میں نہیں تو تُو بھی نہیں

بھاجپا کے قدآور لیڈر لال کرشن آڈوانی نے اپنے بلاگ میں اس امکان کا اظہار کرکے کہ مرکز میں اگلی سرکار کسی غیر بھاجپائی (اور غیر کانگریسی )لیڈر کی قیادت میں بن سکتی ہے، دراصل اس منصوبے کو سخت صدمہ پہنچایا ہے جو آر ایس ایس نے نریندر مودی کو 2014 کے پارلیمانی چناﺅ میں وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنے کا بنایا ہے۔ ہرچند کہ اٹل بہاری باجپئی کے گوشہ نشین ہوجانے کے بعد پارٹی کے سب سے قدآور لیڈر آڈوانی ہی ہیں اور ان کی ہی سربراہی میں این ڈی اے نے 2009کا پارلیمانی چناﺅ لڑا بھی ،جس میں’مضبوط‘ وزیر اعظم بن جانے کی ان کی حسرت کو ’کمزور وزیراعظم‘ نے پورا نہیں ہونے دیا۔ لیکن اس شکست فاش اور پیرانہ سالی کے باوجوداس حسرت کے برآنے کی آس بہرحال اب بھی انکے دل میں روشن ہے ۔بقول غالب
گو ہاتھ میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

ہر چند کہ کراچی میں مسٹر جناح کے مزار پر حاضری اور ان کو سیکولر کہنے پرسنگھ نے آڈوانی جی کو بھاجپا کی صدارت اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی قیادت سے دستبردار ہوجانے پر مجبور کردیا تھا اور اکتوبر نومبر 2011میں جب کرپشن کے موضوع پر وہ رتھ یاتر اپر نکلے تو ان پر دوبارہ یہ واضح کردیا تھا کہ ان کی یہ مشقت وزیر اعظم کے منصب پر ان کی دعویداری نہیں ہوگی۔لیکن آڈوانی جی ایک گھاگھ سیاست داں ہیںاور چانکیہ کی سیاسی چالوں کوسمجھنے اور برتنے کی ان کی صلاحیت کسی سے کم نہیں،لہٰذا بڑے وقار کے ساتھ انہوں نے اپنی دعویداری کو برقرار رکھا ہے اور اُسی کےلئے یہ شہ اور مات کا کھیل جاری ہے ۔مسٹر آڈوانی کا یہ کہنا کہ اگلی سرکار غیر بھاجپائی وزیراعظم کی قیادت میں بن سکتی ہے، دراصل اسی کھیل کی ایک چال ہے، جو انہوں نے بڑے موقع سے چلی ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ سنگھ اور مودی اس کے جواب میں کیا چال چلتے ہیں؟ سر دست پارٹی میں آڈوانی کے اس تجزیہ پر خجالت اور فکر مندی کا دور دورہ ہے۔پارٹی لیڈروں نے ، جو آگرہ میں ’چنتن بیٹھک‘کے لئے جمع تھے، اس کی جو وضاحتیں کی ہیں، ان سے بھی مودی کی دعویداری کمزور پڑی ہے اور پارٹی میں قیادت کا بحران کھل کر سامنے آیا ہے۔ لیکن ان وضاحتوںکا ذکر زرا بعد میں۔

سیاست کی ستم ظریفی:سیاست کی یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ کل تک جو آڈوانی مودی کے بڑے مداح اور محافظ بنے ہوئے تھے وہی ایک منصب کی مہیب سی امید میںحریف بن گئے ۔ یہ بات قارئین کو یاد ہوگی کہ 2002کی مسلم کشی کے بعد جب گووا میں پارٹی کی عاملہ کے موقع پر وزیراعظم باجپئی کو یہ خیال آیا کہ مودی کواستعفا دیدینا چاہئے یا کم از کم استعفے کی پیش کش کرنی چاہئے، تب مسٹر آڈوانی ہی ان کے مضبوط حمائتی بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔باجپئی جی نے بھی اپنی رائے پراصرار نہیںکیا۔ کیا ہوتا تو بات ان کی ہی چلتی۔ وجہ اس کی شاید یہ تھی کہ خاکی نیکر تو ان کو بھی عزیز تھا۔نہ رہا ہوتا تو بابری مسجد کے انہدام کے پھل کے سب سے بڑے حقدار وہ نہ بنتے اور وزیراعظم کا منصب قبول نہ کرتے۔بہر حال اب تو مودی اور آڈوانی ایک دوسرے کے رقیب ہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ رقابت پارلیمانی چناﺅ میں ان کوگجرات میں گاندھی نگر کی اپنی سیٹ چھوڑنے یا کھو دینے پر مجبور کردے ۔کچھ بعید نہیںکہ آڈوانی کو سیاست کے سرد خانے میں پہنچانے کےلئے مودی گاندھی نگر میں ایسی بساط بچھائیںجس میںوہ لوک سبھا چناﺅجیت ہی نہ سکیں اور اس کا قرینہ یوںبھی موجود ہے کہ ابھی گزشتہ سال گاندھی نگر کے بلدیاتی چناﺅ بھاجپا ہار چکی ہے۔آثار یہ بتاتے ہیں ایسی کسی چال میں ان کو سنگھ کی مدد بغیر مانگے مل جائے گی۔

