کوئلے پر’کیگ‘ یعنی کمپٹرولر
اینڈ آڈیٹر جنرل (CAG) کی رپورٹ پر بی جے پی کی کالی سیاست کو سمجھنے کے
لئے بی جے پی کی اصل کو سمجھنا چاہئے۔ بی جے پی آر ایس ایس کا سیاسی بازو
ہے اوران دونوں کا جنم ہندستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے مقصد سے
ہوا ہے۔ ہندو راشٹرا کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ ملک کے سیکولر کردار کو
بدلا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ جمہوری آئینی نظام کی جگہ آمرانہ نظام لایا
جائے جس میں برہمنی بالادستی / ہندو ڈکٹیٹر شپ قائم ہو۔ چنانچہ آر ایس ایس
اور بھاجپا کی ساری سرگرمیوں کا ہدف اسی نصب العین کے حصول کی کوشش ہے۔
اس ہدف کو حاصل کرنے کی حکمت عملی میں یہ بات شامل ہے کہ فسادات اور دہشت
گردانہ سرگرمیوں کے ذریعہ بدامنی کی فضا قائم کی جائے اورایسی سیاسی
تحریکات چلائی جائیں جن سے عوام موجودہ نظام سے بدظن اور بددل ہوجائیں اور
اس میں کسی بڑی بنیادی تبدیلی کی مزاحمت نہ کریں بلکہ پرجوش انداز میں اس
کی اسی طرح تائید کریں جس طرح جرمن عوام نے ہٹلر کی اور یہودیوں نے
صہیونیوں کی کردی تھی۔ چنانچہ چاہے وہ 1960کی دہائی کی ”انگریزی ہٹاﺅ ہندی
لاﺅ“ تحریک ہو یابعد کی دہائیوں کا ”گﺅ رکشا آندولن “یا ”بابری مسجد ہٹاﺅ ،رام
مندر بناﺅ“ کا نعرہ اور رتھ یاترائیں ، انا کی تائید اور بنگالی بولنے والے
مسلمانوں پر بنگلہ دیشی درانداز کا لیبل چسپاں کرکے ان کو ملک بدر کرنے کا
مطالبہ، ان سب کا مقصد یہی ہے کہ ہندو عوام کو مغالطہ میں ڈال کر اقتدار پر
قبضہ کیاجائے اور با لاخر ملک بھر میں ویسا ہی غیر جمہوری آمرانہ نظام قائم
کیا جائے جس کی ایک جھلک گجرات میں نظرآتی ہے۔ کوئلے کی کانوں پر بھاجپا کی
موجودہ سیاست کا محور بھی اسی مقصد وحید کی طرف پیش قدمی ہے۔
اصل معاملہ کیا ہے؟: ہندستان میں کوئلہ کی کانکنی پر سرکاری ادارہ ”کول
انڈیا لمٹیڈ“(سی آئی ایل )کو کلی اختیار حاصل ہے۔ لیکن اس کی صلاحیت اتنی
نہیں ہے کہ کوئلہ کی تمام ضروریات کو پورا کرسکے۔ چنانچہ 1970 کی دہائی میں
جب صنعتوں کو پرمٹ اورلائسنس کی قید سے آزادکرنے اور پراﺅیٹ سیکٹر کےلئے
کھولنے کی پالیسی کا آغاز ہواتب قومی ترقیاتی منصوبوں اور انڈسٹری کے فروغ
کےلئے کوئلہ کی طلب میں زبردست اضافہ ہوگیا ۔ چنانچہ 1976 میں "Captive
Mining" کا طریقہ تلاش کیا گیا۔’ کیپٹیو مائننگ ‘ سے مراد یہ ہے کہ کوئلہ
کے کسی خاص بلاک سے کسی خاص بنیادی صنعت کےلئے کانکنی کا لائسنس کسی نجی
فرم کو بعض شرائط کے ساتھ جاری کیا جائے۔ سب سے پہلے اس سہولت کو آئرن
اوراسٹیل انڈسٹری کےلئے جاری کیا گیا۔ بعد میں بجلی اور پھر سیمنٹ کی صنعت
کےلئے بھی راہ کھلی۔ اس طرح کے پرمٹ کے تحت جوکوئلہ نکالا جاتا ہے اس کو
بازار میں فروخت نہیں کیا جاسکتا بلکہ خاص اسی انڈسٹری اور انہیں کارخانوں
میں استعمال کیا جاتا ہے جس کی صراحت پرمٹ میں کردی گئی ہے۔ یہاں شاید یہ
