پاکستان میں تہلکہ مچا دینے والے
ایک اہم شخص کا نام ملک ریاض ہے ۔ملک ریاض اس وقت منظر عام پر آئے جب حکومت
مختلف امتحانات سے گزر رہی تھی اور حکمران جماعت کو بہت سے مسائل کا سامنا
تھا۔ ایسے وقت میں ایک بڑا بزنس مین عوامی سطح پر آیا اور پھر دیکھتے ہی
دیکھتے لوڈشیڈنگ ، میمو سیکنڈل، کرپشن کیسز، اس وقت کے وزیراعظم کی نااہلی
کیس، سوئس بنک کیس، مہنگائی، دہری شہریت اور ایسے ہی دیگر معاملات سے عوام
کی توجہ ہٹ گئی۔ چند روز تک ملک بھر میں ملک ریاض کے نام کی گونج سنائی
دیتی رہی اور غالباً ملک ریاض کو آگے لانے والوں کا مقصد بھی یہ تھا لیکن
عدالت کے بروقت فیصلوں کی بنا پر یہ معاملہ زیادہ دن عوامی نہ رہ سکا۔ ملک
ریاض کے حوالے سے جو صورتِ حال سامنے آئی اس کی بہت سی گتھیاں ابھی تک
الجھی ہوئی ہیں۔ بہت سے معاملات سامنے نہیں آسکے اور بہت سی کہانیاں ایسی
ہیں جو ابھی تک اندرونی حلقوںسے باہر نہیں نکل سکیں۔ انہی کہانیوں تک رسائی
حاصل کرنے کے لیے ہم اس معاملے کے مختلف پہلوﺅں کا جائزہ لیں گے اور کوشش
کریں گے کہ ایک ترتیب سے چلتے ہوئے ان بھول بھلیوں سے گزرتے چلے جائیں اور
اس معاملے کا ایک مکمل رخ سامنے لایا جا سکے ۔
ملک ریاض اور ارسلان فتخار کیس میں دو اہم افراد یہی تھے انہیں بنیادی
کردار بھی کہا جا سکتا ہے یا پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ”گیم“ کھیلنے
والوں نے انہیں سامنے رکھا اور خود پسِ پر دہ رہنے کی کوشش کی۔
ملک ریاض کون ہے؟
ملک ریاض کی زندگی کسی فلمی کردار سے کم نہیں ہے۔ وہ ایک غریب گھرانے سے
تعلق رکھتے تھے۔ ملک ریاض ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے غربت میں آنکھ
کھولی لیکن اپنی ، ذہانت ، لیاقت، دیانت یا جرائم کی بدولت امیر ترین افراد
کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ ملک ریاض کے بارے میں جاننے کا تجسس پہلے عموماً
کاروباری اور مخصوص حلقوں تک محدود تھا لیکن اب ہر طبقہ اس طرف متوجہ ہے۔
ملک ریاض تقریباً 63سال کے ہیں۔ ان کی زندگی اتار چڑھاﺅ کا بہترین نمونہ ہے۔
ملک ریاض کے والد ایک معمولی ٹھیکیدار تھے۔ انہیں کاروبار میں نقصان اٹھانا
پڑا جس کی وجہ سے ملک ریاض کو میٹرک پاس کرنے کے بعد کلرک کی نوکری کرنی
پڑی بعد میں ملک ریاض نے فوج میں ایک نچلے درجے کے ٹھیکیدار کے طور پر
کاروبار کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس زمانے میں انہیں مشکلات اور سختیوں کا
سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے لوگوں کے گھروں میں سفیدیاں کیں اور سڑکوں پر
تارکول بچھانے جیسا مشکل کام ابھی کیا نوبت یہاں تک آگئی کہ ملک ریاض کو
گھریلو سامان فروخت کرنا پڑا۔
پاکستان میں 90کی دہائی میں فوج کو طاقت اور اختیار حاصل تھا اور فوج نے
حکومتیں بنانے اور گرانے جیسے کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا اس وقت
تک ملک ریاض کوئی خاص اہمیت نہ رکھتے تھے لیکن انہیں اندازہ ہو گیا کہ فوج