گڈکری کا رویہ: ادھرسنجے جوشی کے معاملے میں مودی کے ہاتھوںجو ہزیمت گجیندر گڈکری کو اٹھانی پڑی ، اس کو وہ بھولے نہیں ہیں۔ہرچند کہ وہ سنگھ کا ہی مہرہ ہیں، مگراس ہزیمت کے چلتے اب وہ مودی کی امیدواری پر جمے ہوئے نظر آتے۔ اگر اس منصوبے پر مضبوطی سے جمے ہوتے تو وہ نتیش کمار کو یہ یقین دہانی ہرگز نہ کراتے کہ وزیر اعظم کے امیدوار کا نام این ڈی اے میں شامل سبھی پارٹیوں سے مشورہ کے بعد طے ہوگا۔ ظاہر ہے کہ نتیش کو ان کی اس یقین دہانی سے مودی کی دعویداری کمزورہوئی ہے۔ یہی بات آگرہ میں مختار عباس نقوی اور راج ناتھ سنگھ وغیرہ نے کہی ہے۔ آڈوانی کو ہٹاکر جب راج ناتھ سنگھ پارٹی صدر بنائے گئے تو وہ بھی خود کو وزیراعظم کے منصب کا اہل سمجھنے لگے ، یہ الگ بات ہے کہ وہ یوپی کے ناکام وزیر اعلا ثابت ہوئے تھے۔ پارٹی کے دوسرے مرکزی لیڈر بھی اس منصب کے امیدوار ہونگے، خصوصاً سشما سوراج اور ارن جیٹلی۔ مگر مسٹر آڈوانی کے بلاگ اور گڈکری کی اس یقین دہانی سے یقینا سب سے زیادہ مطمئن نتیش کمارہونگے۔ بہار کے رائے دہندگان اس بات سے مطمئن ہوئے ہونگے کہ مسٹر کمارنریندر مودی کی راہ کے سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں اور اس طرح وہ لالو یادو ، پاسوان اور کانگریس کی سیاسی زمین کی بحالی کی کوششوں کو ناکام کرسکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو جتاکر لوک سبھا میں اپنی پوزیشن مضبوط کرسکتے ہیں۔ لیکن آگرہ کی’ چنتن بیٹھک ‘میںبھاجپا کے یہ فیصلہ کہ پارلیمانی چناﺅ میں ہندو وٹ کو رجھانے کےلئے از سر نومسلم دشمنی کی اپنی ازلی پالیسی پر لوٹ آئے گی اور ترقی کے ایجنڈے پر زور نہیں دے گی، بہار میں نتیش کمار کےلئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے جہاں وہ بھاجپا کے ساتھ سرکار چلارہے ہیں۔( یوپی میں بھاجپا نے اپنے فرقہ پرستانہ ایجنڈے پر عمل پہلے ہی شروع کردیا ہے جس کی علامتیں جگہ جگہ بلاوجہ کی فرقہ ورانہ کشیدگیوں کو ہوا دینے سے سامنے آنے لگی ہیں۔ ایسی ہی پالیسی اس نے کوکرا جھار کے مسلم کش فساد کے سلسلہ میں اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔)

