صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو
یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے مفاہمتی سیاست کا علم بلند کر کے سب کو حیران
کر رکھا ہے ۔ بیسویں آئینی ترمیم سے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اور نگران
حکومتوں کی تشکیل میں جسطرح ا پو زیشن کو برابر کا رول عطا کیا گیا ہے کل
تک اس کا تصور کرنا بھی محال تھا۔ اپوزیشن میں رہ کر پندو نصاح کرنا ،مطالبات
کرنا ،اصولوں کی رٹ لگانا ،نصیحتیں کرنا، دانشوری بکھیرنا۔فلسفے بگارنا اور
اندازِ حکمرانی سکھانا بڑا آسان ہوتا ہے لیکن اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر
اپنے اختیارات سے دست بردار ہونا بہت بڑے دل گردے کا کام ہو تا ہے۔ آصف علی
زرداری نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے بحثیتِ صدر ا پنے تمام ا ختیارات
پارلیمنٹ کو واپس لو ٹا کر جمہوریت کو جو قوت عطا کی ہے وہ پاکستان کی
تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ایک ایسی دنیا جہاں پر اختیارات کی بھوک پائی
جاتی ہو وہاں پر اپنے اختیارات سے دست کش ہونا بڑے دل گردے کا کام ہوتا ہے
جس کا بھر پور مظا ہرہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے کر کے مخالفین کو
چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ پبلک ا کاﺅنٹس کمیٹی کی چیر مینی اپو زیشن کے
حوالے کر کے جس جمہوریت پسندی کا ثبوت دیا ہے وہ بھی بالکل منفرد ہے۔
صوبائی خود مختاری کا زہریلا ناگ جسطرح وفاقِ پاکستان کو ڈسنے کےلئے پھن
پھیلائے کھڑا تھا اسے بھی قابو میں کر کے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کو
یقینی بنا یا گیا تاکہ صوبائی حکومتیں عوام کی بہتر انداز میں خدمات سر
انجام دے سکیں ۔ بہت سے محکمے جو وفاقی حکومت کے زیرِ نگرانی تھے انھیں
صوبوں کو منتقل کرنے کا کام اس جماعت نے کیا جو مرکز میںخود اقتدار کے
سنگھا سن پر بیٹھی ہو ئی ہے۔ وفاقی حکومت کے اس ایک اقدام نے بہت سے
علیحدگی پسندی کے رحجانات کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔بلوچستان کا معاملہ بالکل
مختلف ہے اور عالمی سازشوں کا شاخسانہ ہے لہذا اسے صوبائی خود مختاری کے
مسئلے سے جوڑ کر سمجھنا درست نہیں ہے۔ بلوچستان کے مسئلے سے نپٹنے کےلئے
بہت سے آپشن کھلے ہوئے ہیں اور حکومت ان پر سنجیدگی سے عمل پیرا بھی ہے
لیکن اس کے حل میں کافی وقت لگ سکتا ہے کیونکہ یہ مسئلہ عالمی سازشوں کے
ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے ۔ہر قومی ایشو پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت
کرنا اور انھیں اعتماد میں لے کر رمورِ سلطنت طے کرنا صدرِ پاکستان آصف علی
زرداری جیسے دلیر انسان کا کام ہی ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن کا بھی فرض بنتا ہے
کہ وہ حکومت کے ساتھ اسی خیر سگالی کا مظا ہرہ کرے تا کہ ایک ایسا جمہوری
کلچر پروان چڑھے جس میں دوسرے اداروں کی مداخلت کے امکانات معدوم ہو
جائیں۔ہم نے تو ماضی میں اپوزیشن کو ملک بدر ہوتے ہوئے یا جیل کی سلاخوں کے
پیچھے ہی دیکھا ہے۔ آصف علی زرداری اسکی سب سے واضح مثال ہیں جنھوں نے
زندگی کے قیمتی گیارہ سال زندانوں کی نظر کئے تھے ۔ جس ملک میں سیف الرحمان
جیسے لوگوں نے مخا لفین کا ناطقہ بند کر رکھا ہو اور انھیں عدالتوں میں
گھسیٹ گھسیٹ کر ان کو چھٹی کا دودھ یاد دلا رکھا ہو اس ملک میں اپوزیشن سے
کوئی تعرض نہ کیا جائے اور اسے کھلا چھوڑ دیا جائے بالکل ناقابلِ یقین لگتا
