٭....... قرآن و سنت کے بتائے ہوئے راستے
پر چلتے رہنے کی آرزو!
٭....... اللہ عزوجل اورپیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں
کوشاں!
٭....... شریعت کے پھولوں سے دلوں کو جِلادینے کی جستجو!!!
٭.......بے رنگ ذہنوں کومثبت سوچ!!بے عمل لوگوں کو باعمل بنانے کی تمنا!!!
٭....... جوش ایمانی ، دینی جذبے اوررشدوہدایات سے مزین موضوعات!!!
٭.......جھوٹ ،غیبت، چغلی،وعدہ خلافی اور دیگر برے کاموں کیلئے قلب میں
نفرت ڈال دینے کی امنگ!!!
٭....... چشم نم اورصدق دل کے ساتھ بارگاہ الٰہی عزوجل میں ایک ہی پکار !!کہ
اس امت کی اصلاح ہوجائے!!
ان انمول جذبوں سے سرشار ہستیاں ،جنھیں پیارے آقا ؐ کی رفاقت نصیب ہوئی ۔فضل
و کرم کے وہ جلوے نصیب ہوئے کہ زندگی بھر ان کے نام کے ساتھ نام ایسا جڑاکہ
رہتی دنیا تک اس منصب ،اس عزت ،اس توقیرکو کوئی خاتون نہ پہنچ سکے گی ۔جانتے
ہیں وہ قابل قدر ہستیاں کون ہیں ۔۔جی وہ قابل قدر ہستیاں امہات المومنین
ہیں ۔آج ہم امہات المومنین میں سے حضرت ام المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیرت کو جاننے کی سعادت حاصل کریں گئے ۔۔۔
( حضرت ام المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا )
سلسلہ نسب
زینب بنت خزیمہ بن حارث بن عبداللہ بن عمرو بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن
صعصعہ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ذکر ازواج رسول اللہ)
روشن سیرت
آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہافقرا و مساکین پر نہایت ہی مہربان تھیں۔ انہیں
کھانا کھلاتیں اور ان پر بڑی شفقت فرماتی تھیں۔ لہٰذا زمانہ جاہلیت میں بھی
'' ام المساکین'' کے لقب سے مشہور تھیں۔آپ کا پہلا نکاح حضرت عبداللہ بن
جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا جو نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے غزوہ احد میں
شہید ہوئے۔ ہجرت کے تیسرے سال حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
شہادت کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاازواجمطہرات میں شامل ہوئیں۔لیکن آپ
رضی اللہ تعالیٰ عنہاسرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت
میں بہت کم حیات رہیں۔ اور رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
کی حیاتِ مبارکہ میں وصال فرمایا۔
وصال:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے سرکار ابدقرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
کی خدمت اقدس میں اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات)
۔۔محترم ناظرین :یہ تو تھیں ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ
تعالیٰ عنھا۔آئیے ایک اور عظیم ہستی ،ایک رسول ؐ سے نکاح کا شرف پانے والی
خوش بخت ام المومنین حضرت ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
سیرت پر نظر دوڑاتے ہیں ۔۔۔۔
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام ہندبنت ابی امیہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن
عمر بن مخزوم ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر
بن ربیعہ ہے۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات ۔)
پہلانکاح
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہ ابن عبد
الاسدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔ جن سے چار بچے پیدا ہوئے آپ رضی اللہ
تعالیٰ عنہانے اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر حبشہ سے مدینہ
طیبہ واپس آئیں۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات )
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ احد میں شریک ہوئے۔ لڑائی کے دوران
جو زخم آئے کچھ عرصہ مندمل ہونے کے بعد دوبارہ تازہ ہوگئے۔ اور آپ رضی اللہ
تعالیٰ عنہنے انہی زخموں کی وجہ سے ٤ ھ میں اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا۔ (مدارج
النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات)
دکھ درد
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے
شوہر کے وصال کے بعد اس دعا کو اپنا ورد بنالیا ہے جسے حضور تاجدار مدینہ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے مسلمان کو مصیبت کے وقت پڑھنے کی تعلیم
فرمائی وہ دعا یہ ہے۔
اَللّٰھُمَّ أجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَیرًا مِّنْھَا
ترجمہ :'' اے اللہ !عزوجل مجھے اجر دے میری مصیبت میں اور میرے لئے اس سے
بہتر قائم مقام بنا
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اپنے شوہر کے وصال کے بعد
اس دعا کو پڑھتی تھی اور اپنے دل میں کہتی کہ ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے بہتر مسلمانوں میں کون ہوگا۔ لیکن چونکہ یہ ارشاد رسول اکرم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا تھا اس لئے اسے پڑھتی رہی۔(مدارج النبوت،قسم
پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات )
سرکارِ مدینہ ؐ بہترین عوض بنے
نیز سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آقا ئے دو جہاں صلی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے سن رکھاتھا کہ تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: جو میت کے سرہانے موجود ہو وہ اچھی دعا مانگے
اس وقت جو بھی دعا مانگی جائے فرشتے آمین کہتے ہیں۔ جب ابو سلمہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے وصال فرمایا تو بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا:
یارسول اللہ :صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے بعد ان کے فراق میں کیا کہوں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
نے فرمایا: یہ کہو ''اے اللہ! عزوجل انہیں اور مجھے بخش دے اورمیری عاقبت
کو اچھی بنا۔ پھر میں اسی دعا پر قائم ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ابو
سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر عوض عطا فرمایا۔ اور وہ محبوب رب
العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تھے۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب
دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج،ص)
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال پر حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تعزیت کے لئے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر
تشریف لائے اور دعا فرمائی۔ اے خدا ان کے غم کو تسکین دے اور ان کی مصیبت
کو بہتر بنا اور بہتر عوض عطا فرما۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر
ازواج مطہرات وی،ج،ص)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے اپنا اپنا
پیام بھیجا لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے پیام کو منظور
نہ فرمایا پھر جب حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا پیام آیا
تو کہا: ''مرحبا برسول اللہ''صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ۔ سیدہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح ماہ شوال میں ہوا۔ ان کا مہر ایسا سامان جو دس
درہم کی مالیت کاتھا مقرر ہوا۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج
مطہرات )
احادیث مروی
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تین سو اٹھترحدیثیں مروی
ہیں ان میں تیرہ حدیثیں بخاری و مسلم میں صرف بخاری میں تین حدیثیں اور
تنہا مسلم میں تیرہ اور باقی دیگر کتابوں میں مروی ہیں۔
وصال
ام المؤمنین حضرتِ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال امہات المؤمنین
میں سے سب سے آخر میں ہوا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ٥٩ھ میں ہوا جو
صحیح تر ہے اوربعض ھ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد
بتاتے ہیں۔ اور اس قول کی تائیداس روایت سے ہوتی ہے جسے ترمذی نے ایک انصار
کی بیوی سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا۔ وہ کہتی ہیں میں ام سلمہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو روتے ہوئے
دیکھ کر عرض کیا اے ام سلمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا کس چیز نے رلایا ہے؟
فرمایا کہ میں نے ابھی ابھی خواب میں تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہ وسلم کو دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا سر انور
اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے محاسن شریف گرد آلود ہیں اورگر
یہ فرمارہے ہیں، میں نے عرض کیا :یارسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلم کس بات پر گریہ فرمارہے ہیں۔ فرمایا: جہاں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کو شہید کیا گیا وہاں موجود تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسین رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی شہادت کے وقت حیات تھیں۔ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا کا وصال چوراسی سال کی عمر میں مدینہ طیبہ میں ہوا۔
نمازِ جنازہ
ان کی نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بقول دیگر سعید بن
زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی۔
مدفن
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ (مدارج النبوت،قسم
پنجم،باب دوم درذکر ازواج
مطہرات )
محترم قارئین:اس دنیا میں ہرانعام کی اپنی اہمیت ،ہر اعزاز کا اپنامقام
لیکن بھلااس نعمت عظمی ،اس شرف اعظم ،اس فضل کو کس طرح تعبیر کریں ۔الفاظوں
اتنی سکت نہیں کہ وہ ارزرائے تشکر شکرکو بیاں کرسکیں ۔وہ شکر ہمارے پیارے
نبی ؐ کاہے کہ اللہ عزوجل نے ہمیں ان کی امّت میں پیدا فرمایاہے ۔اے کاش !اے
کاش اپنے اس اعزاز کا پاس رکھنے والے بن جائیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں
میں شمارفرمائے جنھیں کل ربّ تعالٰی اور اس کے حبیب ؐکے سامنے ندامت و
پشیمانی نہ ہو۔بلکہ فضل ورحمت کی چھاؤں نصیب ہو۔آمین ۔
ایک نئے عزم ،نئے حوصلے ،اور ایک نئی ہستی کی سیرت کے ساتھ پھر حاضر ہوں
گئے تب تک اپنا خیال رکھیے گا۔اور سیرت کے ان موتیوں کو زندگی کی کتاب میں
پرونے کی کوشش ضرو رکیجیے گا۔اللہ حافظ |