کے ساتھ کام کرنا مفید ثابت ہو گا۔ ملک ریاض گھنٹوں عام فوجی افسروں کے
کمروں کے باہر بیٹھے رہتے لیکن انہوں نے امید کا دامن نہ چھوڑا۔ پھر بظاہر
دیہاتی حلئے والے اس شخص نے معمولی تعلیم کے باوجود اپنی ذہانت اور چالاکی
سے فوجی افسروں کو پیسے کمانے کے منصوبے پیش کرنے شروع کیے اور ان سے اپنے
تعلقات مضبوط کرنا شروع کیے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ملک ریاض ایسے حالات
پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جس سے پاک نیوی نے روالپنڈی میں اپنے ہاﺅسنگ
پراجیکٹ سے تو کنارہ کشی کرلی لیکن وہ اپنا نام یعنی ”بحریہ ٹاﺅن“ اس رہائش
سکیم سے واپس نہ لے سکی۔ یہیں سے ملک ریاض کو عروج ملا اور وہ ایک کے بعد
ایک کاروباری منصوبے بناتا چلا گیا۔ اس نے بحریہ ٹاﺅن کو کامیاب کروایا اور
پھر اسی نام سے کئی پراجیکٹ شروع کیے جن میں اسے کامیابی ملی۔ بحریہ ٹاﺅن
شہر سے قدرے دور ہوتا تھا جہاںز مین سستے داموں خریدی جاتی لیکن جب یہ
سوسائٹی بن جاتی تو سب سے مہنگی سوسائٹیز میں اس کا شمار ہوتا۔ ملک ریاض کی
ہاﺅسنگ سکیم کے کسی بھی فیز یا سیکٹر کا اعلان کر دیا جاتا لیکن نہ تو اس
کے کسی نقشہ کا وجود ہوتا اور نہ ہی اس سکیم کا زمین پر کوئی وجود ہوتا
لیکن ملک ریاض کے اس پراجیکٹ کے لیے صرف درخواست فارم خریدنے کے لیے ہی
لوگوں کی لائنیں لگ جاتیں اور دھکم پیل ہوتی، پولیس آنسو گیس کے شیل بھی
برساتی اور لاٹھی چارج بھی ہو جاتا لیکن لوگ پھر بھی ہر صورت فارم حاصل
کرتے۔ انہی سکیموں کی بنا پر پیسے پیسے کا محتاج ملک ریاض پندرہ سے بیس سال
میں کھرب پتی بن گیا۔ ایک صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وہی ملک ریاض
جو ایک معمولی سے ٹھیکہ لینے کے لیے کئی کئی روز کسی کیپٹن اور میجر کے
دفتر کے باہر بیٹھا رہتا تھا اب اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ اب ان سے کئی
گناہ بڑے فوجی آفیسر اس کے ملازم ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 8سے 9سابق
جرنیل بھی ملک ریاض کے لیے کام کرتے ہیں۔ ایک صحافی کے بقول جب وہ ملک ریاض
کے پاس بیٹھا تھا تو ایک بڑے فوجی عہدے سے ریٹائرڈ ہونے والے سابق فوجی
افسر نے ملک ریاض سے گفتگو کی تو اس فوجی افسر کی گھگی بندھی ہوئی تھی۔
ملک ریاض کس قدر طاقتور ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس
کے بیک وقت کئی سیاسی پارٹیوں کے لیڈر ان سے قریبی تعلقات ہیں ان میں
پاکستان کے سابق حکمران، موجودہ حکمران اور مستقبل میں ممکنہ طور پر بننے
والے حکمران بھی شامل ہیں۔ ملک ریاض پر نیب کے مقدمات تھے لیکن وہ پرویز
مشرف کے دوست بن گئے جس سے ان مقدمات کے سلسلے میں انہیں فائدہ حاصل ہو گیا۔
اسی طرح صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ان کی تعلقات اس وقت سے ہیں جب صدر
محترم جیل میں ہوا کرتے تھے۔
چوہدری برادران کا کوئی کام ہویا انہیں کوئی مشکل ہو ملک ریاض سب سے پہلے
اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تحریک
