حکومت نے ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے جسے عوامی و سیاسی حلقے عوام پر پٹرول بم قرار
دے کر اس کے خلاف احتجاجی بیان بازی کررہے ہیں جبکہ توانائی کا بحرا ن اس
قدر گھمبیر ہوچکا ہے کہ اب لوڈ شیڈنگ گھنٹو ں کے حساب سے نہیں ہورہی بلکہ
بجلی گھنٹوں کے حساب سے آرہی ہے اور ایک محتاط سروے کے مطابق عوام کو چوبیس
میں سے صرف دو گھنٹے بجلی دستیاب ہے اس صورتحال میں لوڈ شیڈنگ پر سیاست
صوبوں کے درمیان انتشارو نفاق کو فروغ دے کر تعصب و لسانیت کو ایک بار پھر
ہوا دے رہی ہے اور احتجاج کی آڑ میں شر پسند عناصر کی لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
انفرا اسٹرکچر کی تباہی کے ساتھ قومی ‘ سرکاری اور نجی شعبے کوبھی نقصان
پہنچارہی ہے۔ غرض کہ ہر جانب ایک کہرام بپا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے باعث صنعتیں
بند ہوچکی ہیں اور ذراعت برباد ہے پیداوار کی کمی کے باعث جہاں غذائی بحران
جنم لے رہا ہے وہیں مہنگائی و گرانی عروج پر ہے اور صنعتی و ذرعی عمل کی
تباہی سے بڑھنے والی بیروزگاری کی شرح جہاں معاشی و سماجی مسائل پیدا کررہی
ہے وہیں جرائم اور لا قانونیت بھی بڑھ رہی ہے اور بیروزگار نوجوان دہشتگرد
تنظیموں ‘ لینڈ مافیا ‘ بھتہ مافیا ‘ اسلحہ و منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ
گروہوں اور مافیاز کیلئے ”خام مال “ کا کردار ادا کررہے ہیں کیونکہ پیٹ
بھرنے کیلئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور وسائل کیلئے روزگار چاہئے جب غریب
کو روزگار نہیں ملتا تو بھوک پھر اسے کسی بھی جانب لے جاسکتی ہے اور غریب
کی اس بھوک سے فائدہ اٹھانے کی روایت پاکستان میں نئی نہیں ہے البتہ فائدہ
اٹھانے کی کچھ نئی جہتیں ضرور ایجاد ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں قتل
و غارت گری اور کراچی میں ٹارگیٹ کلنگ بڑھی ہے اور امن عامہ کی صورتحال نے
پاکستان کو خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل کرادیا ہے جس سے بیرونی
سرمایہ کار تو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے خوفزدہ ہیں ہی پاکستان کا
اندرونی سرمایہ کار بھی بد امنی ‘ مہنگائی ‘ لوٹ مار ‘ بھتہ خوری ‘ سیاسی
بلیک میلنگ ‘ لوڈ شیڈنگ ‘ پانی و گیس کی عدم دستیابی اور ٹریڈ یونینز کی
بلیک میلنگ سے تنگ آکر اپنے سرمائے کو بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہوچکا
ہے اور بنگلہ دیش کے ساتھ ملائیشیا کے صنعتی علاقوں کو آباد کررہا ہے جو
یقینا پاکستان کے مستقبل کیلئے انتہائی خطرناک ہے ۔
ریاست کے استحکام کا دارومدار اس کی معیشت پر منحصر ہوتا ہے کیونکہ معیشت
جتنی مستحکم ہوگی عوام اتنے ہی خوشحال اور ملک سے محبت کرنے والے ہوں گے
اور خوشحال عوام عموماً امن پسند اور قانون پرست ہونے کے ساتھ ساتھ غیر
مشتعل مزاج بھی ہوتے ہیں اس لئے خوشحال ممالک میں جرائم کی شرح بھی کم ہوتی
ہے اور بد امنی کے واقعات بھی نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور پر امن
معاشروں میں سرمایہ کاری بھی ہوتی ہے ‘ صنعتی و زراعتی اور پیدواری عمل بھی
پوری رفتار سے چلتا ہے جس سے لوگوں کو روزگار بھی ملتا ہے سستی اشیاءبھی
دستیاب ہوتی ہیں اور اضافی پیداوار ذرِ مبادلہ کے حصول کا ذریعہ بھی بنتی
ہے اور ایسے پر امن ممالک دنیا میں اپنا جو وقار بناتے ہیں اس کے بعد کسی
