مذہبی عناصر اور دائیں بازو کے
سیا ستدان 1977 میں قومی اتحاد کی تشکیل والا فارمولا آج بھی پوری آب و تاب
سے رو بہ عمل لا تے ہیں ۔انھوں نے اس فارمولے کو پی پی پی کے خلاف مختلف
اوقات میں آزمایا اور اس سے اکثر افاقہ محسوس کیا لہذا اس کے نفاذ میں وہ
ہمیشہ بے چین رہتے ہیں۔ملک کی علاقائی، لسانی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں
کےلئے پی پی پی کا تنِ تنہا سامنا کرنا ممکن نہیں ہوتالہذ وہ ہر الیکشن میں
اسی فارمولے کے تحت پی پی پی کا سامنا کرتی ہیں۔پاکستان مسلم لیگ (ن) ملک
کی اہم سیاسی جماعت ہے لیکن وہ بھی پنجاب کی حد تک محدود ہو چکی ہے۔مذہبی
جماعتوں کے دوغلے پن کی وجہ سے عوام میں انکی کوئی ساکھ نہیں ہے لہذ
انتخابات میں انکی کارکردگی ہمیشہ ہی بہت برائے نام رہتی ہے لہذا ان کےلئے
ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ وہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی بیساکھیوں
پر کارزارِ سیاست میں اپنی موجودگی کا احساس دلائیں ۔ پی این اے اور پھر
اسلامی جمہوری اتحاد کی قبا سجانے میں مذہبی جماعتیں پیش پیش بھی تھیں اور
نمایاں حیثیت کی مالک بھی تھیں اور اب بھی وہ ا نہی خطوط پر سوچ رہی ہیں کہ
کوئی بڑا اتحاد تشکیل دے کر دائیں بازو کے ووٹوں کو محفوظ کرکے پی پی پی کو
آنے والے انتخابات میں شکست سے دوچار کیا جائے ۔ پاکستان میں متحدہ اپوزیشن
کی تشکیل کا تاریخی سفر اسی پسِ منظر میں ہنوز جاری ہے جس میں کافی عرصے سے
کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔پی پی پی نے ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کا سامنا
کیا اور بڑی جراتوں سے سامنا کیا۔ آج کل پی پی پی اور عدلیہ میں آنکھ مچولی
جاری ہے ۔ عدلیہ پی پی پی کے اقتدار کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے اور
اسے قانون کے نام پر اقتدار کے ایوانوں سے رخصت کرنا چاہتی ہے ۔ 19 جون کو
سپریم کورٹ نے توہینِ عدالت کے قانون کے تحت وزیرِ اعظم سید یوسف رضا
گیلانی کو ان کے عہدے سے نا اہل قرار دے کر انکی چھٹی کروا دی تھی۔ انکی
نااہلی کی وجہ سے جو نشست خالی ہو گئی تھی اس پر ۹۱ جولائی کو ضمنی انتخاب
ہو ا تھا ۔ ملتان میں این اے ۱۵۱ کا حلقہ عدالتی حکم کی وجہ سے سب کی توجہ
کا مرکز بن گیاتھا کیونکہ اس انتخابی حلقہ میں اس بات کا فیصلہ ہونا تھا کہ
عوام عدالت کے فیصلے کی توثیق کرتے ہیں یا اسے نامنظور کر دیتے ہیں۔ عوامی
عدالت نے پی پی پی کا ساتھ دے کر عدالتی فیصلے کو رد کر دیا جسکے نتیجے میں
سید عبدا لقادر گیلانی این اے ۱۵۱ کا ا نتخاب جیت گئے ۔ یہ فتح در حقیقت
عوام کی فتح ہے۔پوری اپوزیشن شوکت حیات بوسن کے ساتھ کھڑی تھی کیونکہ متحدہ
اپوزیشن حلقہ این اے ۱۵۱ پر پی پی پی کو ہزیمت سے دوچار کر کے نئے ا
نتخابات کا مطالبہ منوانا چاہتی تھی لیکن انکی ساری امیدیں خاک میں مل گئی
ہیں اور عوام نے ایک دفعہ پھر پی پی پی کا ساتھ دے کر یہ ثا بت کیا کہ پی
پی پی کو عدالتوں کے ذریعے قتل کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ لوگ جو صبح شام پی پی
پی کی غیر مقبولیت کا شور مچائے ہو ئے تھے انکی آنکھیں بھی کھل جانی چائیں
کہ پی پی پی کو اخباری بیانات اور ٹاک شوز کی حکمتِ عملی سے شکست سے دوچار
نہیں کیا جا سکتا۔ وہ لوگ جو مڈ ٹرم الیکشن کے نعرے بلند کر رہے تھے انھیں
