاؤ،،۔ ابوبصیر آپ کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ مبارک ابوبصیر کے چہرے پر پھیرا تو ابو بصیر کی آنکھیں درست ہو گئیں اور روشنی بحال ہوگئی ابوبصیر نے اس روشنی سے صحرا اور زمین وآسمان کی وسعتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ نے پھر اپنا ہاتھ اس کے چہرے پر پھیرا تو ابو بصیر کی پہلی حالت ہوگئی۔ پھر آپ نے ابو بصیر سے دریافت کیا کہ:
اے ابو بصیر ان دونوں حالتوں میں سے کون سی حالت تمہیں پسند ہے وہ ایک کہ تمہاری آنکھیں روشن ہو جائیں اور تمھارا حساب سپرد الہی ہو یا تمہاری آنکھیں ایسی ہی رہیں اور تمہیں بلا حساب وکتاب جنت مل جائے؟،،
ابو بصیر نے کہا:
میں تو یہ پسند رکھتا ہوں کہ میں نابینا ہی رہوں اورجنت میں بلا حساب وکتاب چلا جاؤں،،۔
حضرت امام باقر کی فہم وفراست:
ایک راوی سے مروی ہے کہ ہم قریباً پچاس آدمی حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک اور شخۤص بھی آیا جو خرما فروشی کا کام کرتا تھا اس نے حضرت امام باقر سے مخاطب ہو کر کہا:
یا حضرت کوفہ میں ایک آدمی یہ گمان کرتا ہے کہ آپ کے پاس ایک فرشتہ ہے جو کافر کو مومن سے اور دوست کو دشمن سے تمیز کرکے آپ کو اطلاع دیتا ہے۔
حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ نے اس سے دریافت کیا:
تم کیا کرتے ہو؟ اس شخص نے کہا :میں گاہے بگاہے جَو فروخت کرتا ہوں،،۔ حضرت امام باقر نے فرمایا: یہ تم نے غلط کہا تم تو کھجوروں کی خریدوفروخت کرتے ہو اس شخص نے کہا: آپ کو کیسے معلوم ہے؟ حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مجھے اللہ کا فرشتہ بتا دیتا ہے کہ فلاں تمہارا دوست ہے اور فلاں تمہارا دشمن ہے۔ ہاں دیکھو تمہاری موت فلاں بیماری سے ہو گی،،۔
راوی نے روایت کیا تو پتا چلا کہ وہ شخص فلاں بیماری سے جو آپ نے کہی تھی ہلاک ہو گیا
جنات کی امام پاک کی بارگاہ میں حاضری:
ایک اور راوی نے روایت کیا کہ میں نے حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اجازت طلب کی تو لوگوں نے کہا تیزی سے کام نہ لو کیونکہ ان کے ہاں اور بھی بہت سے آدمی بیٹھے ہوئے ہیں، ابھی وہ باہر نہ آئے تھے کہ بارہ آدمی تنگ قباؤں میں ملبوس، ہاتھ پاؤں میں دستانے اور موزے پہنے ہوئے باہر آئے۔ انہوں نے السلام علیکم کہا اور چلے گئے، ازاں بعد میں حضرت امام باقر کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا :
'' یا حضرت یہ کون لوگ تھے، جو ابھی آپ کے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں۔ مجھے تو ان کے متعلق کچھ علم نہیں ، حضرت امام باقر نے فرمایا ، یہ تمہارے بھائی جن تھے۔''
میں نے دریافت کیا ۔
'' کیا آپ انہیں دیکھ لیتے ہیں۔''
حضرت امام باقر نے فرمایا۔
'' ہاں جس طرح تم حلال و حرام میں استفتاء کرتے ہو اسی طرح وہ بھی آکر دریافت کرتے ہیں۔''
ایک طرف تو ہم نے امام باقر رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم ہستی کے حسین گوشہ کوجاننا دوسری جانب اپنے کرتوتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو نہایت افسوس کے ساتھ کے ماضی جوہوا سو ہوا ۔ اپناتو بس حال بے حال ہوگیاہے ۔مستقبل میں کیا کرپائیں گئے ۔اس کا ہم باخوبی اداراک کرسکتے ہیں کہ جس ڈگر پر ہم چل پڑے ہیں کہیں دور دور بھی کوئی بھلائی کی قندیل ٹمٹماتی نظر آرہی ہے ۔کیونکہ
جس کو دیکھو غمِ معاش میں ہے
اور سے اور کی تلاش میں ہے
تھا جو مقصود مل نہیں پایا
مبتلا صرف کاش کاش میں ہے
یاد رکھیے !
ہ رعب و دبدبہ سطوت، وجاہت کام آئے گی نہ ہیبت،
سلطنت، حشمت، حکومت کام آئے گی

جب عزائیل آئیں گے دھرا رہ جائے گا منصب
نہ طاقت رنگ لائے گی نہ قوت کام آئے گی

اتاری جائے گی تن سے، وہ وردی ہو کہ گدڑی ہو
تو ایسے وقت میں رب کی خشیت کام آئے گی

جب اترے گا جنازہ قبر کی گھاٹی میں میرے دوست
تو ساتھ اعمال جائیں گے، عبادت کام آئے گی

تمھیں سونا پڑے گا لاکھوں من مٹی تلے حاصلؔ
نہ کرسی ساتھ جائے گی نہ عزت کام آئے گی

تمھارے نا م لیوا بھی تمھیں دفنا کے آئیں گے
نیا نعرہ لگائیں گے سیاست کام آئے گی

نہ اعلیٰ عہدے والے بھی سفارش کرنے پائیں گے
نہ اپنے ووٹروں کی کچھ حمایت کام آئے گی

یہاں کے جھوٹے دعوے سب یہیں رہ جائیں گے
پیارے وہاں تو سچ کی قیمت ہے صداقت کام آئے گی

جو شاطر ہیں وہ اپنی چاپلوسی بھول جائیں گے
کب اس دربارِ عالی میں ذہانت کام آئے گی

نہ دولت کام آئے گی نہ ثروت کام آئے گی
نہ منصب کام آئے گا نہ شہرت کام آئے گی

محترم قارئین:ہمیں اسلاف کی سیرت کو صرف قصّے کہانیوں تک ہی محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہم اسی وقت سیرت کے ان عظیم پھولوں مہک سے مستفید ہوسکیں گئے جب ہم اسے اپنی زندگی میں نافذ کریں گئے ۔اللہ عزوجل !ہمیں بزرگانِ دین کی نیک و پاکباز زندگیو ں کا خوب فیضان عطافرمائے ۔کہ اس فیض ِ بیش بہاکی برکت سے اپنی دنیا و آخرت سنوار جائے ۔آمین
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542404 views i am scholar.serve the humainbeing... View More