ہے لیکن سچ یہی ہے کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اسی ملک میں حکمران جماعت کے وزیرِ
اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم پر اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا اور
دوسرا وزیرِ اعظم بھی اسی راہ کا مسافر بننے والا ہے جب کہ اپوزیشن سے کوئی
تعرض نہیں کیا جا رہا،وہ شترِبے مہار بنی ہو ئی ہے اور عدلیہ کے ساتھ مل کر
حکومت کے لتے لے رہی ہے اور حکومت بے بس نظر آ رہی ہے۔۔
میاں محمد نواز شریف اگر اب بھی اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھیں
گئے تو پھر وہ کبھی بھی سبق نہیں سیکھ سکتے۔کچھ بھی ہو جائے انھیں جمہوری
قدروں اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کا ساتھ دینا چائیے کیو نکہ صرف پارلیمنٹ
ہی واحد ادارہ ہے جسے عوام منتحب کرتے ہیں اور جو عوام کی امنگوں کی ترجمان
ہوتی ہے۔ ہر ایسا ادارہ جو پارلیمنٹ کی بالا دستی کو چیلنج کرتا ہے یا اس
کی تکریم کو پاﺅں تلے روھندنے کی جسارت کرتا ہے اس کے ساتھ مزاحمت ضروری ہے
کیونکہ پارلیمنٹ ملکی سلامتی اور یکجہتی کی علامت ہو تی ہے اور یہی پا
کستان کو متحد اور یکجا رکھ سکتی ہے۔ 1970 میں پارلیمنٹ کے وجود کو تسلیم
نہ کرنے سے مشرقی پاکستان علیحدہ ملک بنا تھا لہذا پارلیمنٹ کے تقدس کی
اہمیت کا احساس ہر شخص اور ادارے کو کرنا چائیے۔ ذاتی اختلافات اپنی جگہ پر
اور ذاتی اختلافات کو اپنی جگہ پر رہنا بھی چائیے کیونکہ یہی جمہوریت کا
حسن ہو تا ہے لیکن ایک بات کا عہد ہو نا چائیے کہ جو ادارہ بھی پارلیمنٹ
اور ا س کے منتخب وزیرِ اعظم کے خلاف مہم جوئی کا مرتکب ہو گا اسے اس مہم
جوئی سے روکا جائےگا۔ایسے ہر ادارے کے خلاف قانون سازی ہو نی چائیے تاکہ
پارلیمنٹ کی بالا دستی قائم رہے۔ سوال پی پی پی یا مسلم لیگ کی حکومتوں کا
نہیں ہے سوال پارلیمنٹ کی خود مختاری کا ہے اور جس ملک کی پارلیمان خود
مختار نہیں ہوتی وہ قومیں کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتیں۔میرا پختہ یقین ہے
کہ ملک کی تقدیر کو بدلنے کے فیصلے صرف پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے،کوئی ادارہ
اپنی پیشانی پر جتنا جی چاہے آزادی اور و خو د مختاری کا تاج سجا لے وہ ملک
کا مقدر نہیں بدل سکتا کیونکہ ملک کی تقدیر بدلنے کا اسے اختیار نہیں ہو تا
۔ ملک کا مقدر صرف منتخب قیادت کے ہاتھوں ہی سنورتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو
کے دور کے جرات مندانہ اقدامات ، محترمہ بے نظیر بھٹو کے عہد کے زریں
کارنامے، میاں محمد نواز شریف کے عہد کے یاد گار فیصلے اور سید یوسف رضا
گیلانی کی حکومت کے متفقہ فیصلے ہمیشہ پارلیمنٹ کی طاقت سے ہو ئے ہیں اور
اس روش کا جاری و ساری رہنا ضروری ہے کیونکہ اسی سے پاکستان کو استحکام
نصیب ہو سکتا ہے۔۔
جمہوریت میں اکثریتی فیصلے قابلِ احترام بھی ہو تے ہیں اورنافذ العمل بھی
ہو تے ہیں۔اسمبلی کے اندر اپنی رائے پر تشدد امیز رویہ اختیار کرنا یا اپنی
رائے کو حرفِ آخر تصور کرنا جمہوری روح کے منافی ہے۔سید یوسف رضا گیلانی نا
اہلی کیس میں مسلم لیگ (ن) نے جسطرح کےغیر اخلاقی رویوں کا اظہارکیا تھا وہ
غیر جمہوری رویے تھے۔ کسی کو موقف رکھنے پر کو ئی اعتراض نہیں ہے لیکن اپو
زیشن نے پارلیمنٹ کے اندر جس طرح اپنے مو قف کا اظہار کیا تھا وہ انتہائی
غیر شائستہ اور پر تشدد تھا۔قوم کے نما ئندے آپس میں دست و گریبان ہوں تو
اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔جنھوں نے قوم کی تعلیم و تربیت اور
کردار سازی کےلئے مثال بننا ہے ان کے اپنے ہاتھ دوسروں کے گر یبا نوں تک