انصاف کے جلسے کے لیے فنڈ بھی ملک ریاض دیتے ہیں۔ پنجاب میں جب گورنر راج
لگا تو ملک ریاض نوٹوں سے بھرا بریف کیس لیے آ پہنچے۔ اسی طرح آصف علی
زرداری اور وہ میاں نواز شریف کے درمیان بھوربن میں معاہدہ کروانے والے شخص
کا نام بھی ملک ریاض تھا جسے آصف علی زرداری اور نواز شریف میں سے کوئی بھی
انکار نہ کر سکا اس موقع پر قرآن پر حلف لینے والے بھی ملک ریاض ہی تھے
انہی معاہدوں کے بارے میں ن لیگ بعد میں کہتی رہی کہ آصف علی زرداری نے
قرآن پر حلف لے کر وعدہ خلافی کی اور آصف علی زرداری نے کہا کہ وعدے قرآن
حدیث نہیں ہوتے۔ ان معاہدوں میں قرآن لانے والا ملک ریاض ہی تھا۔ اسی طرح
چیف جسٹس کی معطلی کے دنوں میں ایوان صدر کے نمائندے کے طور پر چیف جسٹس سے
ملنے اور سمجھوتہ کرا دینے کی آفر کرنے والا بھی ملک ریاض ہی تھا۔ یہ بھی
کہا جاتا ہے کہ پاکستانی سیاست کا منظر بدلنے اور اس منظر میں اہم کر دار
ادا کرنے والوں کی اکثریت ملک ریاض کی جیب میں پائی جاتی ہے۔
ارسلان افتخار کون ہے؟
ملک ریاض کی طرح ارسلان افتخار کی زندگی بھی کسی فلمی کردار سے کم نہیں ہے،
ارسلان افتخار سابق آرمی جنرل میجر جنرل ضیاءالحق کے داماد ہیں۔ دلچسپ بات
یہ ہے کہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ارسلان افتخار کا انٹرمیڈیٹ میں Cگریڈ تھا
اور وہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے اہل نہ تھے لہٰذا چیف منسٹر کی مخصوص
سیٹوں پر بولان میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا گیا۔ ڈاکٹر بننے کے بعد
ارسلان افتخار نے بطور میڈیکل آفیسر صرف26دن کام کیا اس کے بعد ہیلتھ
ڈیپارٹمنٹ میں بطور سیکشن آفیسران کی تقرری ہو گئی۔ یہاں ایک اور ڈرامائی
صورت ِ حال سامنے آئی کہ بلوچستان ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے نوٹی فیکیشن جاری
کرنے سے پہلے ہی فیڈرل گورنمنٹ نے ارسلان افتخار کی خدمات مانگ لیں اور
بلوچستان گورنمنٹ نے بھی فیڈرل گورنمنٹ کی درخواست منظور کر لی اور یوں ایم
بی بی ایس کر کے ڈاکٹر بننے والے ارسلان افتخار ایک ڈرامائی اور کسی قدر
فلمی کہانی کے کردار کی طرح 17گریڈ کے آفیسر کے طور پر ایف آئی اے جیسے بڑے
اور اہم ادارے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن گئے۔ اس کے بعد ارسلان افتخار کو
18ویں گریڈ میں ترقی دی گئی اور وہ ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے بن گئے جہاں
انہیں نیشنل پولیس اکیڈمی میں ٹریننگ کے لیے بھیجا گیا۔ بیورو کریسی میں
تیزی سے ترقی کرنے والے ارسلان افتخار نے جلد ہی سرکاری ملازمت چھوڑ دی اور
اپنا بزنس شروع کیا اور ڈرامائی طور پر دو تین سالوں میں ہی مہنگی گاڑیوں
میں گھومتے نظر آنے لگے انہوں نے سوسے زائد ملازم رکھ لیے اور ان کے اثاثے
تیزی سے بڑھنے لگے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف جسٹس کو یہ علم تک نہ ہوا کہ ان
کے بیٹے کا کاروبار کا ہے۔
ملک ریاض کیس کیا تھا؟