جارح ملک یا سامراجی قوت کو اس ملک کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت و
جرات بھی نہیں ہوتی جبکہ غربت اور مفلوک الحالی ریاست کو مسائل و مصائب کی
آگ میں تو جھونکتی ہی ہے جارح مملکتوں اور سامراجی ممالک کیلئے آسان شکار
بھی بنادیتی ہے اورغریب ریاستیںجلد اپنے آزاد تشخص سے محروم ہوجاتی ہےں اور
افسوسناک اَمر یہ ہے کہ پاکستان اسی راہ کا مسافر ہے ۔
پاکستان کی تباہی و بربادی کی داستان کوئی نئی نہیں ہے اس کی تاریخ اتنی ہی
پرانی ہے جتنی کہ پاکستان کی عمر مگر اس پر بہت بات کی جاچکی ہے اسلئے فی
الوقت ہم موجودہ مسائل کی وجوہات پر ہی گفتگو کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کے
تمام مسائل و مصائب کی عصری وجہ غربت ہے اور غربت کے باعث ہی لوگ خودکشی کے
ذریعے اپنی زندگی دینے یا ٹارگیٹ کلنگ کے ذریعے چند پیسوں کے عیوض دوسرے کی
زندگی چھین لینے پر مجبور ہیں ‘ یہ غربت ہی ہے جو پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے
ایک شریف خاندان کی عزت کو بازارکی زینت بننے اور جسم بیچنے پر مجبور کرتی
ہے ‘ غربت کے ہاتھوں مجبور نوجوان ہی سیاسی تنظیموں ‘جرائم پیشہ گروہوں میں
شامل ہوکر قانون ہاتھ میں لیتے ہیں یا پھربھتہ مافیا ‘ لینڈ مافیا ‘ اسلحہ
و منشیات اور دیگر مافیاز کے کارندے بن کر ان مافیاز کے مفادات کیلئے عوامی
مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔قوت خرید اور وسائل سے محرومی ہی ایک
دیانتدار پولیس اہلکار یاسرکاری ملازم کو رشوت کی جانب لے جاتی ہے اورکرپشن
کے ناسور کو جنم دےکر سماجی مسائل پیدا کرتی ہے ۔ غربت کی وجہ سے ہی لوگوں
کو انصاف نہیں مل پاتا اور پھر وہ استحصال کے خلاف بغاوت کرتے ہیں جسے
عسکریت پسندی کا نام دیکر جبر کی روایت دہشت گردی کو جنم دیتی ہے جس میں
ریاست کا امن و امان جل کر خاک ہوجاتاہے اسلئے سب سے پہلے غربت کا خاتمہ
ضروری ہے ۔
غربت کے خاتمے کیلئے لوگوں کو روزگار اور محنت کے مطابق بھرپور معاوضے کی
فراہمی کے ساتھ مہنگائی و گرانی کا خاتمہ بھی ضروری ہے تاکہ لوگ اپنی آمدنی
کے اندر رہتے ہوئے اپنی ضروریات کی تکمیل کرسکیں اورعوام کو روزگار کی
فراہمی کے ساتھ مہنگائی سے نجات دلانے کیلئے پیداوار میں اضافہ اور صنعت و
ذراعت کے پہئے کو پوری رفتار سے چلانا ہوگا مگر بجلی کی عدم دستیابی ‘ لوڈ
شیڈنگ اور پانی و گیس کے بحران کے باعث چونکہ صنعتوں کا پہیہ چل سکتا ہے نہ
ذراعت کو فروغ دینا ممکن ہے اس لئے پیداواری عمل میں اضافہ ممکن نہیں ہے
اور جب پیداوار نہیں بڑھ سکتی تو نہ ہی عوام کو مہنگائی سے نجات دلائی
جاسکتی ہے اور نہ عوام کو روزگار اور محنت کے مطابق معاوضہ فراہم کیا
جاسکتا ہے اور بیروزگاری و غربت اسی طرح دہشت گردی ‘ بد امنی ‘ لوٹ مار اور
قتل و غارت گری کا باعث بنے رہے گی اور ایک دن پاکستان ناکام ریاست میں
تبدیل ہوکر خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا جس کے بعد سامراجی قوتیںا ور اسلام
دشمن ممالک اتفاق رائے سے انسانی حقوق کے نام پر اقوام متحدہ کی فوجیں
پاکستان میں اتارنے کا فیصلہ کریں گے اور ہم امریکی و برطانوی سنگینوں اور
بندوقوں کے سائے میں غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔
یہ وہ حالات ہیں جن سے نجات کی کوئی راہ سجھائی دیتی ہے نہ کوئی روشن کرن
دکھائی دیتی ہے!
