خادم اعلیٰ سے خادمین صحت کا مطالبہ

آجکل کےترقی یافتہ دور میں ترقی یافتہ اقوام اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ اگر عوام میں صحت کے حوالہ سے شعور اجاگر کر دیا جائے تو صحت کے حوالہ سے پیدا ہونے والے بہت سے گوں نا گوں مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ ٢٠٠٠ میں ہونے والے ایک بین الاقوامی معاہدے میلینئم ڈوہلپمنٹ گولز پر دنیا کے ١٤٧ ممالک نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے کُل ٨ نکات تھے جن میں سے ٣ احداف صحت سے متعلق ہیں۔
حدف نمبر ٤۔ بچوں کی شرح اموات میں کمی
حدف نمبر ٥۔ عورتوں کی شرح اموات میں کمی
حدف نمبر ٦۔ ملیریا ، ٹی بی اور ایڈز جیسے متعدی امراض سے بچائو

پوری دنیا کی طرح پاکستانی حکمرانوں نے بھی اس بات کو محسوس کیا کہ اگر ان احداف کو حاصل کرنا ہے تو لوگوں میں ایک شعوری مہم کا آغاز کرنا ہوگا۔ تاکہ ان مسائل پر قابو پایا جا سکے۔

انہی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے حکومت پنجاب نے سکول ہیلتھ پروگرام کی داغ بیل ڈالی۔ اور محکمہ صحت کی طرف سے گریڈ ١٧ پر سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزر کی کنٹریکٹ پالیسی ٢٠٠٤ کے تحت ڈسٹرکٹ ریکورٹمنٹ کمیٹیوں کے ذریعہ بھرتی کیا گیا۔

سکول ہیلتھ نیوٹریشن سپروائزرز نے پورے پنجاب میں سکول ہیلتھ پروگرام کے حوالہ سے کام شروع کر دیا۔ پہلے مرحلہ میں پورے پنجاب میں صحت کے حوالہ سے ٹیچرز ٹریننگ کروائی گئیں تا کہ اس پروگرام کی کامیابی میں اساتذہ کرام بھی اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔ اس پروگرام کے تحت سکول ہیلتھ نیوٹریشن سپروائزرز نے پورے پنجاب میں یونین کونسل لیول پر ہر ماہ ہر سکول میں سکریننگ کیمپ لگائے اور سکول میں رپورٹ ہونے والے بیمار اور پڑھائی میں کمزور بچوں کو قریبی بنیادی مراکز صحت پر ریفر کرنا شروع کیا تا کہ میڈیکل آفیسرز کی زیر نگرانی ان بچوں کا علاج ہو سکے اور وہ پڑھائی میں بھر پور جوہر دکھا سکیں۔ اس پروگرام کے تحت پنجاب کے ہزاروں بچوں کو ہر ماہ صحت کی سہولیات فراہم ہوئیں۔

فلڈ ٢٠١٠ میں جہاں حکومت کی پوری سرکاری مشینری نے لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے حوالہ سے کام کیا وہاں سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز نے بھی لوگوں کو ایمرجنسی کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اور صحت کے مسائل سے محفوظ رہنے کے لئے حکومت کے شانہ بشانہ کام کیا۔

سکول ہیلتھ نیوٹریشن سپروائزرز نے جہاں پولیو کے خلاف مہم میں سی ایس پی، زونل اور ایریا انچارج کے طور پر کام کر رہے ہیں وہاں ملک میں پھیلنے والے ڈینگی وائرس اور عوام کے اندر ڈینگی کے حوالہ سے شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیے۔ اس سلسلہ میں سکولوں میں اور کمیونٹی لیول پر سیمینارز اور ہیلتھ سیشنز منعقد کروائے گئے۔

سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں پریونٹو ہیلتھ ٹیم کے انچارج کی ذمہ داریاں سونپی گئیں ۔ اُن کی ان تھک محنت اور روزانہ کی بنیاد پر فیلڈ ٹیم کی رپورٹنگ کی وجہ سے پنجاب بھرمیں حفاظتی ٹیکہ جات کا گراف بلنڈ ہوا ، کمیونٹی میٹنگز اور ہیلتھ سیشنز کی وجہ سے لوگوں کو موبلائز کیا گیا جس سے سینکڑوں انکاری خاندانوں نے اپنے بچوں اور حاملہ خواتین کو حفاظتی ٹیکہ جات کے کورس مکمل کروائے۔

اگر ٢٠٠٧ اور ٢٠١٢ کے اعداد و شمار کا موازنہ کیا جائے تو سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز کی کارکردگی کے گراف کو ماپا جا سکتا ہے۔ سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز نے گرمی و سردی جیسے سخت ترین موسم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دور دراز کے علاقوں میں محکمہ صحت کی ٹیموں کے ساتھ ملکر کام کیا۔

موجودہ تناظر میں جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتیں مختلف محکموں کے کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی کی پالیسیاں وضع کر رہی ہے وہاں محکمہ صحت کے ان خادمین میں پریشانی کی صورتحال پائی جاتی ہے۔ بہت سے سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرزجو اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں اُن کی نظریں خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے احکامات کی منتظر ہیں کہ کب سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن سپروائزرز کی مستقلی کے احکامات جاری کر کے ٢٤٥٦ خاندانوں کے مستقبل کو محفوظ کر دیا جائے۔

محکمہ صحت کے ان خادمین کی خادم اعلیٰ سے خادمانہ اپیل ہے کہ سکول ہیلتھ نیوٹریشن سپروائزرز کو بھی جلد از جلد مستقل کیا جائے تا کہ وہ مزید تن دہی سے خادم اعلیٰ کے خواب- صحت مند پنجاب ، کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

ASSAD MEHBOOB BUKHARI
About the Author: ASSAD MEHBOOB BUKHARI Read More Articles by ASSAD MEHBOOB BUKHARI: 2 Articles with 3168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.