صرف پنجاب کی تقسیم کیوں ؟

مقدر کے سیلاب میں بہنے کے بجائے استقامت کا پہاڑ بن کر ،انکساری کے ساتھ انانیت اور مردانہ مثبت کے تعمیری و فکری طرز کو بہتر سمجھنا ہر ذی حس کا بنیادی فریضہ ہوناچاہیے۔ مملکت میں جاری سیاسی محاذ آرائی میں زبان و قلم سے نوکِ نشتر کا کام لینے میں کسی پس وپش سے کام نہیں لیاجارہا۔ پنجاب میں نئے صوبے کے حوالے سے حکومت کی جانب سے قائم قومی کمیشن میں مسلم لیگ (ن) کی عدم شرکت اور اراکین پنجاب اسمبلی کی جانب سے ہاتھا پائی ومحاذ آرائی کی شرمناک مناظر اس بات کا تعین کر رہے ہیں کہ ماضی کے تجربات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا۔ کمال حیرت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)کی جانب سے پنجاب میں نئے صوبے کے حوالے سے گریز کی راہ اختیار کرتے ہوئے سندھ کی تقسیم کا شوشہ ایک بار پھر چھوڑ دیا گیاتاکہ اس حوالے سے سندھ میں دوبارہ "انارکی" پیدا کی جا سکے۔ یقینی طور پر مسلم لیگ (ن) کے جو تحفظات ہیں اس حوالے سے انھیں اس امر سے بھی صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے کہ پنجاب میں صوبہ بہاولپور یا سرائیکی صوبے کے قیام کے حوالے سے بحث و مباحثے موجودہ دور کی پیداوار نہیں ہے بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جنوبی پنجاب میں نا انصافیوں اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی بنا ءپر عوام میں احساس محرومی کا پیدا ہونا فطری امر ہے اور اس مسئلے کو قومی اتفاق رائے سے دور کرنا سیاسی جماعتوں کی بنیادی ذمے داری بنتی ہے۔اگر سیاسی جماعتیں اپنا مثبت رول ادا کرنے کے بجائے عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کریں گی تو اس کے نتائج سے ہم بنگلہ دیش کی صورت میں آگاہ ہوچکے ہیں۔افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ قومی جماعت ہونے کا دعوی کرنے والی مسلم لیگ(ن) نے کس طرح یہ سمجھ لیا کہ پنجاب پر صرف ان کا حق ہے ۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کی شمولیت پر اعتراض کے پہلے لسانی عصبیت کے مظاہرے اور سندھ تقسیم کارڈ کے شوشے سے جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیوں کو ختم کرنے کی تحریک کو دبایا نہیں جا سکتا۔ایم کیو ایم اپنے پلیٹ فارم سے سندھ تقسیم کی مخالفت کرچکی ہے۔ اب اگر اے این پی صوبہ ہزارہ بننے سے روکنے کے لئے کوئی کوشش کر رہی ہے تو یہ وجہ جواز بھی تو مسلم لیگ (ن) کی وجہ سے صوبہ سرحد کی نام تبدیلی کے وقت بےجا ضداور پختونخوا کے ساتھ لفظ خیبر لگانے سے بنی ہے۔ اے این پی اگر صوبے کے نام پر اتفاق رائے یدا کرلیتی اور مسلم لیگ(ن) اس مسئلے کو اپنا انا کا مسئلہ نہیں بناتی تو صوبہ ہزارہ کے مطالبے کرنے والوں عوام کو احساس محرومی کا شکار نہیں ہونا پڑتا۔جب اے این پی کے صوبائی صدر افراسیاب خٹک صوبہ بلوچستان میں جنوبی پختونخوا کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور پشتوخواہ ملی عوامی پارٹی بلوچستان کی پختون اور بلوچ بیلٹ کو جدا کرنے کا مطالبہ کرسکتی ہے تو مسلم لیگ(ن) کو ان کی شرکت پر اعتراض کرنے کے بجائے سینٹ اور قومی اسمبلی میں قانون سازی کے عملی اقدامات کرنے کےلئے ایم کیو ایم کی قرارداد کی تائید کرنی چاہیے تھی یا پھر موجودہ کمیشن میں پنجاب کے علاوہ ہزارہ صوبہ کاا یجنڈا رکھنے کے لئے قوت صرف کرنی چاہیے۔ یقینی طور پر ایم کیو ایم، ہزارہ صوبہ کی حمایت کےلئے اپنے منشور کے مطابق مسلم لیگ(ن) کا ساتھ دے گی۔ لیکن سیاسی جماعتوں کو اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ نئے صوبے بنانے کا مقصد عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کوعوامی امنگوں کے مطابق کرنا ہے توانھیں سندھ میں "مہاجر صوبہ تحریک " اور بلوچستان میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماﺅں کے تحفظات کو بھی دور کرنا ہونگے۔بلوچستان اور سندھ میں علیحدگی پسندوں کی تحاریک موجود ہیں اور میڈیا انھیں اپنے پروگراموں میں مدعو کرتا ہے اور ان کی پاکستان سے علیحدگی کی ریلیاں اور تقاریر نشر کرکے دنیا میںیہ پیغام پہنچاتا ہے کہ پاکستان میں کچھ مسلح گروپ پر تشدد کاروائیاں کرکے الگ ریاست بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تونئے صوبے کے حوالے سے کسی سے بھی مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔دھرتی سندھ کی ہو یا پنجاب کی ، خیبر پختونخوا کی ہو یا بلوچستان کی ، ان کے وارث وہاں کے مقامی ہیں۔لہذا مقامی ہونے کے نظرئےے سے کوئی شخص نہیں چاہتا کہ اس کی دھرتی ماں کی تقسیم ہو ، ہر صوبہ اپنی شناخت اور ثقافت کےساتھ قدیم روایات کی تاریخی حیثیت رکھتا ہے ۔لیکن مسئلہ صرف سمجھنے کا ہے کہ اگر کوئی صوبہ کسی بھی طبقے کی حق تلفی اس قدر کر رہا ہے کہ انھیں اپنے حقوق کےلئے نئے صوبے سے بہتر حل نظر نہیں آرہا تو ہمیں اس وقت ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے خاطر برداشت کی سیاست کو اپنانا اور تمام صوبوں میں پائی جانے والی محرومیوں کے ازالے کے لئے اتفاق رائے سے کام لینا ہوگا۔پنجاب اپنی جغرافیائی خدوخال اور کثیر آبادی کے باعث اولین توجہ کا مستحق ہے۔اگر ملکی معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دےتے کہ بیک وقت ایک سے زائد صوبے بنائیں جاسکیں تو کم از کم اتنا ضرور کیا جاسکتا ہے کہ اس سلسلے میں آئینی ترمیم کمیشن کی طرز پر تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے ایک قانون سازی کرلی جائے تاکہ عوام میں ہمہ وقت ہیجان اور بے چینی کا خاتمہ ہوسکے۔ لیکن مسئلے کو جمہوری طریقے اور افہام تفہیم سے حل کرنے کے بجائے معاملات کو الجھانے کی کوشش کی جاتی رہی تو یہ ملکی یکجہتی اور ملی وحدت کے خلاف ہوگا۔مسلم لیگ(ن) سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو کھلے دل کے ساتھ پاکستان کی حدود میں نئے صوبوں کی ضروریات اور ترجیحات کو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہی حل کرنا چاہیے۔غیر سیاسی طریقہ کار اور انتخابات کے لئے مصنوعی ہیجان خیز ماحول پیدا کرنے سے جمہوریت مخالف قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے ۔ملکی حالات اور بین لااقوامی جنگ میں اتحادی ہونے کے باعث پہلے ہی ملکی سلامتی داﺅ پر لگی ہوئی ہے خدارا ۔۔ سیاسی جماعتیں بردباری اور تحمل کا مظاہرہ کریں کیونکہ یہ پاکستان کی بقا ءکےلئے ضروری ہے۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 263275 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.