پنجرے کا تیتر اورمقبوضہ کراچی

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جب ایک تیتر کو کچھ عرصہ تک ، قفس کے تن آسانی کا خوگر بنا دیا جائے تو یہ زندگی اس کے لئے ایسی محبوب بن جاتی ہے کہ اس کا مالک اسے ہر صبح پنجرہ سے نکال کر باہر چھوڑ دیتا ہے اور خالی پنجرہ ہاتھ میں لئے آگے آگے چلتا ہے تو یہ تیتر ادھر ادھر بھاگنے ، دوڑنے اور اڑ جانے کے بجائے پنجرہ کے پیچھے لپکتا ہے حالاں کہ عین اس وقت جنگل سے آزاد تیتر کے نغمات حریت و آزادی، اسے پکار پکار کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ تیری زندگی کھلی فضاﺅںمیں اڑنے کی ہے، قفس کی زندگی لعنت ہے لیکن اس کی فطرت کچھ ایسی مسخ ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ ان کی آوازوں پر کان نہیں دھرتا اور آزاد فضا کو چھوڑ کر قفس کی زندگی کو عین راحت سمجھتا ہے اور آزادی کی فضائے بسیط میں اڑنے والوں کی آواز کے جواب میں ، ایک خفیف سے مسکراہٹ سے کہہ دیتا ہے کہ وہ تمہیں مبارک یہاں تو ،
نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
غالب

یہی حالت مٹھی بھر شر پسندوں کی ہے کہ جب بھی اجتماعیت اور یکجہتی کےلئے پیغام محبت دیا جاتا ہے تو ایسے مثبت لینے کے بجائے منفی پروپیگنڈے کی نظر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقوق کے نام پر نام نہاد لیڈروں نے قومیتوں کو" پنجرے کا تیتر" بنا دیا ہے جیسے قفس کی تن آسانی سے آزادی کے بجائے لسانیت کے پنجرے کے نام پر صدیوں کی غلامی منظور ہے اور بار بار دوڑ کرجانا اس کی خوگر کی فطرت بن گئی ہے۔حقوق حاصل وہی کرتے ہیں جو قربانیاں دیتے ہیں ، لیکن غلامی میںکوئے طور کے من و سلوی پانے والے یقینی طور پر یہی چاہتے ہیں کہ سونے کا ایک بچھڑا بنا کر خود ساختہ تراشی آواز کو خدائی کا درجہ قرار دیں اور حق کی حقانیت بیان کرنے والوں کو اپنے رنگ میں رنگنے کےلئے فضاﺅںمیں متفرق رنگ بکھیر دیں کہ اصل رنگ کی پہچان ہی گم ہوجائے۔کراچی میں جس طرح لسانیت کے لبادے میں قومیتوں کے درمیان خون آلود سیاست گذشتہ اڑتالیس سالوں سے جاری ہے اس وجہ سے ایک عام انسان کی زندگی میں بے خوفی ناپید ہوگئی اور ایسے خود اپنے گھر کی در و دیواروں سے ڈر محسوس ہونے لگا۔ خشک پتے کی کڑکڑاہٹ سے بدکتے وجودوں میں وحشت کی سراسمیگی کا احساس ختم کرنے کےلئے نفسیاتی پہل کی اشد ضرورت تھی۔کوئی نہیں چاہتا کہ اس کی زندگی کاسفر سیمنٹ کی یخ بستہ مردہ خانے کی تختے پر اس طرح ہو کہ ایک شخص کی جان کی قیمت انسانیت کے ہاتھوں میں بھی نہ رہے لیکن اجتماعیت اور قومی تصور کے بجائے لسانی خودساختہ حدود میں رہنے والے اپنے ہاتھ سے بنے جالوں سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ۔ کراچی میں پیار و محبت کی خوشبو کی توقع شرپسند نہیں کررہے ۔بہر طور یہ فوری ممکن نہیں کہ فسادی عناصراپنی شر انگیزی سے باہر آجائیں با شعور عوام کے دلوں سے خوف کی کمی اور اعتماد کی فضا میں اضافے کو واضح طور پرکم کیا جاسکے اور باہمی بھائی چارے کے اس با عتماد اقدام نے شر پسندوں کو اپنی بغلیں جھانکنے پر مجبور کردیا جائے ۔ باہمی رنجشوں اور خلشوں کو افہام و تفہیم سے دور کرنا باشعور قوموں کا فرض بن جاتا ہے۔ اور لسانی پنجرے کی خود ساختہ قید سے تیتروں کو قفس کی آزادی حریت کی فضا میں جینے کا سلیقہ سکھانے کی ضرروت ہے۔اگر اس بار بھی عملی اقدامات سے عداوتیں ختم نہ ہوئیں تو قومیتوں کے درمیاں نفرتوں کی فصل اگانے والوں کو اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہونے سے کوئی نہیں رک سکتا۔ کراچی میں بھتہ خوری ، پرچی مافیا کے ہاتھوں مکمل تاجر برادری ہی نہیں بلکہ پتھارے دار بھی مقبوضہ ہوچکے ہیں ۔ سرکاری ملازمتوں، پرائیوٹ ادارے ، ہسپتال، روزگار،غرض یہ ہے کہ زندگی کی تمام طبقات و شعبے جات کسی نہ کسی مافیا کے ہاتھوں مقبوضہ بن چکے ہیں۔ لیکن کراچی میں رہنے والی قومتیں اپنے ڈر اور خوف کے ہاتھوں اس قدر مقبوضہ بن چکے ہیں کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا بھی انھیں کوفزدہ کرجاتا ہے۔پختون سمیت تما قومتوں کی حالت زارقابل رحم ہوچکی ہے۔ روزگار کےلئے آنے والے جہاں اپنی جانوں کا خوف اپنے دلوں میں رکھتے تھے اب اپنی محنت کے لٹنے کا ڈر بھی اپنے دلوں میں بیٹھا چکے ہیں ۔ پیغام محبت کے نعرے سے قومتیوں کے درمیان لسانی نفرتوں میں کمی تو واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے لیکن علاقوں کی تقسیم میں قومیتوں کی لیڈری کے دعویداروں نے ایک ایسا احساس کو فروغ دیا ہے جس سے سندھ سمیت کراچی ان دیکھی قوتوں کے ہاتھوں مقبوضہ نظر آتا ہے۔جہاں حکمران جماعتوں کا نہیں بلکہ ایسی قوتوں کا راج ہے جیسے سب دیکھتے بھی ہیں اور آنکھیں بند کرکے مجرمانہ خاموشی بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ارباب اختیار کی سرد مہری اور عوام کے تحفظ سے روگردانی نے کراچی میں ایسے عفریت کو تنا ور درخت بنا دیا ہے جس کے سائے تلے خوفناک عناصر مضبوط ہورہے ہیںجن کی انگڑائی بھی ہولناکیوں کا پیش خیمہ بن جاتی ہے ۔ عوام کو خود اپنی مدد آپ کرنی ہوگی۔ تیتر کے پنجرے سے شاہین کی پرواز کےلئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا ۔ ورنہ قوم موسی تو خدا کی محبوب امت کی دعویدار تھی ان کا حشر اب تاریخ کا حصہ ہے۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296488 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.