ملک ریاض کا کیس بظاہر خاصہ پیچیدہ اور الجھا ہوا نظر آتا ہے اور یوں لگتا
ہے کہ کہیں نہ کہیں حقیقت کو یا تو چھپایا گیا ہے یا توڑ مروڑ کرپیش کیا
گیا ہے۔ بعض ایسی باتیں بھی ہیں جن کا جائزہ لیا جائے تو یہ کیس ایک سازش
لگنے لگتا ہے۔ اس کیس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک ریاض نے ارسلان کے خلاف
کسی بھی عدالت میں کیس درج نہیں کرایا نہ کسی تھانے میں ارسلان کے خلاف ایف
آئی آر کٹی۔ اسی طرح ارسلان افتخارنے بھی ملک ریاض نے خلاف کوئی مقدمہ درج
نہیں کروایا۔ ملک ریاض کے ارسلان افتخار کے حوالے سے قانونی یا عدالتی
کارروائی کی بجائے اس کیس کو میڈیا میں اچھالنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے بہت
محتاط انداز میں گیم کھیلی۔وہ مختلف صحافیوں سے ملے اور انہیں مختلف
دستاویز دکھائیں جو مبینہ طور پر یہ ظاہر کرتی تھیں ملک ریاض درپردہ ارسلان
افتخار کو بھاری رقوم دے رہے تھے اور ان کے غیر ملکی دوروں کے اخراجات اٹھا
رہے تھے۔ ان دستاویز کے حوالے سے کچھ صحافی یہ کہتے رہے کہ بظاہر لگتا ہے
کہ ملک ریاض نے ارسلان افتخار کو بھاری رقوم ادا کیں جبکہ کچھ کا کہنا تھا
ان میں ابہام موجود ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک ریاض نے کسی بھی صحافی کو ان دستاویز کی کاپی نہیں
دی اور ان کی کاپی دینے سے انکار کر دیا ملک ریاض نے صحافیوں کو یہ بھی کہا
کہ ان کے پاس مبینہ طور پر ارسلان افتخار کی کرپشن اور اپنے الزمات کے ثبوت
کے طور پر کچھ ویڈیوز بھی ہیں لیکن انہوں نے کسی بھی صحافی کو یہ ویڈیوز
نہیں دکھائیں اور نہ ہی ایسی کوئی ویڈیو ابھی تک سامنے آسکی۔ ملک ریاض کی
یہ پلاننگ کامیاب ہوئی اور میڈیا سمیت اندرونی حلقوں میں یہ بات گردش کرنے
لگی کہ چیف جسٹس کے بیٹے نے ملک ریاض کو ان کے مقدمات میں سہولتیں دینے کے
نام پر رقوم حاصل کیں۔ جب یہ بات میڈیا پر آئی تو چیف جسٹس نے اس پر سوموٹو
ایکشن لیتے ہوئے اپنے بیٹے کو عدالت کے کٹہرے میں طلب کر لیا۔
چیف جسٹس کے اس فیصلے سے عدلیہ کے خلاف مبینہ سازش کو پہلا دھچکا لگا اور
دنیا بھر میں اس بات کو سراہا گیا کہ چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کو بچانے کی
بجائے ازخود اس کا نوٹس لیتے ہوئے عدالت میں طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے دوسرا
فیصلہ یہ کیا کہ اپنے بیٹے ارسلان افتخار کو اپنے گھر سے نکال دیا اسی طرح
انہوں نے اپنے بیٹے کو یہ بھی کہا کہ وہ ان سے کسی قسم کا رابطہ نہ رکھے۔
بظاہر یہ دو افراد کے درمیان ایک ایسا جھگڑا تھا جس میں عدلیہ کوگھسیٹنا
آسان تھا دوسرے الفاظ میں اس کیس کی مدد سے عدلیہ کو گندا کیا جا سکتا تھا
لیکن چیف جسٹس نے وزیراعظم ، پرویزالٰہی اور دوسرے صاحب اقتدار اور صاحب
اختیار افراد کی طرح اپنے بیٹے کو بچانے کی کوشش نہ کرتے ہوئے عدلیہ کے
وقار کو بچانے کی کوشش کر کے ایک نئی مثال قائم کر دی اور اسے دو افراد کا
باہمی معاملہ ثابت کر دیا۔
الزامات کیا تھے.... جواب کیا ملے!
