رمضان گذر گیا ، عید گذر گئی ،
ہم رہے یا نہ رہیں پھر رمضان آئے گا ، عید بھی آئے گی ، اور چاند کے مسئلے
پر پاکستان دنیا بھر میں پھر طنز و تضیحک کا نشانہ بھی بنے گا ،فرقہ وارانہ
مسائل جب سینکڑوں سال سے ختم نہیں ہوئے تو ان فقہی مسائل کو حضرت عیسی علیہ
السلا م ہی فتنہ دجال کے بعد درست کرسکیں گے۔احادیث کے مطابق امت میں فرقے
موجود رہیں گے ، اختلاف موجود رہے گا لہذا اتحادبین المسلمین کا تصور ظاہری
ٹیبلوں پر ایک ساتھ کھانا کھاتے ہو ئے تو نظر آئے گا لیکن نماز پڑھتے وقت
محمود و ایاز الگ الگ صفوں میں نظر آئیں گے۔گلے بھی لگیں گے ، شکوے بھی
ہونگے ، فتوے بھی ہونگے ، ہاتھوں میں ہاتھ بھی ڈالا جائے گا اور چھڑایا بھی
جائے گا۔
دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں اذان کی آواز نہ گونجتی ہو ، جغرافیائی
عوامل کی وجہ سے ہر منٹ بعد دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں اذان بھی ہوتی ہے ،
نمازیں بھی ادا کیں جاتی ہیں۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی فقہ یا مفتی نے کو
شش کی ہو کہ دنیا میں ایک وقت میں صلوة کی ادائیگی ممکن ہوجائے ، کیونکہ
ایسا ہونا ممکن نہیں ہے،دنیا کا ایسا کوئی خطہ نہیں ہے جہاں روزے ایک مقررہ
وقت پر رکھے جاتے ہوں ، ایسی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ ایسا ممکن
نہیں ہے ، کسی ملک میں روزہ اٹھارہ گھنٹوں کا ہوتا ہے تو کسی ملک میں پندرہ
تو کسی ملک میں تیرہ تو کسی ملک میں دس گھنٹے کا روزہ رکھا جاتا ہے ، یہ
ممکن ہی نہیں کہ روزے کے اوقات کار متعین کردئے جائیں ، یورپی ، یا وسطی
ایشا ممالک میں تو سورج کے آفتاب و غروب کے احوال سے تو اب اس جدید دور کا
ایک ایک بچہ باخبر ہے۔پھر ایسا بھی کبھی نہیں ہوا کہ سعودی عرب میں جب حج
کا موقع آیا تو دنیا کے کسی خطے سے آواز آئی ہو کہ ہم نے تو ابھی چا ند
نہیں دیکھا ، جاند کی سائنسی پیدائش کے اوقات کے مطابق انسانی آنکھ نہیں دے
سکتی ، بلکہ سعودی حکومت اعلان کے مطابق ہی دنیا بھر کے صاحب حیثیت مسلمان
اربوں روپوں کے اخراجات کرکے حج کے تمام امور بغیرکسی چوں چرا کے ادا کرتے
ہیں ۔ سنت ابراہیمی علیہ السلام ذوق و شوق کے ساتھ سر انجام دیتے ہیں۔کبھی
کسی نے نہیں کہا کہ ہمارا مسلک فلاں ہے یا ہمارے ملک میں چاند نہیں دیکھا
گیا اس لئے خادم حرمین شریفین حج کے لئے جداگانہ انتظامات کریں۔محرم الحرام
میں عشرہ حسین کے اعزا داری کےلئے بھی کبھی اختلاف نہیں آیا ، غم کربلا بھی
متفقہ منایا جا تا ہے ۔ لیکن جب روزے اور شوال کی رویت کا مسئلہ آتا ہے تو
تنازعات کا طوفان عظیم بلند ہوجاتا ہے ۔
پاکستان ایک جمہوری مملکت ہے جس کا آئین انسانی ہاتھوں کے دستخطوں کے بعد
رائج العمل کیا گیا ہے۔کسی مخصوص فرقے یا فقے کے مطابق اسلامی طرز نظام
نافذ نہیں ہوسکتا ۔جب ایک مسلک کی مسجد پر حق ملکیت کے لئے انسانی خون کی
ندیاں بہہ جاتیں ہوں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ پاکستان میں کسی ایک فرقے کو
اکثریت کی بنیاد پر حق ملکیت دے دیا جائے ۔ اب یہ ہندوستان کی حکومت تو ہے
نہیں کہ مغل آکر زبردستی کسی کی سر زمیں پر قبضہ کرکے اکثریت پر اقلیت بزور
طاقت امور حکومت سر انجام دیں۔تاریخ کا کیا ہے ، جس کے ہاتھ میں قلم ویسی
ہی تاریخ لکھی جانا کون سی انہونی بات ہے ۔ 11اگست محمد علی جناح کی تقریر
گم ہو سکتی ہے ، نصاب میں تبدیلی ہوسکتی ہے ، ہاری جانے الی جنگنوں کوجیت
میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ، ملک کے دو ٹکڑے ہونے پر بھی جشن آزادی منایا جا
تا ہے تو اکثریت پر اقلیت کی حکومت کی خوبیاں کیونکر تاریخ کا حصہ نہیں بن
سکتی۔
پاکستان کی اساسی بنیاد ، خود مختاری اور قرار داد لاہور پر رکھی گئی ہے۔
حالاں کہ محمد علی جناح نے کوئٹہ میں اپنی تقریر کے دوران صوبائیت کو
پاکستان کے لئے زہر قاتل قرار دیا تھا۔ لیکن ہم اب 2012ءمیں قرار داد لاہور
1940ئ کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کی عملی کوشش کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ
ملکی تاریخ میں پہلی بار جمہوری مقررہ وقت پورا کرنے جا رہی ہے۔ صوبائی خود
مختاری کے تحت وفاق کے بیشتر اختیارات صوبوں کو تقویض کئے جا رہے ہیں تو
پھر عید کی رویت کے لئے مرکزی کمیٹی کا تصور حالیہ عید کے موقع پر زونل
کمیٹی کے مقابل شرمناک تنازعے کا باعث بننے کے بعد کم از کم یہ تو ثابت
ہوگیا کہ مسئلہ مسجد قاسم خان کا نہیں بلکہ حکومت کی جناب سے منتخب سرکاری
کمیٹیوں کا بھی ہے ۔تمام صوبے اپنے اپنے تاریخی موقعوں پر چھٹی کا اعلان
بھی کرتے ہیں ، وفاق کیجانب سے بھی تعطیلات کا اعلان ایک سال قبل کردیا
جاتا ہے تو پھر اس اہم مسئلے پر ہر صوبائی حکو مت کی زونل کمیٹیوںکی ازسر
نو تنظیم نو کرکے رویت کے اعلان کا حق مقامی حکومت کو تقو یض کرنے میں کون
سی شرعی مصلحت حائل ہے۔؟ کیا پاکستان کی مملکت اسلامی ہے ؟ ۔
مرکزی رویت کمیٹی کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ویسے بھی مملکت میں اسلامی
شرعی نظام نافذ نہیں ہے ۔ موجودہ رویت ہلال کمیٹیاں فرقہ واریت کے فروغ کی
ترویج کا باعث بن رہی ہے۔ وفاقی حکومت صرف سرکاری تعطیل کے اعلان تک خود کو
محدود رکھے۔ پاکستان کی جغرافیائی حدود کے خدو خال کے باعث ممکن نہیں کہ
کبھی بھی متفقہ طور پر مشترکہ رویت کا اعلان ممکن ہو، خیبر پختونخوا میں ا
بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں پاکستان کا آئین نہیں چلتا بلکہ قبائلی
روایات کے مطابق نظم و نسق چلایا جاتا ہے اگر شرعی تقاضے پورا کرنا ہوں تو
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو ہیلی کاپٹر فراہم کردیا جائے تاکہ وہ خود موقع پر
چاند دیکھنے کےلئے زنل کمیٹیوں کو ہمراہ کرلیں۔جہاں پاکستانی فوج نہیں جا
سکتی اس علاقہ غیر میں کون جائے گا اور بھلا وہاں کے مسلمان اپنی عاقبت و
آخرت کسی فقہی اختلاف کی بنیاد پر کیوں تباہ کریں گے۔ایساسوچنے والا غفلت
کی دنیا کا سب سے احمق انسان ہوگا۔تمام صوبے اپنی زونل کمیٹیوں کی ازسر نو
تنظیم کرکے رویت کا اعلان کریں۔صوبائی زونل کمیٹی میں جن علما ءکو شامل کیا
جائے ان کا تعلق ان اداروں سے ہو جو مستند تسلیم کئے جاتے ہوں اور
مسلمانوںکے فقہی مسائل چوبیس گھنٹے فتوے جاری کرتے ہوں ۔ موجودہ مرکزی اور
زونل رویت ہلال کمیٹیاں ، مسجد ضرار بن چکی ہے جو اختلافات اور تفرقے کا
باعث بن رہی ہیں انھیں ختم کردینا عین حکم خداواندی اور سنت نبی ﷺ کے مطابق
ہے۔تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل ہے کہ مشترکہ طور بل منظور کریں تاکہ
پاکستان تمام دنیا میں ہر سال تماشہ نہ بنے۔جب ہم روزہ ایک ساتھ نہ کھول
سکتے اور نہ رکھ سکتے ہوں ، نمازیں ایک مقررہ وقت پر نہیں پڑھ سکتے ، زکوة
کےلئے جداگانہ نظام رائج ہے ، سودی نظام کا ادارہ بینکاری نظام زکوة اکھٹی
کرسکتا ہے تو قباحت کیا ہے۔ مسجد ضرار بننے والی مرکزی اور زونل رویت ہلال
کمیٹیوں کو مقدس گائے کیوں بنایا جا رہا ہے ؟ |