پیاری امّی حفصہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
(DR ZAHOOR AHMED DANISH, NAKYAL KOTLE AK)
محترم قارئین:
کتنی خوش بخت ہیں وہ ہستیاں
٭.......جنھوں نے محبوبِ خدا احمدِ مجتبی ؐ کا ایمان کی حالت میںدیدار کا
شرف پایا
وہ شرف وہ اعزاز کہ رات کی تاریکیوں و دن کی روشنی میں عبادت و ریاضت
کرکرکے بندگانِ خدا اپنے ربّ کا قرب پانے کو دامنِ آس پھلائے بیٹھے رہیں
لیکن
٭.......شرف صحابیت کے مقام و مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتے ۔
٭.......نیک طینت ،قابل تقلید ہستیاں
٭.......خوفِ خدا و عشق مصطفی کی نعمت سے مال مالا
صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنھنَّ
٭.......جن کاشرف قابل رشک
٭.......جن کا کردار قابل تقلید
٭.......جن کی سیرت انسانیت کی معراج
٭.......عورت ،بہن ،بیٹی ،ماں ،زوجہ الغرض رہتی دنیا تک لیے
صحابیات کی زندگی روشنی کامنارہ
بنالیجیے !انھیں اپنا آئیڈیل
جنکی عاجزی وانکساری،اتباع و فرمانبرداری ،عفو و درگزر،صبر و شکر مشعل رہ
ہیں انسانیت کے لیے
صحابیات رضی اللّٰہ تعالی عنھنَّ کی سیرت خوبصورت گوشوں سے بہرمند ہونے کے
لیے
آج کے اس کالم میں آج ہم زوجہ ئ رسول حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی
سیرت کو جاننے کی سعادت حاصل کریں گے ۔
حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی نسبت مبارکہ کی وجہ سے ازواج مطہرات
رضی اللہ تعالیٰ عنہن کا بھی بہت ہی بلند مرتبہ ہے،ان کی شان میں قرآن کی
بہت سی آیات بینات نازل ہوئیں جن میں ان کی عظمتوں کا تذکرہ اور ان کی رفعتِ
شان کا بیان ہے،چنانچہ خدا وند قدوس نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
یٰنِسَآء َ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآء ِ
ترجمہ کنزالایمان: اے نبی کی بیبیوں تم اورعورتوں کی طرح نہیں ہو۔
(پ22،الاحزاب:آیت::32)
دوسری آیت میں ارشاد فرمایاکہ
وَ اَزْوَاجُہۤ اُمَّہٰتُہُمْ
ترجمہ کنزالایمان:اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں (پ22،الاحزاب،آیت:6)
ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا
نسب شریف:
ام المؤمنین حفصہ بنت عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ
بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی۔ سیدہ کی والدہ ماجدہ حضرت زینب بنت
مظعون ، حضرت عثمان بن مظعون کی بہن ہیں۔ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر بن خطاب
بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن
لوی۔ سیدہ کی والدہ ماجدہ حضرت زینب بنت مظعون ، حضرت عثمان بن مظعون کی
بہن ہیں۔(الطبقات الکبری لابن سعد،ذکرازواج رسول اللہ،ج٨،ص٦٥)
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے پہلے حضرت خنیس بن حذافہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجیت میں تھیں،جو شرکائے بدر میں سے ہیں سیدہ حفصہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے ہمراہ ہجرت فرمائی۔(الطبقات الکبری لابن
سعد،ذکرازواج رسول اللہ،ج٨،ص٦٥)
نکاح کا روح پرور واقعہ :
بعد وصال حضرت خنیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے اپنی صاحبزادی کے نکاح کے لئے حضرت عثما ن غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے کہا مگر انہوں نے اثبات میں جواب نہ دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی اور
فرمایا کہ اگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواہش ہو تو حفصہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا کا نکاح آپ کے ساتھ کردوں۔اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ تو میں غصہ میں آیا اور یہ غصہ اس سے
زیادہ تھا جتنا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر آیا تھا۔ اس کے بعد
چند راتیں گزری تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے پیام
دیا اور میں نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکانکاح حضور اکرم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے کردیا، پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے فرمایا کہ شاید اس وقت مجھ پر ناراض ہوگئے تھے جب کہ تمہاری پیش کش پر
میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے کہا :میں ناراض ہوگیا تھا۔ آپ نے فرمایا
کہ تمہاری پیش کش کا انکار تو نہیں کیا تھا۔ البتہ میں یہ جانتا تھا کہ
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا کو یاد فرمایا ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلم کے راز کو افشا نہیں کیا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلم انہیں قبول نہ فرماتے تو میں قبول کرلیتا۔ (الطبقات الکبری لابن
سعد،ذکرازواج رسول اللہ،ج٨،ص٦٥،ملخصاً)
خوشخبری
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوطلاق دینے
کاارادہ فرمایاتوحضرت جبریل علیہ السلام نے حاضرہوکرعرض کی:آپ انھیں طلاق
نہ دیں کیونکہ وہ شب بیدار،بکثرت روزے رکھنے والی اورجنت میں آپ کی زوجہ
ہیں۔(المعجم الکبیرللطبرانی،الحدیث٣٠٦،ج٢٣،ص٨٨)
سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ساٹھ حدیثیں مروی ہیں، ان میں سے چار تو
متفق علیہ ،صرف مسلم میں چھ اور پچاس دیگر تمام کتابوں میں مروی ہیں۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج٢،ص٤٧٤)
وصال:
سیدہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال زمانہ امارتِ حضرتِ امیر
معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ٤٥ھ یا٤١ ھ یا٤٧ ھ میں ہوا۔ بعض خلافت
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بتاتے ہیں لیکن پہلا قول صحیح تر
ہے۔
اَتمَمت بِفَضلِہ و بِکَرَمِہ
سبحان اللہ :کتنی سبق آموز سیرت ہے امہات المومنین کی ۔اللہ ان کے دامن بے
عیب کی صدقے ہماری بہن بیٹیوں کو حیاکی دولت نصیب فرمائے ۔ان کی پاکباز
،انسانیت ساز شخیصات ہمارے لیے رہبر مشعل راہ ہیں ،رہبر رہنماہیں ۔
محترم قارئین:اپنے اولادوں کو اسوہ رسول ،اسوہ صحابہ و صحابیات بتائیں تاکہ
ان کی سیرت میں وہ خوبصورتی آئے جس خوبصورتی سے دنیا و آخرت کی بھلائیاں
نصیب ہونگی ۔
ان کے مولیٰ کے ان پر کروڑوں درود ان کے اصحاب وعترت پہ لاکھوں سلام
پارہائے صحف غنچہائے قدس اہل بیت نبوت پہ لاکھوں سلام
اہل اسلام کی مادران شفیق بانوان طہارت پہ لاکھوں سلام |
|