صلہ رحمی سے مراد ہے اپنے قریبی
رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا، آپس میں اتفاق و اتحاد
سے رہنا، دکھ، درد، خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا، آپس
میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔ الغرض اپنے
رشتہ کو اچھی طرح سے نبھانا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا، ان پر
احسان کرنا، ان پر صدقہ و خیرات کرنا، اگر مالی حوالے سے تنگدستی اور کمزور
ہیں تو ان کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔
صلہ رحمی میں اپنے والدین، بہن بھائی، بیوی بچے، خالہ پھوپھی، چچا اور ان
کی اولادیں وغیرہ یہ سارے رشتہ دار صلہ رحمی میں آتے ہیں۔ اپنے والدین کے
دوست احباب جن کے ساتھ ان کے تعلقات ہوں، ان سب کے ساتھ صلہ رحمی کرنی
چاہیے۔ جب ان رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، ان کے حقوق پورے نہیں
کیے جائیں گے، ان کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہی قطع رحمی کہلاتی ہے۔ یعنی
اپنے رشتہ داروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا۔
صلہ رحمی ہر دور میں کی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے،
بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کی وہ استطاعت رکھتا ہو، اس کے ساتھ صلہ
رحمی کرے۔ مثلاً ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرے، ان
کے ساتھ اچھی گفتگو کرے، ان کے گھر جا کر حال احوال دریافت کرے۔ ان کے ساتھ
اچھے تعلقات قائم کرے، غمی خوشی میں شریک ہو۔ یہ ساری باتیں صلہ رحمی میں
آتی ہیں۔ قطع رحمی کی سزا تو دنیا میں بھی مل جاتی ہے، جب بھائی مشکل وقت
میں اپنے بھائی کا ساتھ نہیں دیتا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو نہ سمجھا جائے۔
جب خون سفید ہو جائے، تعلقات ختم کریں، جب ضرورت ہو تو اس کی ضرورت کو پورا
نہ کیا جائے، حتی کہ ایک دوسرے کے ساتھ مرنا جینا ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہ
سزا ہی ہے۔ اور قیامت کے دن صلہ رحمی کے متعلق پوچھا جائے گا کہ ہم نے ان
رشتوں کے تقدس کا کتنا خیال رکھا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ
مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُّوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ
أُولَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَo
البقرة، 2 : 27
(یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے
ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور
زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیںo
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم
دیا ہے، اگر اس کے خلاف کریں گے تو یقیناً دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے
والے ہونگے۔ اسی طرح بے شمار آیات میں اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا
ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی احادیث مبارکہ میں
آپس میں صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ صلہ رحمی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا
ہے اور قطع رحمی پر وعید سنائی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صلہ رحمی کا
خیال رکھیں، ایسا نہ ہو کہ جو رشتے دار غیرب ہوں، غربت کی وجہ سے ان سے
تعلقات ختم کر لیں، جیسا کہ آجکل رواج ہے کہ اگر بعض رشتہ دار غریب ہوں اور
بعض امیر تو امیر لوگ ان غریب رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں، اور ان
کو اپنا رشتہ دار سمجھنا اور کہنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اپنےدوست احباب
کے سامنے اپنا رشتہ دار قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جیسے اولاد جب جوان
ہوتی ہے تو اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں
رکھتی، یہ ساری چیزیں گناہ کبیرہ ہیں اور اس کی سزا قیامت کے دن ملے گی،
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا والدین اولاد کے لیے جنت
بھی ہیں اور جہنم بھی، جس نے ان کی خدمت کی اس نے جنت کو پا لیا ورنہ اس کا
ٹھکانہ جہنم ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صلہ رحمی کا صحیح مفہوم سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور
صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اسی میں اتفاق و اتحاد ہے اور دنیا و
آخرت کی حقیقی کامیابی ہے۔ |