اللہ بڑا غفور الرحیم ہے اور چونکہ اس نے برصغیر کے مسلمانوں کو رمضان
کی27ویں شب پاکستان ماہِ صیام کی عبادت و ریاضت کے صدقے میں تحفے و نعمت کے
طور پر عطا کیا ہے اس لئے اس کی حفاظت بھی وہی کررہا ہے وگرنہ تو ہمارے
رہبروں و رہنماؤں کی بد اعمالیوں ‘ سیاستدانوں کی مفاد پرستی ‘ اشرافیہ کا
جبر و ظلم اور عوام کی کردار پر شخصیات کو فوقیت دینے کی عادت کب کا
پاکستان کا وجود مٹاچکی ہوتی مگر پاکستان آج بھی قائم ہے جو اس بات کا ثبوت
ہے رب رحیم و کریم پاکستان پر مہربان ہے اور” رسی تنگ کرکے ہمیں سمجھاتا ہے
کہ ہم درست راہ کا انتخاب کریں اور پھر رسی دراز کرکے ہمیں دانشمندی کے
فیصلوں کا موقع دیتا ہے“ مگر ہم لکیر کے فقیر ‘ دھاک کے تین پاتوں کی طرح
ذاتی ‘ گروہی اور وقتی مفادات کیلئے تعصب و لسانیت کا شکار ‘ شخصیت پرستی
کے اسیر ہر بار ہر موقع کو گنوادیتے ہیں اور روایتی و موروثی سیاستدانوں ‘
سرمایہ داروں اور اشرافیہ کو پھر سے اقتدار میںلاکر اپنے اس گناہ کی سزا
کاٹنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان آج اس بند گلی میں
جاکھڑا ہوا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے نہ کوئی روزن
................مگر رحیم و مہربان رب یہاں بھی ہماری مدد و رہنمائی کررہا
ہے اور ان حالات میں اس نے ایک با صلاحیت پاکستانی انجینئر آغا وقار کے
ذریعے پٹرول کی بجائے پانی سے کار چلانے والی کٹ ایجاد کرادی ہے اور اس
حوالے سے آغا وقار کا کہنا ہے کہ اگر انہیں وسائل و سہولیات مہیا کی جائیں
اور ان کی سرپرستی کی جائے تو نہ صرف کاریں اور موٹر سائیکلیں بلکہ جنریٹرز
‘ ٹربائن ‘ ریل کے انجن اور حتیٰ کہ ہوائی و بحری جہازوں کیلئے بھی ایسی کٹ
تیار کرسکتے ہیں جسے لگانے کے بعد پٹرول کی بجائے پانی سے ہر چیز کا انجن
چلایا جاسکتا ہے ۔
آغا وقار کی پانی سے انجن چلانے والی یہ ایجاد رب ذوالجلال کا وہ تحفہ ہے
جو ہمیں ان مشکل حالات سے نکالنے کا سبب بن سکتی ہے اگر اس ایجاد کو سرکاری
سرپرستی یا نجی شعبے کے تعاون سے صنعتی بنیادوں پر تیار کرکے مارکیٹ کیا
جائے تو پاکستان میں موٹر سائیکلیں ‘ کاریں ‘ بسیں ‘ ویگنیں ‘ مزدا ‘ کوچز
اور ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کو پانی کی مدد سے چلایا جاسکے گا جس سے ملک میں
پٹرول کا استعمال انتہائی محدود ہوجائےگا اور ایک جانب حکومت کو پٹرول پر
دی جانے والی اربوںروپے سالانہ کی سبسڈی سے نجات مل سکے گی تو دوسری جانب
پٹرول کی خرید اری کیلئے بیرون ملک منتقل ہونے والا ہمارا اربوں ڈالر کا
سرمایہ بھی وطن میں ہی محفوظ رہتے ہوئے یہاں سرمایہ کاری کے کام آئے گاجو