وقت کا انتخاب: اہم بات وہ وقت ہے جس کا انتخاب آڈوانی جی نے اپنی سیاسی پیش گوئی کےلئے اور مسٹر گڈ کری نے نتیش کو دئے ہوئے اپنے وچن کو منظر عام پر لانے کےلئے کیا ہے۔ مسٹر کمار صدر جمہوریہ کی تقریب حلف براداری میں شرکت کےلئے 25جولائی کودہلی آئے تھے،تبھی گڈکری سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ صدارتی الیکشن میں جے ڈی یو نے مسٹر مکھرجی کی حمایت کی تھی جس پر بھاجپا فکر مندتھی۔ یہ ملاقات اسی فکرمندی کا نتیجہ تھی جس میں نتیش کمار نے مودی کی دعویداری کا سوال اٹھادیا ۔ وہ اس سے قبل دبے لفظوں میں یہ کہہ چکے تھے کہ وزیراعظم کے منصب کا امیدوار سیکولر شبیہ کا ہونا چاہئے۔ ان کے اس بیان پر آر ایس ایس نے بھی اعتراض جتایا تھا جو مسٹر مودی کی امیدواری کی پیروی کررہی ہے ۔گڈکری جی نے ان ڈی اے کےلئے جے ڈی یو کی حمایت کا سودا کرتے ہوئے مسٹر کمار کوجو یہ وچن دیا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ بات اب ان کی سمجھ میں آگئی ہے کہ آمرانہ طور طریقوں کے عادی نریندر بھائی مودی اگر وزیر اعظم بن گئے تو ان کوبھی ناکوں چنے چبوادیں گے۔ یہ بات سنجے جوشی کے معاملے سے ان کی سمجھ میں آگئی ہوگی۔ اس لئے وہ نتیش کمار سے یہ وعدہ کرگزرے ۔آڈوانی کے بلاگ کے بعد ان کو اس کے اظہار کا اچھا موقع نظرمل گیا تاکہ اس فضا میں کچھ اورجان پڑ جائے جو آڈوانی جی کی پیش قیاسی سے بن گئی ہے۔خیال رہے کہ اس پیش قیاسی کے باوجودکہ ’اگلا وزیر اعظم غیر بھاجپائی ہوسکتا ہے‘، یہ امکان ختم نہیں ہوگیا کہ 2014کے چناﺅ کے بعداگر نوبت این ڈی اے کی سرکار بنانے کی آگئی تو شریک پارٹیوں کا اتفاق رائے آڈوانی کے نام پر ہوجائے اورایسی صورت میں مسٹر نتیش کمار نمبر دو کی پوزیشن پر اکتفا کرلیں ۔

سرخیوں میں رہنا اہم:ابھی یہ سوال رہ گیا کہ آڈوانی جی نے اس پیش قیاسی کےلئے اس خاص وقت کا انتخاب کیوںکیا؟ گزشتہ ہفتہ اردو کے اخبار کو انٹرویو کی بدولت مودی سرخیوں میںچھائے رہے۔ ادھر آگرہ میں یوپی بھاجپا کی دو روزہ چنتن بیٹھک ۶ اور ۷ اگست کو ہورہی تھی جس کی سربراہی مسٹر آڈوانی کے ایک اور سیاسی حریف ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کررہے تھے اور امکان اس بات کا تھا کہ اس بیٹھک کی بدولت وہ بھی سرخیوں میں آجائیں گے۔ معاملہ انا ہزارے کا بھی تھا جو آندولن کی ناکامی کے باوجود میڈیا میںچھائے ہوئے تھے۔ سیاست میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ آدمی سرخیوں میں رہے۔ مسٹر آڈوانی نے اپنے گھر بیٹھے ایک بلاگ کیا لکھا کہ مودی، جوشی اور انّا ہزارے، سب سرخیوں سے غائب ہوگئے اور آڈوانی جی چھا گئے۔ بعض مبصرین کی رائے ہے کہ انکا یہ تجزیہ سیاسی لیڈر سے زیادہ سیاسی تجزیہ نگار کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے۔ شاید بھاجیا حامی تجزیہ نگار یہ بات اس لئے کہہ رہے ہیں اس سے پارٹی کی خجالت ہوئی ہے اور کانگریس نے اس پر یہ کہہ کر کراراوار کیا ہے کہ بھاجپا نے چناﺅ سے پہلے ہی شکست تسلیم کرلی ہے۔ مگر ہمارا خیال یہ ہے آڈوانی جی کی عمدہ تجزیہ نگاری کے باوجود یہ ان کا ایک سوچا سمجھاسیاسی قدم ہے جو سیاست کے ایک کہنہ مشق پنڈت نے اٹھایا ہے، جس کے ذریعہ اس نے مودی اور سنگھ کو یہ پیغام دیدیا ہے کہ اگر ” میں نہیں تو ، توُ بھی نہیں“ ۔ اس پر ان کےلئے جے ڈی یو کی ہمدردی میں اضافہ الگ رہا ۔ ان کے اس بیان سے این ڈی اے میں کچھ دیر کےلئے بکھراﺅ کا عمل ر ک جائے گا۔ بہرحال اس سیاسی تیرکا سب سے زیادہ فائدہ نتیش کمار کو پہنچ سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیاکانگریس جے ڈی یو کو صدارتی الکشن سے آگے مزید شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہوتی ہے یانہیں؟ بہر حال باچھیں ملائم سنگھ یادو کی بھی کھل گئی ہیں۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.