پارلیمنٹ پر قدغن

آئین کسی بھی ملک کی یکجہتی اور سلامتی کی علامت ہوتا ہے اسی لئے مقدس ہو تا ہے ۔ آئین کوئی الہامی کتاب نہیں ہو تی جسمیں ترمیم یا اضافہ نہ کیا جاسکے۔ پارلیمنٹ آئین سازی اور قانون سازی کا فرض سر انجام دیتی ہے اور گاہے بگاہے قومی ضرورتوںکے پیشِ نظر اس میں ترامیم کرتی رہتی ہے۔ یہ تو ممکن نہیں ہو سکتا کہ ایک خاص دور اور خاص وقت کی پارلیمنٹ کو آئین سازی کا اختیار حاصل ہو لیکن بعد میں آنے والے پارلیمنٹیرین اس اختیار سے محروم کر دئیے جائیں اور ان پر یہ حکم صادر کر دیا جائے کہ وہ آئین میں کسی بھی ترمیم کو لانے کے مجاز نہیں۔ کیا آئین تشکیل دینے والے پارلیمنٹیرین فرشتے ہوتے ہیں یا انکی ذہنی استعداد کا معیار کو ئی خاص ہو تا ہے جسکی وجہ سے انکے بعد آنے والوں کو آئین میں ترامیم کرنے اور اسکا حلیہ درست کرنے کا اختیار نہیں رہتا ۔پار لیمنٹیر ین پارلیمنٹیرین ہی ہوتا ہے اس میں کل اور آج کا سوال نہیں ہوتا لہذا اسکے آئین سازی کے حق پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ یہ کا م پارلیمنٹیرین کا ہے کہ وہ سوچیں کہ ملک چلانے کےلئے کون سا نظام متعارف کروانا ے اور عدلیہ کو کون سے اختیارات دینے ہیں اور ان پر کہاں پر قدغن لگانی ہے تاکہ جمہوری نظام کامیابی سے رواں دواں رہے۔پارلیمنٹ کی خود مختاری پر کوئی ادارہ پابندی نہیں لگا سکتا اور نہ ہی قانون سازی کے حق کو ان سے چھین سکتا ہے کیونکہ عوام اپنے ووٹ سے انھیں یہ حق تفویض کرتے ہیں۔پابندی اور دباﺅ کا لفظ پارلیمنٹ کی لغت میں نہیں ہو تا اور جو ادارہ پارلیمنٹ پر پابندی کی شمشیر سونتتا ہے وہ پارلیمنٹ کی خود مختاری اور آزادی پر حملہ آور ہو تا ہے جسے ناکام بنایا جانا ضرو ری ہو تا ہے۔ہر آئین میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں کیونکہ زمانے کے بدلتے حا لات کا تقاضہ ہو تا ہے کہ ایسا کیا جائے اور پارلیمنٹیرین ایسا کر کے اپنے فرض سے عہدہ برا ہو تے ہیں۔نئے چیلینجزسے نئی قانون سازی سے ہی نپٹا جا سکتا ہے اور یہ کام صرف پارلیمنٹ ہی سر انجام دے سکتی ہے۔دنیا کے سارے آئین وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں کے عمل سے گزرتے ہیں جسمیں امریکہ کی مثال سرِ فہرست ہے جس میں پچھلے دو سو سالوں میں درجنوں تبد یلیاں لائی گئی ہیں۔زندہ قوموں کا شیوہ یہی ہے کہ وہ تبدیلی کے عمل سے گزرتے وقت آئین و دسا تیر میں ان بدلتی رتوں کا لحاظ رکھتے ہیں جنھوں نے ان کی معاشرتی، معاشی اور عائلی زندگی پر گہرے نشانات چھوڑنے ہو تے ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو معاشرہ جمود کا شکار ہو کر مٹ جاتا ہے اسی لئے تو حیات کے رازدان اقبال نے کہا تھا کہ۔ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔

پا کستان میں 1973 کا آئین ایسی دستاویز ہے جس پر ساری جماعتوں کا اتفاق ہے۔ اس آئین کو ذولفقار علی بھٹو کے عظیم کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ متفقہ آئین بنانا بچوں کا کھیل نہیں ہو تا۔ اس کےلئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ مخالفین کو راضی کرنا پڑتا ہے اور ایسی شقوں کو بھی آئین میں شامل کرنا پڑتا ہے جس سے آئین کا خالق خود متفق نہیں ہو تا ۔ اسی کو مفاہمتی سیاست کہتے ہیں کے دوسروں کی رائے کو بھی وزن دیا جائے۔کبھی کبھی ایسی رائے سے بھی اتفاق کرنا پڑتا ہے جو منطق اور دلیل کی کسوٹی پر توپوری نہیں اترتی لیکن چونکہ وہ صفِ عدو سے آتی ہے لہذا اس خاص گروہ کی مفاہمت او ر رضا کی خا طر اس کو وقتی طور پر قبول کر کے آئین کا حصہ بنا دیا جاتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ایسی تجویز زمانے کے حوادث میں بے اثر ثابت ہو تی ہے اور اپنے ہلکے پن کا ثبوت دے کر قوم کو مصائب و آ لام میں ڈال دیتی ہے۔جس وقت فیصلے کرنے کی کسوٹی صرف یہ قرار پائے کہ کون کہہ رہا ہے تو پھر سچائی کا معیار کمزور پڑ جاتا ہے۔ ہو نا تو یہ چائیے کہ یہ نہ دیکھا جائے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ کیا کہا جا رہا ہے اور جب کبھی بھی اس اصول کو رو بعمل لایا جاتا ہے تو پھر جو بھی شاہکار تیار ہو تا ہے اس میں خا میاں اور نقائص بہت کم ہوتے ہیں ۔1973 کے آئین میں اپوزیشن کی بہت سی ترامیم کو شامل کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت کی اپوزیشن ذولفقار علی بھٹو کی قد آور شخصیت سے خا ئف تھی۔ وہ ان کے وعدوں اور الفاظ پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھی ۔ اس میں اپوزیشن کا بھی کوئی قصور نہیں تھا ذولفقار علی بھٹو جیسی قد آور شخصیت کے سامنے اسطرح کے رویے فطری تھے ۔ اپوزیشن انتہائی غیر مقبول تھی اور عوام پر اس کا اثرو رسوخ نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ اس کے پاس کوئی سحر انگیز شخصیت نہیںتھی لہذاا س کی آواز بہت کمزور تھی اور وزیرِ اعظم کی ذات میں سارے اختیارات کا ارتکاز انھیں مزید کمزور کر سکتا تھا ۔ اپوزیشن اس عدمِ توازن کو ایسی ترامیم سے پر کرنا چاہتی تھی جہاں پر وزیرِ اعظم کی ذات کلی اختیارت کا منبہ نہ نظر آئے۔ ان کی ساری ترا میم کا بنیادی مقصد اس خوف سے نجات پانی تھی جو ان کے اذہان کے اندر پرورش پا رہا تھا لہذا وہ پارلیمنٹ کواتنے اختیارات نہیں دینا چاہتے تھے جس سے جمہوری نظام میں آمریت کی بو آنے لگے۔عدلیہ کے بے شمار اختیارات اسی خو ف کا ردِ عمل تھے ۔ اپوزیشن کا خیال تھا کہ عدلیہ کے حدود نا آشنا اختیارات پارلیمنٹ پر چیک کی شکل میں ہو ں گئے۔ ذولفقار علی بھٹو کو اسمبلی میں دہ تہائی اکثریت حاصل تھی اور اپوزیشن پارلیمنٹ میں حکومت پر کو ئی بھی دباﺅ ڈالنے سے قاصر تھی کیونکہ وہ کمزور تھی۔دنیا کے بہت سے دساتیر میں عدلیہ کو پارلیمنٹ کے تابع رکھا گیا ہے اور پارلیمنٹ ججز کا مواخذہ کر کے انھیں فارغ کر سکتی ہے ۔ امریکہ بھارت اور بہت سے دوسرے ممالک میں یہ طریقہ رائج ہے۔ ذولفقار علی بھٹو بھی اسی خیال کے حامی تھے اور عدلیہ کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنانا چاہتے تھے لیکن اپو زیشن کے انجانے خوف اور تحفظات کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے اور پارلیمنٹ کی بجائے سپریم جو ڈیشل کونسل کا ادارہ تخلیق کیا گیا لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ اپوزیشن کی یہ تجویز انکی کوتا ہ نظری پر مبنی تھی کیونکہ انکی اس تجویز کی وجہ سے آج پوری قوم عذاب میں مبتلا ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔عدلیہ کے ججز بپھرے ہو ئے ہیں اور انھیں قابو میں رکھنے کا کوئی بھی آئینی راستہ موجود نہیں ہے ۔ مواخذے کا خوف نہ ہو تو پھر ہر شخص تیس مار خان بن جاتا ہے حالانکہ وہ بہادر ہو تا نہیں ہے۔فی الحال ملک کا سب سے بڑا عہدہ عدلیہ کی ذاتی سوچ اور خیالات کا یرغمالی بن کر رہ گیا ہے۔ جمہو ریت پسند قوتیں سر نگوں کھڑی ہیں اور عدلیہ اپنی شمشیر سے انکی گردنیں اڑاتی چلی جا رہی ہے۔۔

عدلیہ کے ہاتھوں وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی اتنا بڑا واقعہ ہے جس نے آئین کی بے بسی کو واضع کر دیا ہے۔ اپوزیشن تو اس پر بہت خوش ہے کہ عدلیہ نے وزیرِ اعظم کی چھٹی کروا کے انکی مشکلیں آسان کر دی ہیں لیکن اسے یہ نظر نہیں آرہا کہ وزیرِ اعظم کے اسطر ح نا اہل ہو جانے سے سارا جمہوری نظام عدلیہ کے رحم و کرم پر رہ گیا ہے۔ وہ کسی بھی وزیرِ اعظم کو توہینِ عدالت کا نوٹس دے کر فارغ کر سکتی ہے لہذا حکومت نے توہینِ عدالت کے قانون میں تبدیلی کا فیصلہ کیا تا کہ کسی دوسرے وزیرِ اعظم کے ساتھ یہ کہانی نہ دہرائی جا سکے۔اپو زیشن نے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کر دیا اور اغلب امکان یہی تھا کہ عدلیہ اس قانون کو نامنظور کر کے ایک دفعہ پھر قوم کو غیر یقینی کی کیفیت میں دھکیل دےگی ۔ عوامی خد شات درست ثابت ہو ئے اور سپریم کورٹ نے توہینِ عدالت کے قانون کو بنیادی حقوق سے متصادم قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا ۔یہ کیسے ممکن تھا کہ عدلیہ اپنے اختیارات کا اپنے ہی ہاتھوں سے گلہ گھونٹ دیتی ۔ جو ادارہ زیادہ سے زیادہ اختیارات سمیٹنے کی راہ پر گامزن ہو جائے وہ اختیارات میں کمی پر کیسے رضامند ہو سکتا ہے۔عدلیہ تو زیادہ اختیارات کی متلاشی ہے لہذا اس مقدمے کا نتیجہ بالکل واضح تھا اور پھر ججز کی آبزر ویشن سے بھی واضح ہو رہا تھا کہ پٹیشن پر کیا فیصلہ صادر ہوگا۔عوام اس پٹیشن کے فیصلے پر بڑے مضطرب ہیں کیونکہ اس سے تصادمی فضا اور تیز تر ہو جائےگی۔ اس آئینی پٹیشن کے فیصلے نے پارلیمنٹ کی اتھارٹی ، اس کی حدود، اور قانون سازی میں اسکی بے بسی پر مہر ثبت کر دی ہے ۔ اس پٹیشن پر فیصلے کے نتیجے میں پارلیمنٹ کے آئین سازی کے حق پر جسطرح قد غن لگ گئی ہے اس سے پا رلیمنٹ اور جمہوریت مذاق بن کر رہ گئی ہے اور ملکی معاملات مزید تباہی کی جانب بڑھ گئے ہیں۔عدلیہ نے حالیہ فیصلے سے اس راہ کا انتخاب کیا ہے جس سے ملکی یکجہتی کمزور ہو جائےگی ۔عدلیہ اپنی پسند کے فیصلے تو دے سکتی ہے لیکن وہ ملک کی راہنمائی نہیں کر سکتی۔ ملکی راہنمائی پارلیمنٹ کا کام ہے اور جو ادارہ را ہنمائی کے اس حق میں مداخلت کا سزاوار ہو گا وہ ملکی ترقی اور یکجہتی کا دشمن ہو گا۔ہمیں پارلیمنٹیرین کے طرزِ عمل سے شکائت ہو سکتی ہے،ہمیں ان کے اندازِ حکمر انی سے اختلاف ہو سکتا ہے، ہمیں ان کے اصولوں اور طریقہ کار سے اختلاف ہو سکتا ہے، ہمیں ان کی قا نون سازی کی سوچ سے بھی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس کا فیصلہ کسی ادارے نے نہیں بلکہ خود منتخب پارلیمنٹ نے ہی کرنا ہے کہ اس نے کونساقانون وضع کرنا ہے لہذا ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے نمائندوں کا ا نتخاب کریں جو بہتر حکمرانی کے اوصاف سے ممیز ہوں۔پارلیمنٹ کے اختیارات سلب کرنا یا اس پر قدغن لگانا جمہوری نظام سے دشمنی کے مترادف ہے۔جمہو ریت پاکستان کی یکجہتی اور بقا کی ضمانت ہے اورہمیں اس ضمانت کی حفاظت کرنی ہے ۔ پاکستان ہماری پہلی محبت ہے اور جمہورت اس محبت کا اظہار ہے اور ہم نے اس اظہار کو ہر حال میں توانا،پروقار اور طاقتور رکھنا ہے کیونکہ اسی میں پا کستان کی یکجہتی کا راز مضمر ہے ۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515978 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.