اتنی بڑی رقم ہے کہ اس کے بعد ہمیں خوشحالی کیلئے بیرونی سرمایہ کاروں کی
ضرورت نہیں رہے گی -
پانی سے انجن چلانے والی کٹ کو مزید وسعت دے کر اس کی مدد سے ٹرین چلانے کے
منصوبے پر کام کے ذریعے ہم ریلوے کے تباہ ہوتے ہوئے نظام کوبھی بچاسکتے ہیں
اور تیل نہ ملنے کے باعث بند ہوجانے والی ٹرینوں کو بھی دوبارہ ٹریک پر
لاکر عوا م کی سستی سفری سہولت کو بحال کرکے ریلوے سے وابستہ لاکھوں
ملازمین کو بھی بیروزگاری کے عذاب سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔
پانی سے انجن چلانے والی کٹ کے ذریعے پانی سے کار چلانے کا عملی مظاہرہ
کرنے والے انجینئر آغا وقار کا کہنا ہے کہ اگر انہیں وسائل وسہولیات مہیا
کی جائیں تو وہ اپنی اس کٹ کو اس قابل بناسکتے ہیں کہ اس کٹ کی مدد سے بجلی
پیدا کرنے کے ٹربائنز اور ہیوی جنریٹر ز کو بھی پٹرول و ڈیزل کے بغیر پانی
سے چلایا جاسکے ۔
ذرا سوچئے اگر ایسا ہوگیا تو کیا ہوگا ؟
فرنس آئل کی کمی کے باعث بند بجلی گھر پھر سے پیداوار کے قابل ہوجائیں گے ‘
ڈیموں کے بغیر بھی بجلی پیدا کرنا ممکن ہوجائے گا جس کے بعد بجلی گھر کہیں
بھی بنایا جاسکے گا اور ہر علاقے میں اس کی ضرورت کے مطابق پاور پلانٹ
لگاکر بجلی پیدا کرنا اور اس علاقے کو فراہم کرنا ممکن ہوگا جس سے ہائی
ٹینشن وائروں کا جال بچھانے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی اور ہر ضلع میں بجلی
گھر اس کی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرکے مہیا کرسکے گا جس سے لوڈ شیڈنگ سے
سو فیصد نجات ممکن ہوجائے گی ساتھ ہی تاریں ٹوٹنے اور گرڈ اسٹیشن بند ہونے
کے واقعات کے باعث بجلی کے تعطل کے واقعات بھی ختم ہوجائیں گے جبکہ بلا
تعطل بجلی کی فراہمی سے نہ صرف مردہ صنعتیں پھر سے زندہ ہوجائیں گی بلکہ
ٹیوب ویل اور رہٹ کے ذریعے پانی حاصل کرکے نہروں سے دور علاقوں میں بھی
ذرعی زمین آباد کرکے غذائی اجناس کی پیداوار ممکن ہوجائے گی اور صنعت و
ذراعت کا پہیہ پوری رفتار سے چلے گا تو عوام کو روزگار بھی ملے گا اور خدمت
و محنت کا معاوضہ بھی جبکہ پیداوار میں اضافے سے طلب میں کمی اور رسد میں
اضافہ اشیائے صرف کی گرانی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا جس سے مہنگائی
کا زور ٹوٹے گا اور ہر چیز عوا م کی قوت خرید میں آجائے گی جس سے حاصل ہونے
والی خوشحالی عوام میں آسودگی و اطمینان پیدا کرکے ان میں حب الوطنی کے ان
جذبات کو فروغ دے گی جو قوانین کے احترام اور جرائم کے خلاف جدوجہد کا باعث
بنتے ہیں اور جب عوام قانون کا حترام کرنے لگیں اور جرائم کے خلاف کمر کس
لیں تو پھر سیاسی جماعتیں اپنی سیاست کے تحفظ کیلئے بھتہ مافیا ‘ لینڈ
مافیا اور جرائم پیشہ عناصر کو خود سے دور کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں
اورجرائم پیشہ گروہ سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے اس
طرح سیاست و جرم گٹھ جوڑ کا خاتمہ امن و خوشحالی کا باعث بن جاتا ہے اسلئے
اگر آغا وقار کی تیار کردہ پانی سے انجن چلانے والی کٹ کو فروغ دے کر بجلی
بحران پر قابو پالیا جائے تو توقع ہے کہ غربت ‘ بیروزگاری ‘ مہنگائی ‘ بد
امنی ‘ بھتہ خوری ‘ ٹارگیٹ کلنگ اور غربت سے پیدا ہونے والے دیگر سماجی
مسائل اور بحرانوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔
پاکستان چونکہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا اسیر ہے اس لئے اس
ملک کے اقتدار پر قابض ٹولہ جو پٹرولیم کی مصنوعات کے کوٹوں کا حامل ہے ہر
گز ایسا نہیں ہونے دے گا کہ پٹرول کی طلب ختم ہوجائے اور ہر طرح کے انجن
پانی سے چلنے لگیں کیونکہ پٹرول پر کثیر منافع کے ذریعے عوام کو لوٹ کر
اربوں روپے کمانے والے عوامی نہیں بلکہ ذاتی مفادات کے طلبگار ہیں ‘تھے اور
رہیں گے اور یہ مفاد پرست تمام روایتی سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں اور
ہوسکتا ہے اپنے مفادات کیلئے عوام کو قتل کرنے والے یہ لوگ آغا وقار کو بھی
اسی طرح سے غائب کرادیں جس طرح سے وہ تمام لوگ غائب ہوجاتے ہیں جو ظلم و
استحصال کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں یا اس ملک و قوم کیلئے حقیقی معنوں میں
کچھ اچھا کرنا چاہتے ہیں اسلئے سپریم کورٹ کو فوری طور اس جانب توجہ دیتے
ہوئے آغا وقار کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کرنی چاہئیں اور اگر
عوام کو آغا وقار جیسے سائنسدانوں کی ایجادات سے استفادہ کرکے اپنے اور
اپنی نسلوں کے مستقبل کو خوشحال بنانا اور مسائل و مصائب سے نجات پانا ہے
تو پھرملکی وسائل پر قابض ‘ عوامی دولت کو لوٹنے اور اپنے مفادات کے تحفظ
کیلئے عوام کو شکار بنانے والے ان تمام موروثی سیاستدانوں‘ قائدین ‘ سیاسی
و مذہبی جماعتوں سے نجات حاصل کرنی ہوگی جو اقتدار میں آنے کیلئے عوام کے
ہمدرد اور جمہوریت کے چیمپئن بن جاتے ہیں اور اقتدار پاکر عوام کو بھول
جاتے ہیں ۔ عوام اس بار انتخابات میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا ہی
نہیں بلکہ اپنا بھی محاسبہ کرنے کے بعد اپنے ووٹ کا استعمال درست فیصلے کے
ساتھ راست قےادت کے انتخاب کیلئے کرنا ہوگا تب ہی ممکن ہے کہ ہم رب کے دیئے
اس موقع سے فائدہ اٹھاسکیں وگرنہ تو ہم اس بند گلی میں پہنچ ہی چکے ہیں
جہاں آگے راستہ ہے نہیں اور پیچھے پلٹنے سے پتھر کے ہوجانے کا خطرہ بہر حال
موجود ہے ! |