چیف جسٹس نے جب ارسلان افتخار کیس کا نوٹس لیا تو ملک ریاض کے حامیوں کا
موقف تھا کہ چیف جسٹس کو اس کیس کا نوٹس نہیں لینا چاہئے تھا خود ملک ریاض
بھی یہی چاہتے تھے کہ یہ معاملہ عدالت میں نہ جائے اسی طرح پیپلز پارٹی کے
ایک رکن اسمبلی کا موقف یہ بھی تھا کہ اس معاملے کو چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ
تک فائلوں میں بند رکھا جائے دوسرے الفاظ میں اس دوران عوامی سطح پر عدلیہ
کے خلاف ایک رائے قائم کرنے میں آسانی ہوتی اور چیف جسٹس کو گندا کیا جاتا
کہ انصاف کے دعوے دار چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کے معاملے میں انصاف سے کام
نہیں لیا۔ چیف جسٹس کے حق میں دوسری بات یہ گئی کہ اپنے تمام تر دعوﺅں کے
باوجود ملک ریاض کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ انہیں چیف جسٹس کی عدالت سے کسی
قسم کا ریلیف نہیں مل سکا۔ ملک ریاض کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ ہم نے کبھی
ایسا نہیں کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ہم کو کبھی کوئی ریلیف
دیا ہو۔ ملک ریاض کی طرف سے عدالت میں 83صفحات پر مشتمل دستاویز اور بیان
جمع کرایا گیا۔ جس میں یہ دعوی کیا گیا کہ ارسلان افتخار پر کل
34کروڑ26لاکھ روپے خرچ کیے گئے اور اس میں وہ لاکھوں روپے کی رقم بھی شامل
ہے جو چیف جسٹس کے خاندان کے لندن کے تین دوروں پر خرچ ہوئی۔ یہ بھی کہا
گیا کہ چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار اور نامعلوم خاتون کے مونٹی کارلوتک
کے سفر کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اس خاتون کا نام بتانے کی بجائے یہ کہا گیا
کہ ارسلان افتخار کی اس دوست خاتون کا نام بند کمرے میں عدالت کو بتایا جا
سکتا ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ارسلان افتخار کو 32کروڑ 70لاکھ
روپے نقد دیے گئے۔
ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ ارسلان افتخار ملک
ریاض کے داماد کو مسلسل بلیک میل کرتا رہا ہے اور مختلف حیلے بہانوں سے رقم
لیتا رہا ہے اور ملک ریاض کو بھی بلیک میل کرتا رہا ہے۔ ملک ریاض کی طرف سے
یہ بھی کہا گیا کہ ارسلان افتخار ، احمد خلیل کادوست ہے اور احمد خلیل ملک
ریاض کے داماد سلیمان کے بھی دوست ہیں ارسلان افتخار نے ملک ریاض اور ان کے
داماد کو دھوکہ دیا اور غیر قانونی مفادات حاصل کیے۔ ارسلان افتخار نے کہا
تھا کہ مجھے علم ہے کہ میرے والد بحریہ ٹاﺅن کے خلاف سو موٹو کیسز سن رہے
ہیں۔ وہ ان کو طے کروادے گا لیکن ملک ریاض کو عدالت سے کوئی ریلیف نہ مل
سکا۔ ملک ریاض کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ارسلان افتخار خاندان کے ساتھ
لندن کے دورے پر تھا جس کے اخراجات ادا کئے گئے اس دورے پر کل 88لاکھ
60ہزار 579روپے خرچ کیے جبکہ تیسرا دورہ 2010ءمیں ہوا جس پر 59لاکھ 47ہزار
726روپے خرچ کیے جبکہ ارسلان افتخارکو کیش کی صورت میں 34کروڑ 26لاکھ
1254روپے دیے۔
ارسلان افتخار نے کیا کہا
