سرکاری اداروں کے سربراہوں نے
سیاسی "فنکاروں"کی طرح بیان بازی شروع کردی ہے اور اب ہر جگہ پر سیاست شروع
ہوگئی ہے جس کی بنیادی وجہ سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت اور سیاسی
بھرتیاں ہیں جس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے -سرکاری اداروں کی
طرف سے بیان بازی کا اندازہ گذشتہ روز سیلاب سے متاثرہ علاقے بڈھنی میں
کوریج کے دوران ہوا - جہاں پر بارہ گھنٹے گزرنے کے باوجود سیلاب سے متاثرہ
افراد کو نکالنے اور انکی امداد کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے-
حالانکہ گذشتہ کئی ماہ سے پی ڈی ایم اے اور پشاور کی ضلعی انتطامیہ سیلاب
سے بچائو کیلئے بڑے بڑے دعوے کرتی رہی ان کے مطابق وہ ایک گھنٹے میں متعلقہ
ادارے رسپانس دے سکتے ہیں لیکن حقیقت کا اندازہ گذشتہ روز ہونیوالی ایک
گھنٹے کی بارش کے بعد ہوا جب سیلابی ریلے نے پشاور کے نواحی علاقوں سردار
احمد جان کالونی سمیت چھ مختلف علاقوں میں تباہی مچا دی راتوں رات آنیوالے
سیلابی ریلے نے ایک ہزار کے قریب مکینوں کو راتوں رات گھروں سے نکلنے پر
مجبور کردیا اور افسوسناک بات یہ ہے کہ جو لوگ دعوے کرتے رہے ان کے دعوے
سیاسی "فنکاروں"کی طرح بیان بازی نظر آئی کیونکہ یہ لوگ کہیں پر بھی نظر
نہیں آئے اور "کمی کمین"اپنی مدد آپ کے تحت گھروں سے محفوظ مقامات کی طرف
منتقل ہوتے رہے-
صوبے کے غریب عوام کے پیسوں پر پلنے والے ضلعی انتظامیہ کے افسران نے رات
کے ایک بجے آنیوالے سیلابی ریلے کودیکھنے کی زحمت تک نہیں کی بلدیات کے "
آقائوں " کے گھروں میں "حاضری" لگانے والے افسران جن کا کام "کوارڈینیشن "
ہے ان کی کوارڈینیشن کا پتہ سیلاب کے روز پتہ چل گیا کہ یہ لوگ صرف "جی
حضوری" کیلئے کوارڈینیشن پر لگے ہوئے ہیں- ٹیکسوں پر پلنے والے اداروں کے
افسران و اہلکاروں کی کارکردگی کی سیلاب کے روز عالم یہ تھا کہ چارسدہ اور
پشاور کے مابین رابطہ آٹھ گھنٹے تک معطل رہا لیکن نہ تو یہ نظر آئے اور نہ
ہی ریسیکو کیلئے بننے والے بڑے ادارے کے اہلکار کہیں پر دیکھنے میں آئے
حالانکہ ان کیلئے بڑی بڑی بلڈنگ تو اس صوبے کے غریب عوام کے خون پسینے کی
کمائی سے لینے والے "بھتہ ٹیکس " سے بن رہی ہیں بھتہ ٹیکس اس لئے کہ عوام
کے مفاد کیلئے تو کچھ نہیں کیا جارہا البتہ وی وی آئی پی کیلئے سرکاری
گاڑیاں اور ان کے پٹرول کے خرچے اسی ٹیکس سے اد ا کئے جاتے ہیں -ریسیکو
کیلئے بننے والے گیارہ بائیس کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ یہ بہت تیز ہونگے
لیکن ان کی تیزی کا بھی اسی سیلاب میں پتہ چل گیا چونکہ اب تو آرڈیننس کے
ذریعے ان کی سرکاری نوکریاں لگ گئی ہیں اس لئے انہوں نے بھی بے حسی شروع
کردی اور چارسدہ اور پشاور کے مابین بڈھنی روڈ پر ہزاروں بچے `خواتین اور
بوڑھے پانی سے نکلنے کیلئے خوار ہوتے دکھائی دیتے رہے-
اور تو اور اس حلقے کے "ایم پی اے " بارہ گھنٹے گزرنے کے بعد سرکاری گاڑی
میں بمعہ پروٹوکول صرف میڈیا کو دکھانے کیلئے موقع پر آئے اورساتھ ہی رونا
شروع کردیا کہ " میری کوئی نہیں سنتا اور حکومت میرے حلقے پر توجہ دے "
حالانکہ انہیں یہ حلقہ بھی " رشوت" کے طور پر عوام کو " لالٹین" کے دور میں
بھیجنے والی حکومت نے دیا ہے موصوف نے میڈیا کے سامنے بڑے بڑے دعوے بھی کئے
حالانکہ ان کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ یوسف آباد روڈ پر جو ان کے گھر سے
ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے پر ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے کی اخراجات