اپنی شکست کے بعد انتخابات 2013 کا انتظار کرنا چائیے ۔ پی پی پی عوامی
پارٹی جس نے آمریت کی گود میں نہیں بلکہ عوامی عدالت میں اپنی تخلیق کا سفر
شروع کیا تھا اور آج تک اس کا یہ سفر جاری ہے۔ غیر جانبدار اور شفاف
انتخابات ہمیشہ سے اسکی آرزو ہے اور اس سمت میں اسکے اقدامات کو سب نے سرا
ہا ہے۔ میاں شہباز شریف کی صوبائی حکومت میں پی پی پی نے الیکشن جیت کر یہ
ثابت کیا ہے کہ وہ عوامی جماعت ہے اور عوامی حمائت سے بر سرِ اقتدار آتی ہے
۔ سوال یہ ہے کہ جب میاں شہباز شریف کی حکومت نہیں ہو گی اور انتخابات غیر
جانبداد نگران سیٹ اپ کے زیرِ نگرانی ہو ں گئے تو پھر اپوزیشن کا کیا بنے
گا ؟ حلقہ این اے ۱۵۱ ملتان میںمتحدہ اپوزیشن پی پی پی کے سامنے ریت کی
دیوار ثابت ہو ئی لہذا جب اپو زیشن علیحدہ علیحدہ جماعتوں کی شکل میں
انتخابات میں جائےگی تو اسکی قوت تقسیم ہو جائےگی جس سے پی پی پی آ ئندہ
انتخابات بھی آسانی سے جیت جائےگی جو اپو زیشن کےلئے سخت پریشانی کا موجب
بنا ہوا ہے۔۔۔
تحریکِ انصاف کے چیرمین عمران خان کی اس انتخاب کے بعد آنکھیں کھل جانی
چاہئیں اور انھیں اپنے سونامی کی فکر کرنی چائیے ۔وہ دن رات سونامی سے
لوگوں کو خوفزدہ کرنے میں جٹے ہو ئے ہیں ۔ اپنے جلسوں کی رونق سے وہ اس خام
خیالی کا شکار ہو گئے ہیں کہ وہ ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو شکستِ فاش سے
دوچارکر کے اقتدار کی مسند پر بیٹھ سکتے ہیں۔ملتان کے انتخاب نے عمران خان
کوا س خوابِ خرگوش سے بیدار کر دیا ہے ۔انھیں ادراک ہو گیا ہو گا کہ وہ
تنہا اس پوزیشن میں نہیں ہیںکہ دو نوں بڑی جماعتوں کو شکست دے سکیں۔ضمنی
انتخابات میں قسمت آزمائی نہ کرنے کے پیچھے یہی ھکمتِ عملی تھی کہ وہ اپنی
مٹھی کو بند رکھنا چاہتے تھے تا کہ ضمنی ا نتخابات میں ممکنہ شکست سے انکے
سونامی کے دعووں کو دھچکا نہ لگے۔ ایک زمانے میں وہ ضمنی انتخابات میں حصہ
لیا کرتے تھے لیکن انکی کارکردگی انتہائی ناقص رہتی تھی ۔ پچھلے سال
راولپنڈی کے ضمنی انتخاب (شیخ رشید حلقہ ) میں ان کے امیدوار کو پانچ ہزار
کے قریب ووٹ ملے تھے اور یوں انکے امیدوار کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی ۔جنرل
شجاع پاشا کی اشیرواد اور لوٹوں کی تحریکِ انصاف میں شمولیت کے بعد اس
جماعت میں زندگی کے اثار ظاہر ہونا شروع ہو ئے جس میں لاہور کا وہ جلسہ بھی
ہے شامل ہے جس نے عمران خان کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا۔ہونا تو یہ
چائیے تھا کہ تحریکِ انصاف کے وہ لوگ جو قومی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی
ہو ئے تھے وہ تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے انتخاب میں حصہ لیتے اور اپنی
نشستیں جیت کر پارلیمنٹ کے اندر ایک توانا اپوزیشن کا کردار ادا کرتے لیکن
اپنی ہار کے خوف سے تحریکِ انصاف نے یہ نشستیں دوسری جماعتوں کو تحفے میں
دے ڈا لیں۔ این اے ۱۵۱ ملتان نے اپوزیشن کو ایک دفعہ پھر موقعہ فراہم کیا
تھا کہ وہ متحد ہ اپوزیشن کے پرانے نسخے کو آزما کر پی پی پی پر کاری وار
کرے اور عدلیہ کی ڈسی ہوئی اس جماعت کو عوا می عدالت سے بھی شکست سے ہمکنار
کرکے اس کی سبکی کرے لیکن جسے اللہ عزت دینا چاہے اسے کو ئی ذلت نہیں دے