ملک ریاض کے 83صفحات کے دستاویزی بیان اور الزمات کے جواب میں ارسلان
افتخار نے صرف 5صفحات پر مشتمل بیان جمع کرایا ۔ ارسلان افتخار کا کہنا تھا
کہ ان کا ملک ریاض یا ان کے کسی رشتہ دار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اپنا ذاتی
کاروبار کر کے روزی روٹی کماتا ہوں اور انکم ٹیکس ریٹرن باقاعدگی سے جمع
کراتا ہوں انہوں نے کہا وہ 2009ءمیں لندن اپنی فیملی کے ساتھ اپنے خرچ پر
گئے تھے اور وہ نہیں جانتے کس کے کریڈٹ کارڈ سے لندن کے فلیٹ کا کرایہ ادا
ہوا تاہم ادائیگی انہوں نے کی تھی اپنے خرچ پر ہی لندن میں فلیٹ کرایہ پر
لیا جس کی تفصیلات ان کے پاس موجود ہیں۔
انہوں نے یہ چیک15اگست2011ءکو اپنے کزن حامد رانا کے ذریعے زیدرحمن کو ادا
کیا جس کا اکاﺅنٹ نمبر0205000003244مہران بنک گلبرگ لاہور ہے۔ زید رحمن نے
2011ءمیں ان کی رہائش کا انتظام کیا تھا جوان کے کزن کی وساطت سے ہوا۔
مڈل مین کون تھا؟
چیف جسٹس کے خلاف مبینہ طور پر ہونے والی اس سازش میں ایک شخص نے مڈل مین
کا کردار ادا کیا یہ شخص بیک وقت ارسلان افتخار، اس وقت کے وزیر اعظم یوسف
رضا گیلانی اور ملک ریاض کا دوست تھا اس شخص کا نام احمد خلیل ہے جس نے
مبینہ طور پر ایک گہری چال چلتے ہوئے عید والے دن اپنے دوست ارسلان افتخار
اور ان کے والد چیف جسٹس کو اپنے گھر مدعو کیا جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو
ڈرامائی طور پر یوسف رضا گیلانی بھی وہاں پہنچ گئے۔ یوسف رضا گیلانی کی آمد
کو اتفاقیہ کہا گیا اور احمد خلیل نے یہ کہا کہ وزیراعظم کی ملاقات اتفاقیہ
تھی لیکن وزیراعظم کی آمد پر چیف جسٹس رسمی سی علیک سلیک کے بعد وہاں سے
چلے گئے۔ کہا جاتا ہے اس ملاقات کی بھی ویڈیوبنائی گئی تاکہ اچانک حملے کے
طور پر ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر اس کا استعمال کیا جائے لیکن بظاہر اس
کا انکار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور مبینہ ویڈیو کے بارے میں کہا گیا ہے
کہ اس ویڈیو میں ارسلان افتخار کو ایک گھر میں پیسے وصول کرتے دکھایا گیا
ہے جو کہ مبینہ طور پر محفوظ گھر ہے کہا گیا ہے کہ یہ ویڈیو آئی ایس آئی کے
لیفٹیننٹ کرنل نے بنائی ہے۔ اس حوالے سے ارسلان افتخار کا کہنا ہے کہ میں
نے ایک واقف کار میجر یا لیفٹیننٹ کرنل سے فیکٹو سیمنٹ اور ریڈین پاور
انرجی کے مابین ہونے والے ایک کنٹریکٹ کی مد میں پیسے وصول کرنے کا کہا
تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے جو پیسے وصول کیے وہ اسی مد میں تھے۔ آئی
ایس پی آر کے مطابق آئی ایس آئی کا اس سیکنڈل میں کوئی کردار نہیں اور نہ
ہی ایسی کسی ویڈیو کے بارے میں کچھ کہا گیا تھا۔ نہ اس کا حکم دیا گیا۔
ارسلان افتخار کے ساتھ لندن کے ہوٹل میں کون تھی؟
ارسلان افتخار کے اس کیس میں ملک ریاض نے جو بیان دیا اس کے مطابق ان کے
ساتھ لندن کے دورے میں ایک خاتون دوست بھی تھی ملک ریاض نے عدالت میں کہا
کہ اس خاتون کا نام بند کمرے میں بتایا جا سکتا ہے اس خاتون کا نام خفیہ
