مفاد اور مطلب کی رشتہ داریاں

ہمارے ملک میں دو طرح کی سیاسی پارٹیاں ہیں جنہیں دائیں بازوں والی اور بائیں بازوں والی کہا جاتا ہے۔ ملک اور قوم تو ایک ہی ہے مگر ایک بازو دینی رجحان کا حامل اور دوسرا سیکولر ہے۔ ایسی جماعتیں تقریباً ہر ملک میں پائی جاتی ہیں مگر وہاںدین اور سیاست کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر ہم دونوں طرح کی سیاسی جماعتوں کا مزید تجزیہ کریں تو دینی جماعتیں کئی فرقوں میں تقسیم ہیں اور ہر فرقے کی ایک اپنی سیاسی جماعت ہے۔ اسی طرح سیکولر نظریات کی حامل جماعتوں میں بھی بہت سے طبقات ہیں۔ جس میں امریکہ نواز، روس نواز اور بھارت نوازوں کی الگ پہچان اور رجحان ہیں۔ پاکستان بنا تو اس کی خالق جماعت پاکستان مسلم لیگ پر انگریز کے پروردہ گھرانوں اور خاندانوں نے قبضہ کر لیا۔ ایک طرف انگریز کے وفادار خان بہادر، جاگیردار، زمیندار، پیر، گدی نشین مخدوم اور مجاورتھے تو دوسری طرف لوٹ مار کی دولت اکٹھی کرنے والے نودولتیے اور فوجی جرنیل جنکا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا۔

فوجی جرنیلوں نے اپنے مقام اور مرتبے کی بڑہوتری کیلیے ملکہ معظم کے وفاداروں اور نودولتیوں سے نہ صرف رشتہ داریاں قائم کی بلکہ ان کی مدد سے ایک نیا معاشرہ اور سوسائیٹی قائم کی تاکہ آئیندہ ان کی مشترکہ نسلیں اس ملک پر حکمرانی کریں۔ ایوب خان کے والد رسالدار میجر ریٹائرڈ ہوئے وہ کثیر اولاد تھے اور کسی بھی صورت اس قابل نہ تھے کہ سینڈہرسٹ میں اپنے بیٹے کی کمیشن کی فیس اور دیگر اخراجات برداشت کرسکتے۔خان آف امب نے ایوب خان کے علی گڑھ اور پھر سینڈہرسٹ کر اخراجات برداشت کیے جسکے صلے میں فیلڈ مارشل نے یقینی بنایا کہ امب سٹیٹ کی ایک انچ زمین تربیلہ ڈیم کی حدود میں نہ رہے۔ فیلڈ لارشل نے کرک کے خٹکوں اور والئی سوات سے رشتہ داریاں جوڑیں اور ایک نیا سیاسی اور صنعتی گھرانے وجود میں آیا گیا۔ ریحانے کے ترین ، کرک کے خٹک ، لکی مروت کے مروت اور پشاور کے بلور اب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں جنکا اثر و رسوخ ہر سیاسی جماعت اور گروپ مین موجود ہے۔ گجرات کے چوھدری 1947 سے پہلے کچھ بھی نہ تھے پاکستان بنا تو گجرات کے چوھدری ایک نئی پہچان اور شان کے ساتھ پاکستان کی صنعت اور سیاست پر چھا گئے اور چند ہی سالوں میں ارب پتی اور کھرب پتی بن گئے ۔ گجرات کے چوھدریوں کی بھی رشتہ داریاں پاکستان کے سبھی سیاسی اور صنعتی گھرانوںمیں ہیں۔ جن کے اثرات پاکستان کی اشرافیہ سے لیکر عام آدمی تک یکساں ہیں۔ ملک میں مصنوعی مہنگائی ہو یا سیاسی ابتری چوھدری بہرحال اپنا اثر دکھاتے ہیں اور کسی نہ کسی صورت دولت کماتے ہی رہتے ہیں ۔ یہی حال میاں صاحبان اور دیگر سیاسی گھرانوں کا ہے۔ جو ملکی سیاست اور معیشت کی ابتری میں برابر کے شریک ہیں اور کسی نہ کسی طریقے سے عوام کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔

لوٹ مار گھرانوں اور خاندانوں میں نیا اضافی ملک ریاض کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جس نے ایک ہی وار میں اپنے سمیت ہر سیاستدان ، حکمران اور دانشوری کا زعم رکھنے والے صحافی اور ٹیلی ویژن سکرین پر بن سنور کر بیٹھنے والے میزبانوں کو عوام کے سامنے ننگا کر دیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ سیاستدانوں ، حکمرانوں، صحافیوں ِ دانشوروں اور اینکروں میں سے کسی کی صحت پر اس بے عزتی اور بدنامی کا اثر نہ ہوا اور ہر ایک نے کسی نہ کسی صورت نہ صرف ملک ریاض کی حمائت کی بلکہ ملک ریاض کی طرف سے پھینکے گئے گندے چھینٹوں کو چہرے پر سجائے اپنی اپنی جگہ قائم بھی رہے ۔ میاں صاحبان ، عمران خان، ایم کیو ایم ، اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام نے خاموشی اختیار کی۔ پیپلز پارٹی نے وضاحتیں پیش کی اور چوھدریوں نے حمائت میں بیان دیے۔ فوج جو کہ ڈی ایچ اے کی صورت میں ملک ریاض کی پارٹنر ہے نے خود تو کوئی بیان نہیں دیا مگر فوج کی جانب سے محترم ہارون الرشید نے فرما یا کہ فوج اس سیکنڈل میں ملوث نہیں۔ مگر ہارون الرشید بھول گئے کہ فوج اس سیکنڈل میں کیسے ملوث ہو سکتی ہے۔ فوج کے نو (۹) مائیہ ناز جرنیل جو کبھی اپنی چھاتیوں پر بھادری کے تمغے سجاتے تھے آج ملک صاحب کے مہمانوں کو چائے اور کافی پیش کرتے ہیں۔ یہ میرا نہیں انھیں فوجی بھائیوں کے ایک جرنیل بھائی حمید گل کا بیان ہے جسے پروفیسر نعیم قاسم نے تحریر فرماےا ۔ جس طرح سیاسی گھرانوں کی باہم رشتہ داریاں ہیں اسی طرح ملک ریاض اور فوج کا ایک رشتہ ہے جو اٹوٹ اور الگ نوعیت کا ہے۔ ملک صاحب کی کمان میں اس وقت 9 ریٹائرڈ جرنیل ، 15 کے قریب برگیڈئیر ، درجنوں کرنل، میجر، کپتان اور پندرہ ہزار کے قریب سپاہی اور چھوٹے رینک والے عہدیدار ہیں، اگر فوجی ترتیب کے مطابق جائزہ لیا جاے تو ملک ریاض کے پاس ڈیڑھ ڈویژن فوج ہے جبکہ رینجرز اور اسلام آباد پولیس بوقت ضرورت بمعہ بکتر بند گاڑیوں کے دستیاب ہو سکتی ہے۔ ملک ریاض ، وزارت داخلہ اور ڈی ایچ اے کے درمیان اعتماد اور اخلاص کا ایسا رشتہ قائم ہے جسکی مثال نہیں ملتی۔ بحریہ ٹاون کا فیز 7 اور 8 ضلع راولپنڈی میں واقع ہے مگر یہاں قائم پولیس اسٹیشن اسلام آباد پولیس کا تھا جو حال ہی میں اٹھا دیا گیا ہے۔ پولیس اسٹیشن کے صدر دروازے پر واضح الفاظ میں بحریہ ٹاون ، ڈی ایچ اے پولیس اسٹیشن اسلام آباد لکھا تھا اور بلڈنگ پر اسلام آباد پولیس کا کلر بھی کیا گیاتھا۔ آئین ، قانون اور جمہوریت کا راگ الاپنے والے دانشوروں اور سیاستدانوں سے سوال ہے کہ کیا کسی جمہوری ، آئینی اور قانون کا احترام کرنے والے ملک میں اتنی بڑی قانون شکنی ہو سکتی ہے ؟ جس ملک میں دو تھانوں کی سرحد پر کوئی واقع ہو جاے تو کوئی بھی تھانہ رپورٹ درج نہیں کر تا اور انچوں اور فٹوں کی باہمی جنگ میں کیس اس قدر خراب کیا جاتا ہے کہ بالآخر قتل جیسے مقدمات کی فائیلیں داخل دفتر ہو جاتی ہیں۔ ایک طرف تو دو تھانوں کی سرحدیں دو دشمن ملکوں کی سرحدیں سمجھی جاتی ہےں اور دوسری جانب اسلام آباد پولیس کا ایک مکمل تھانہ جی ٹی روڈ کراس کر کے راولپنڈی کی حدود میں قائم ہو جاتا ہے مجھے امید ہے کہ جناب ہارون الرشید اس بے قائدگی اور لاقانونیت پر بھی کچھ ضرور روشنی ڈالیں گے۔ اس ملک میں اثر و رسوخ ، دولت اورمفاد کی سیاست عام ہے جبکہ غریب جس کے پاس دولت ہے نہ کسی امیر کا اس سے کوئی مفاد لہٰذا اس ملک کا ہر قانون اس کے لیے بنتا ہے اور ہر آنے والے حکمران اور مفاد پرست کا یہ فرض ہوتا ہے کہ اس غریب کا خون چوسے اور اپنی تجوریاں دولت سے بھرے۔ جبکہ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ سے پیسہ جمعہ کرنے والے نو دولتیے اپنی دولت کی بنیاد پر نئے رشتے ناطے بناتے ہیں اور یو ں اس ملک کے عوام پر حکمرانی کے لیے یہ نئی کھیپ مارکیٹ میں آ جاتی ہے ۔ جن کے تحفظ کے لیے اسمبلیاں قانون بناتی ہیں اور ان اسمبلیوں میں بیٹھے مفاد پرست اس قانون کے حق میں دلائل دے کر حق رشتہ داری ادا کرتے ہیں۔ لیڈرشپ یا حکمرانی کے لیے ایک حقیقی لیڈر یا حکمران کے لیے کیا ضروری ہے اورپاکستان کا لیڈر بننے کے لیے کیا ضروری ہے انشااللہ اگلی تحریر میں تفصیل سے بات کرنے کی کوشش کروں گا۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90685 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.