سکتا اور جسے اللہ ذلت دینا چا ہے اسے کوئی عزت سے سرفراز نہیں کر سکتا۔
این اے ۱۵۱ ملتان سے سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سید عبدالقادر گیلانی کے
مدِ مقا بل شوکت حیات اپوزیشن کے متفقہ امیدوار بن کر سامنے آئے۔شوکت حیات
بوسن سکندر حیات بوسن کے چھوٹے بھائی ہیں جو تحریکِ انصاف کے مرکزی راہنما
ہیں۔جما عت اسلامی اس انتخاب میں پیش پیش تھی اور پی پی پی کو شکست سے
ہمکنار کرنے کےلئے ہر او ل دستے کا رول ادا کر رہی تھی ۔شوکت حیات بوسن کے
پو سٹرز پر عمران خان،میاں برادرن، منور حسن اور چیف جسٹس افتحار محمد
چوہدری کی تصویریں بڑی نمایا ں تھیں تاکہ عوام کو یہ سمجھنے میں آسانی رہے
کہ پی پی پی پی کو ہرانے کےلئے عدلیہ بھی اپوزیشن کے ساتھ ہے اور یوں عدلیہ
کی ہمدردی کا ووٹ بھی متحدہ اپوزیشن کے حصے میں آنے کی اعلی منصوبہ بندی کی
گئی تھی لیکن الٹی ہو گئیں سب تدبیریں دل نے کچھ نہ کام کیا کے مصدا ق یہ
سارے نسخے بےکار ثابت ہو ئے اور سید عبدا لقادر گیلانی نے شوکت حیات بوسن
کو شکست سے دوچار کر کے ثابت کر دیا کہ پی پی پی ایک عوامی جماعت ہے جسے
سازشوں اور جعلی اتحادوں سے شکست دینا ممکن نہیں ہے۔عمران خان کو سب سے
زیادہ خفت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کے سونا می کا بھوت وقت آنے سے پہلے
ہی دم دبا کر بھاگ نکلا ہے۔ ان کی کیفیت اس شعر کے مصداق ہے
۔۔ بہت شور سنتے تھے پہلو میں جس کا۔۔ جو چیرا تو اک قطرہِ خوں بھی نہ
نکلا۔۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی سیاست آج بھی بھٹو اور اینٹی بھٹو
کیمپوں میں تقسیم ہے۔بھٹو فیکٹر اتنا طاقتور ہے کہ پوری اپوزیشن مل کر بھی
اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے ۔ این اے ۱۵۱ ملتان کا الیکشن پی پی پی کےلئے
ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ پوری اپوزیشن متحد ہو کر اسے شکست دینا چاہتی تھی
لیکن عوام کی تائید نے ان کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر کر پی پی پی کی
قیادت کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ۔ پی پی پی کا سارا انحصا ر ذولفقار علی
بھٹو کی طلسماتی شخصیت پر ہے کیونکہ اسی کے نام پر پی پی پی کو ووٹوں کی
نیاز ملتی ہے جس سے انکی سیاسی دوکانداری چلتی ہے۔ جیالوں کا پختہ ایمان ہے
کہ پاکستانی سیاست بھٹو ازم کے سحر میں جکڑی ہو ئی ہے اور اس کا بھٹو کے
سحر سے رہا ہونا ممکن نہیں ہے۔ان کے بقول کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو
زندہے صرف ایک نعرہ ہی نہیں تاریخی حقیقت ہے اور جسے اس نعرے پر شک ہے وہ
کھلی آنکھوں سے این اے ۱۵۱ ملتان کے ا نتخابی نتائج کا جائزہ لے اس پر اس
نعرے کے اندر چھپی ہو ئی سچائی خود بخود ہی واضح ہوتی چلی جائےگی۔بجلی،
گیس، لوڈ شیڈنگ دھشت گردی اور دوسرے بے شمار مسائل کے انبار میں جکڑے ہوئے
عوام اگر پھر بھی جئے بھٹو کے نعرے بلند کرتے ہیں تو اسکی کوئی تو وجہ ہو
گی کوئی تو سبب ہو گا؟ سچ تو یہ ہے کہ ذولفقار علی بھٹو نے عوام سے جس سچی
اور گہری محبت کا اظہار کیا تھا اور پھر اس محبت کی حقانیت کی خاطر اپنا
لہو نچھاور کیا تھا پاکستانی قوم آج تک اسی محبت کا قرض چکانے کی دھن میں
مگن ہے ۔محبت کا یہ قرض جب تک جیالوں کے سروں پر سوار رہےگا بھٹو ازم اور
پی پی پی ایک زندہ حقیقت رہےگی۔۔ ،،،، |