رکھا گیا لیکن نیوز ویک کے مطابق ارسلان افتخار کے ساتھ 25سے 29جولائی
2010ءکو احمد خلیل اور ثنا کے لیے مانٹی کارلوس فائیو سٹار ہوٹل میں دو
کمرے بک کیے گئے تھے۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ 3جولائی کو ملک ریاض
کے داماد کی جانب سے لندن سے وینس کے لیے برٹش ائیرویز کے ٹکٹ خریدے گئے اس
حوالے سے دستیاب معلومات کے مطابق 3مسافر جن میں ارسلان افتخار، احمد خلیل
اور ثنا شامل تھیں وہ 25جولائی کو لندن میں وینس کے لیے روانہ ہوئے اور
29جولائی کو ان کی واپسی ہوئی ۔
ملک ریاض نے کیا گیم کھیلی
ملک ریاض اس کیس کے بنیادی کردار ہیں۔ انہوں نے عدالت میں تا بعداری کا
اظہار کیا اور عدالتی احترام کو ملحوظ خاطر رکھا لیکن اسی دن عدالت میں
بیان جمع کروانے کے کچھ ہی دیر بعد انہوں نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے
کہا کہ ارسلان ڈان بن کر عدلیہ کو چلا رہا ہے انہوں نے کہا کہ ارسلان رشوت
لیتا رہا اور ہم بلیک میل ہوتے رہے۔ چیف جسٹس نے ہمارے مقدمات میں کبھی
نرمی نہیں کی انہوں نے کہا آج جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ اﷲ کا دیا ہوا ہے
میرے 75فیصد اثاثے سماجی کاموں میں خرچ ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ انہوں
نے کہا میں 16سال تک بلیک میل ہوتا رہا ہوں، کوئی بھی شخص اس طرح رسک لے کر
چیف جسٹس کے سامنے نہیں آ سکتا۔ بہت کوشش کی کہ اپنی ساکھ خراب نہ کروں۔
بحریہ ٹاﺅن بچوں سے زیادہ عزیز تھا لیکن میں نے اسے چھوڑ دیا۔ انہوں نے
پریس کانفرنس میں قرآن ہاتھ میں لے کر چیف جسٹس سے تین سوال کیے کہ چیف
جسٹس بتائیں رات کے اندھیرے میں انہوں نے مجھ سے کتنی ملاقاتیں کیں اور کیا
ارسلان افتخار ان کے ہمراہ نہیں ہوتا کیا وہ مجھے نہیں جانتا۔ چیف جسٹس
بتائیں کہ کیا انہیں اس کیس کا علم پہلے سے نہیں تھا؟ انہوں نے اس پر سو
موٹو کیوں نہیں لیا۔ چیف جسٹس بتائیں احمد خلیل کے گھر ان کی وزیراعظم سے
کتنی ملاقاتیں ہوئیں اور اس دوران سپریم کورٹ کا جج بھی موجود ہوتا تھا؟
اس پرپس کانفرنس کے کچھ ہی دیر بعد ملک ریاض کے ان تینوں سوالوں کی دھجیاں
اڑ گئیں۔ مختلف حوالوں سے ان کے جوابات سامنے آگئے اور یہ بات واضح ہو گئی
کہ ملک ریاض نے سوالات توڑ مروڑ کر پیش کیے تھے چیف جسٹس سے ان کی ملاقات
کے بارے میں علم ہوا کہ یہ ملاقاتیں تب ہوئیں جب چیف جسٹس معطل تھے اور ملک
ریاض صدر پاکستان آصف علی زرداری کی طرف سے درمیانی راستہ نکالنے اور ڈیل
کرنے آتے تھے، لیکن چیف جسٹس نے صدر سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کیس
کے بارے میں اعتزاز احسن نے بتایا کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل چیف جسٹس سے
بات کی تھی اور چیف جسٹس نے کہا تھا میں ارسلان سے بات کروں گا عین ممکن ہے
ارسلان نے انہیں مطمئن کر لیا ہو۔ جبکہ احمد خلیل کے گھر ملاقات والی بات
کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اس کے بعد ملک ریاض نے ایک پلان انٹرویو ایک ٹی وی
چینل کو دیا جس کی آف دی ریکارڈ گفتگو سامنے آگئی اور یہ بھی بے نقاب ہو
