اسلام رشتہ داروں کے ساتھ احسان
اور اچھے برتاؤ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ سورہ النحل میں رشتہ داروں کے ساتھ
حسن سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے۔
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي
الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ
يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO
’’بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت
داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے
منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھوo‘‘
النحل، 16 : 90
رشتہ دار مفلس و محتاج ہوں اور کمانے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو حسبِ استطاعت
ان کی مالی مدد کرتے رہنا اسی طرح ان کی خوشی و غمی میں ہمیشہ شریک رہنا،
صلہ رحمی کرنا اور کبھی بھی ان کے ساتھ قطع تعلق نہ کرنا اسلام کی بنیادی
تعلیمات میں سے ہے۔
حدیث مبارکہ میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قطع رحمی
کرنے والا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
بخاری، الصحيح، کتاب : الأدب، باب : اثم القاطع، 5 : 2231، رقم : 5638
اسی طرح قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں رشتہ داروں کے معاشی حقوق پر بھی
زور دیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ
فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ
السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌO
’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی
مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ
دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم
کرتے ہو بیشک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہےo‘‘
البقره، 2 : 215
علاوہ ازیں احادیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
غریب رشتہ داروں کی معاشی بحالی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ کمزور اقرباء کے
حقوق کی ادائیگی کی بھی تلقین فرمائی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ (باغ) اپنے غریب اقارب کو دے دو، پس
انہوں نے وہ حضرت حسان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو دے دیا (جو ان
کے چچا زاد بھائی تھے)۔
بخاری، الصحيح، 3 : 1011، رقم : 2600
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔ |