تخت لاہور کس کا ہوگا؟؟؟

تخت لاہور کے بارے کافی عرصے سے سنتے چلے آ رہے ہیں کہ تخت لاہور پر بادشاہت صرف میاں برادران کی ہے لیکن ہم ذرا کھلے ذہن کے مالک ہونے کی وجہ سے یہ سب غلط سمجھتے تھے اور شریف برادران کو قوم کا درد رکھنے والا سمجھتے تھے جو ملک کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوتے ہوں جنہوں نے اپنے دور حکومت میں ایٹمی دھماکہ کر کے قوم کے سر فخر سے بلند کر دیئے تھے ،جنہوں نے موٹر وے جیسی عظیم شاہراہ کا تحفہ اپنے ملک کو دیا تھا ،اور کئی قسم کے اہم منصوبوں پر کام کروا کر پاکستان کی خدمت کی تھی ،انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ صرف تخت لاہور کے مالک ہوں انہیں تو قوم کے دل میں رہنا چاہئے تھا لیکن یہ میری خام خیالی ہی رہی،کیونکہ حقیقت میں تخت لاہور کی اہمیت کافی زیادہ ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی حکومت بھی لاہور کو اہم سمجھتی ہے اس حقیقت کا علم تو اس وقت ہوا جب پاکستان تحریک انصاف نے 30اکتوبر کو عظیم الشان جلسہ کیا جو کہ تحریک انصاف کی کامیابی کی طرف پہلا اہم قدم تھا جس نے پورے پاکستان کے سیاستدانوں کو حیران کر دیا کہ جسے تانگہ پارٹی سمجھتے تھے آج وہ اقتدار کے ایوانوں میں دستک دیتی نظر آ رہی تھی اس جلسہ نے تخت لاہور میں ہلچل مچا دی اور مسلم لیگ (ن) میں ایک تھر تھلی سی مچ گئی کہ یہ کیا ہو گیا؟لوگ اس جلسہ کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ تخت لاہور صرف شریف برادران کا نہیں ہے اس وقت مسلم لیگ (ن) ”گو زرداری گو“مہم بڑے زور و شور سے چلا رہی تھی اور اس کا سارا زور حکومت کے خلاف تھا ان کے وہم و گمان اور خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اس قدر چھا جائے گی اور تخت لاہور کی سیاست کو ہلا کر رکھ دے گی ،ایک طرف مسلم لیگ (ن) حکومت کے خلاف مہم چلانے میںمصروف تھی تو دوسری طرف تحریک انصاف کا خوف اسے لگا ہوا تھا ۔

اسی خوف ،ڈر اور تخت لاہور کو بچانے کیلئے پنجاب گورنمنٹ اپنی پوری مشینری کو حرکت میں لے آئی ہے پورے لاہور میں سڑکوں کی اکھاڑ پچھاڑ ہورہی ہے نئی سڑکیں اور اہل لاہور کیلئے نئی ایئر کنڈیشنڈ بسیں بھی آ چکی ہیں مسلم لیگ تخت لاہور پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کیلئے میداں میں کود پڑی ہے خادم اعلیٰ پنجاب بھی تخت لاہور کو بچانے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ پورے پنجاب کے نہیں بلکہ صرف لاہور کے وزیر اعلیٰ ہیں ،انہیں دوسروں شہروں کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور ان شہروں میں بھی ترقیاتی کاموں کی رفتارکو بڑھانا چاہئے ۔

پاکستان تحریک انصاف کے جلسہ لاہور نے تخت لاہور کے شاہوں میں جو بے چینی کی کیفیت پیدا کردی تھی اور اس جلسے کے بعد جو تھر تھلی لاہور کے تخت نشینوں میں مچی تھی اب اس میں تیزی اور شدت آتی جا رہی ہے اور دونوں جماعتوں میں راستے بڑھ رہے ہیں یہ فاصلے پہلے بھی تھے لیکن ملتان کے ضمنی انتخاب نے دونوں جماعتوں کو کافی قریب کر دیا تھا لیکن دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماو ¿ں نے تکبر کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے انہیں وہ الیکشن ہارنا پڑا،لیکن اب اس سیاسی جنگ میں کافی شدت آگئی ہے ،اب بات صرف تخت لاہور کی نہیں ذاتیات پر اتر آئی ہے،پاکستان مسلم لیگ ن روز بروز اپنی اہمیت کھوتی جا رہی ہے اور تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔

دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہو رہی ہے اور اب انتہائی افسوس کہ ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ الزامات قومی یا سیاسی نوعیت کے نہیں بلکہ ذاتی نوعیت کے ہیں
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

میں سلیم صافی صاحب کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ دونوں طرف کی قیادت کو ملک کے سب سے بڑے سیاستدان جناب آصف علی زرداری کے ہاتھ بیعت کر کے ان سے سیاست سیکھ لینی چاہئے ابھی نو دس ماہ کا عرصہ باقی ہے اس کے بعد میدان میں نکلنا چاہئیے۔

پاکستان مسلم لیگ ن سیاسی شاٹ خراب پچ پر غلط انداز میں کھیل رہی ہے جس سے اسے نقصان ہو رہا ہے کیا آنے والے میں عرصے میں لاہور کے تخت نشین اپنے تخت کو بچا پائیں گے؟؟؟
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 201692 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.