پہنچ رہے ہوں تو پھر قوم کے نوجوانوں کے کردار و افعال کی تربیت کی ذمہ
داری کس پر ڈالی جائے گی؟مفاہمت ، برداشت، بردباری اور تحمل وہ خصائص ہیں
جن کی قوم کو اشد ضرورت ہے اور یہ سارے خصائص کا منبہ ہمارے منتخب نمائندے
ہونے چائیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے منتخب نمائندے خود کو اس مقام تک
لے جانے کا عملی پیکر بن جائیں تو پھر پوری قوم انہی کے نقشِ قدم کی پیروی
کرتی ہو ئی ان تمام خصائص کی جیتی جاگتی تصویر بن جائےگی لیکن افسوس تو اسی
بات کا ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے اس معیار کو قائم کرنے میں سر خرو نہیں
ہو سکے۔ وہ ذاتی رنجشوں، نفرتوں ،عداوتوں اور مباحث میں اتنے تلخ ہو جاتے
ہیں کہ برداشت کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔زیادہ بڑھکیں مارنے والا
اور زیادہ دشنام طرازی کرنے والا خود کو زیادہ کامیاب او ر محبِ وطن تصور
کرنے لگ جائے تو پھر ایسی سوچ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ایسے منفی رویے
کسی بھی لحاظ سے قابلِ ستائش نہیں ہو سکتے لہذا ان پر روک ضروری ہے ۔جیت
اسی کی ہوتی ہے جو برداشت اور تحمل سے دوسروں کی تنقید کو سن کر دلائل و
براہین سے اس کا جواب دیتا ہے۔ پوری قوم میں اگر یہی انداز اجاگر ہو جائے
تو بہت سے معاشرتی اور معاشی مسائل خود بخود حل ہو جائیں اور قوم کا قبلہ
درست ہو جائے گا۔۔۔
وقت آ گیا ہے جس میں ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم نے عوامی امنگوں
کے ترجمان وزیرِ اعظم کی اسی طرح درگت بنانی ہے یا اس نظام کی بنیادی
خرابیوں کو جس کی وجہ سے اس طرح کے حادثات رونما ہو سکتے ہوں ان کا سدِ باب
کرنا ہے ۔میاں محمد نواز شریف دو بار اس ملک کے وزیرِ اعظم رہ چکے ہیں اور
ملک کے مقبول سیاسی راہنماﺅں میں ان کا شمار ہو تا ہے ہیں لہذا ان کا اندازِ
سیاست عمران خان ، جماعت اسلامی، جمعیت العلمائے اسلام اور دفاعِ پاکستان
کو نسل جیسا نہیں ہونا چائیے۔ان کی جماعت کے پاس پنجاب کی حکمرانی کے ساتھ
ساتھ قومی اسمبلی میں بھی 95 سیٹیں ہیں اور اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی انہی
کے پاس ہے لہذا اس جمہوری نظام کو جس نے انھیں اقتدار کے گھوڑے پر بٹھانا
ہے اس کے تحفظ کےلئے آگے بڑھنا ہو گا ۔جذباتی، سطحی اور بچگانہ سیاست کو
خیر باد کہہ کر ایک مدبر سیاست دان ہو نے کا ثبوت دینا ہو گا کیونکہ جمہوری
نظام کو بچانے کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر سب سے زیادہ ہے کیونکہ ان کی
حکمرانی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ہے جس کی مرضی اور منشاءکے بغیر بڑے
فیصلے نہیں ہو سکتے ۔ انھیں یاد ہو نا چائیے کہ انھوں نے جمہوریت کی بحالی
کےلئے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاقِ جمہو ریت پر دستخط کئے تھے اور
پاکستان میں جمہوریہت کو بچانے کےلئے ایک عہد کیا تھا اور عہد بڑے مقدس ہو
تے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو تو جمہوریت کی جنگ لڑ ٹے لڑتے شہید ہو گئی ہیں
لہذا اب میاں محمد نواز شریف کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جمہوریت کی شمع کی
حفاظت کر یں تا کہ کو ئی بھی سیاست دانوں کو بد عہدی کا طعنہ نہ دے سکے ۔
شہیدوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی پاسداری کرنا اخلاقی ، مذہبی اور آئینی
ذمہ داری بن جاتی ہے اور جو کوئی بھی شہیدوں کے ساتھ کئے گئے عہد سے بے
وفائی کا مرتکب ہو تا ہے وہ ناکام و نا مراد رہتا ہے۔۔ |