گیا اس انٹرویومیں یوسف رضا گیلانی کا بیٹا اینکر کو ہدایات دے رہا تھا اور
اس نے وقفے کے دوران اینکر کے موبائل پر ملک ریاض اور اینکر سے بات بھی کی،
لیکن یہ صورتِ حال اس طرف اشارہ کر رہی تھی کہ ملک ریاض اس مسئلے کو عدالت
کی بجائے میڈیا پر اچھالنا چاہتے تھے تاکہ چیف جسٹس کو گندا کر سکیں اور ان
کے خلاف عوامی سطح پر پنڈور ابکس کھل سکے۔
چیف جسٹس نے اس کیس کی سماعت کے آغاز میں کہا تھا کہ اگر ملک ریاض جھوٹے
ثابت ہوگئے تو ان کے دفاتر سیل کر دیے جائیں گے ملک ریاض نے اس کا توڑ یوں
کیا کہ عدالت میں اپنا بیان جمع کرواتے ہی ایک پریس کانفرنس میں بزنس
چھوڑنے کا اعلان کر دیا اور کاروبار اپنے بیٹے کے نام منتقل کر دیا ان کے
بیٹے نے بھی عدالت میں بیان جمع کروا دیا تھا کہ اس کا اس سارے معاملے سے
کوئی تعلق نہیں اب اصولاً کاروبار ملک ریاض کے بیٹے کا ہے ملک ریاض کا نہیں
اور ان کے بیٹے کا اس معاملے سے تعلق ہی نہیں یوں ملک ریاض نے اپنا کاروبار
محفوظ کر لیا۔ انہوں نے دوسری گیم یہ کھیلی کہ ارسلان افتخار کو رقم دینے
کے حوالے سے اپنے داماد اور بیٹی کا ذکر کیا اور خود براہِ راست رقم دینے
سے انکار کیا ملک ریاض کا داماد غیر ملکی شہرت کا حامل ہے اور اسے پاکستانی
عدالت میں طلب نہیں کیا جا سکتا بقول ملک ریاض ادائیگیاں اسی کے کریڈٹ کارڈ
سے ہوئیں اور ارسلان اسے ہی بلیک میل کر رہا تھا۔ اس طرح مجرم ثابت ہونے پر
ان کے داماد کو بھی عدالت میں طلب نہیں کیا جا سکتا۔
اس ساری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے ملک ریاض نے کامیابی سے
اپنے پتے شو کیے اور اس خوبصورتی سے چالیں چلیں کہ مشکل حالات میں بھی ان
کا بادشاہ محفوظ ہے۔ ملک ریاض کے اس کیس کو مزید پھیلایا گیا اور سوشل
میڈیا پر ایسی لسٹیں جاری کی گئیں جن کے مطابق پاکستان کے کئی بڑے صحافی
اور اینکر ملک ریاض کے پے رول پر کام کر رہے ہیں اور ملک ریاض نے انہیں
کروڑوں روپے گاڑیوں اور کوٹھیوں سے نوازا لیکن ملک ریاض اور صحافیوںنے اس
سے انکار کر دیا اور وہ لیٹر پیڈ بھی بحریہ ٹاﺅن کا نہیں تھا چونکہ اس
حوالے سے ابھی مصدقہ اطلاعات نہیں مل سکیں لہٰذا ان کا ذکر نہیں کیا جا
رہا۔ اسی طرح اس رپورٹ میں بہت سی باتیں مزید شامل کی جا سکتی ہیں لیکن جگہ
کی کمی کی وجہ سے انہیں شامل نہیں کیا جا سکا جبکہ کچھ باتیں اس لیے بھی
شامل نہیں کی جا سکتیں کہ یہ کیس عدالت میں ہے اور اس کا فیصلہ نہیں آیا۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف جسٹس نے اسے دو افراد کا باہمی تنازعہ
قرار دیتے ہوئے زرداری حکومت کی زیر نگرانی تفتیش کے لیے بھیج دیا۔
یوں عدلیہ کے خلاف بہت بڑی سازش ناکام ہو گئی اور بروقت فیصلوں سے یہ کیس
ان عام کیسز میں شامل ہو گیا جو دو افراد کے باہمی اختلافات کی مد میں آتے
ہیں۔ اگر یہ سازش کامیاب ہو جاتی تو بہت بڑا بھونچال آجاتا اور پاکستان کے
موجودہ حالات بہت مختلف نظر آتے۔ اﷲ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔(آمین) |