آنیکی تحتی تو موصوف نے لگا دی لیکن چھ ماہ سے اس پر بھی کام نہیں ہورہا
اور شائد سیاسی رشوت کے طور پر لینے والے ایم پی اے سیٹ کے مالک ممبر آخری
دنوں میں "کھیل ختم اور پیسہ ہضم "والا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں - سب سے مزے
کی بات تو یہ ہے کہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ جن کا کام ہی اس طرح کی صورتحال
کو کنٹرول کرنا ہے ان کے پاس سیلابی پانی کو نکالنے کیلئے شاول/ مشینری تک
نہیں تھی اور تیرہ گھنٹے گزرنے کے بعد یہ مشینری وہاں پر لائی گئی حالانکہ
اس ادارے میں بڑے بڑے " پیٹو "موجود ہیں جو دوسرے ممالک سے آنیوالا "
خیرات"پر ہی پل رہے ہیں تاہم سیلاب والی جگہ پر ان کی کارکردگی زیرو رہی
لیکن چونکہ سیلاب سے متاثر ہونیوالے زیادہ تر لوگ ڈنڈے کھانے والے اور زندہ
باد مردہ باد کے نعرے لگانے والے عام لوگ ہی تھے اس لئے ان کی پالیسی بھی "لگے
رہو منا بھائی " رہی اورنہ تو انہوں نے کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی "عوامی "نمائندے
کہلانے والے "اسمبلیوں" کے ممبران نے کوئی نوٹس لیا-
سیلاب سے متاب ہونیوالے علاقوں میں سرکاری افسران کی بدمعاشی کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے گھروں میں صفائی کیلئے ٹائون ون کے اہلکار
صفائی کیلئے پہنچ گئے تھے جبکہ سیلاب سے تباہ حال ہونیوالے " کمی کمین" جن
کا کام ٹیکس ادا کرکے انہی سرکاری ملازمین کیلئے تنخواہیں اور مراعات دینا
ہے انہی کمی کمینوں کے معصوم بچے اپنے گھروں سے گندگی نکالنے میں سارادن
مصروف عمل رہے بے غیرتی کی انتہا یہ ہے کہ جب ٹائون ون کے ایک سپروائزر کو
جو کہ وہاں پر موجود تھا کو بتایا گیا کہ صرف سرکاری افسران کے گھروں کی
صفائی کی جارہی ہیں تو موصوف" ڈھیٹ " بن گئے اور انکار کر گئے حالانکہ ہم
خو د بھی وہاں پر موجود تھے جہاں پر ٹائون ون کے ایک افسر کے گھر میں پانچ
اہلکار صفائی میں مصروف تھے جبکہ ہماری طرح "تھڑے ماروں "کے بچے اپنے گھروں
کی صفائی کرتے دکھائی دیئے-
گذشتہ پانچ سال سے بڈھنی پل میں آنیوالا سیلاب مسلسل اس علاقے کے لوگوں کو
متاثر کررہا ہے اس کی صفائی کے نام پر کروڑوں کے فنڈز " افسران شاہی " غائب
کر گئے ہیں لیکن نالے کی صفائی گذشتہ کئی سالوں سے تک نہیں کی گئی ہر سال
آنیوالا سیلابی ریلا دو سے تین فٹ مٹی بھی لیکر آتا ہے جس کی صفائی کی ذمہ
داری ایریگیشن حکام کی ہے لیکن شائد صفائی کرنا ان کی شان کے خلاف ہے کچھ
غلطی ہمارے لوگوں کی بھی ہے جو پشتو مثل کے مصداق "سہ جرندہ خرابہ اور سہ
دانے لوندے " کچھ سرکار کے ادارے تباہ حال ہے اور کچھ ہم لوگوں میں شعور کی
کمی ہے جوکہ گھروں کا گند نالوں میں گرا دیتے ہیں جو نالوں کو بند کرنے کا
باعث بنتی ہیں اور پھر یہی گند سیلابی پانی کو روکتی ہیں اور اس کے باعث
تباہی مچ جاتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی تجاوزات بھی ہے جس کا آغاز تو
"ملا ملٹری الائنس "میں ہوا تھا اور اب تو چودہ فٹ تک اس نالے کی زمین پر "ڈنڈا
اور بیلٹ رکھنے والے " ایک بڑے افسر نے پمپ تعمیر کیا ہے اس افسر کے ڈنڈے
کے ڈر سے نہ تو ایریگیشن والے صفائی کرتے ہیں اور نہ ہی ان سے کوئی پوچھ
سکتا ہے کہ کس کھاتے میں تم نے سرکار ی زمین پر سی این جی پمپ بنادیا ہے-
ان حالات میں ہم یہی التجا اپنے "عوامی نمائندوں"سے کر سکتے ہیں کہ خدارا
تم لوگ تو کچھ نہیں کرسکتے لیکن عوامی خدمات کیلئے بنائے جانیوالے سرکاری
اداروں کو کام کرنے دو اور انہیں سیاسی بیان بازیوں کے بجائے کام کرنے دو
تاکہ کچھ تو عوام کا بھلاہو- |