بتانے کی ضرورت نہیں کہ بجلی، لوہا، اسٹیل اور سیمنٹ کو ترقیاتی منصوبوں
کےلئے کلیدی اہمیت حاصل ہے اور ان کےلئے کم سے کم قیمت پر کوئلے کی فراہمی
عین قومی مفاد میں ہے۔
لائسنس کے اجراءکا طریقہ کار: موجودہ طریقہ کاریہ ہے کہ لائسنس کےلئے
درخواستیں طلب کی جاتی ہیں اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ درخواست دہندہ کو کس
صنعت کےلئے کوئلہ کی ضرورت ہے اور وہ صنعت کہاں ہے؟ اکثر ریاستوں کی ، جہاں
کوئلہ پایا جاتا ہے بجا طور پر یہ خواہش ہوتی ہے ان کی ریاست کے کوئلہ
کااستعمال اسی ریاست میں کوئی کل کارخانہ لگانے یا چلانے کےلئے ہو جس سے
ریاست ترقی کرے اور مقامی باشندوں کو روزگار ملے ۔ چنانچہ مرکزی حکومت یہ
پرمٹ اپنی صوابدید پر نہیں دیتی بلکہ اس کا فیصلہ ایک اسکریننگ کمیٹی کرتی
ہے جس میں متعلقہ ریاست اور مختلف وزارتوں کی اعلا سطح پر نمائندگی ہوتی
ہے۔ ظاہر ہے ان کی ترجیح کوئلہ کی فروخت سے سرکاری خزانے کےلئے رقم کی
فراہمی نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتی ہے اس کوئلے کا استعمال ملک اور یاست کی
مجموعی اقتصادی اور صنعتی ترقی کےلئے کس طرح ہو۔ پرمٹ کے اجراءکا یہ طریقہ
کار نیا نہیںہے۔جیسا کہ وزیر اعظم نے 27اگست کو پارلیمنٹ میں اپنے بیان میں
بتایا ہے کہ1993 کے بعد سے سبھی سرکاریں ، جن میں باجپئی جی کی سرکار بھی
شامل ہے ،مقررہ استعمال کےلئے کوئلہ بلاک کا اجراءکرتی رہی ہیں اور اس
اجراءکو سرکاری خزانے کےلئے آمدنی کا ذریعہ نہیں سمجھا گیا۔“
کیگ کا اعتراض: اس طریقہ کار پر کیگ کے اعتراض سے متعلق خبریں اخباروں میں
تفصیل سے آچکی ہیں۔ مختصراً یہ کہ 2004-09 کے درمیان جو پرمٹ جاری ہوئے وہ
اگر نیلامی کے ذریعہ دئے جاتے تو سرکاری خزانے کو ایک لاکھ 86ہزار کروڑ
روپیہ زیادہ مل سکتا تھا۔ یہ محض ایک نظری تخمینہ ہے ۔پوچھا جاسکتا ہے کہ
کیگ پر یہ کیسے منکشف ہوگیا کہ کس کان میں کتنا کوئلہ ہے ، کس کوالٹی کا ہے
اورکتنی مالیت کا ہے؟بہرحال اس طرح کے بہت سے سوال ہیں، جن پر یہاں بحث
مطلوب نہیں۔ موٹی سی بات یہ ہے کہ بیشک نیلامی کے ذریعہ سے سرکاری خزانے
میںزیادہ رقم آسکتی تھی، مگر اس اہم پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ
اس طرح کوئلہ بہت مہنگا ہوجاتا جس سے سیمنٹ، لوہا اور اسٹیل اور سب سے اہم
بجلی کی لاگت میں زبردست اضافہ ہوتا۔سوال یہ ہے کہ اس کا بوجھ کس پر پڑتا
اور اس کے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے؟یہ بوجھ لازماً عوام پر پڑتا۔
ترقیاتی منصوبوںکی لاگت میں اضافہ ہوتا ۔ ان کےلئے سرکاری خزانے سے اس سے
کہیں زیادہ رقم نکالنی ہوتی جتنی نیلامی سے وصول ہوتی ۔ قومی ترقی کی رفتار
سست ہو جاتی جس سے ٹیکس کی وصولی پربھی منفی اثر پڑتا ۔ کیگ نے ان تمام
پہلوﺅں کو نظر انداز کردیا جو سرکار کی نظر میں بجا طور پر زیادہ اہم ہیں۔
ریاستوں کی مخالفت: وزیراعظم نے 27 اگست کو جو 32نکاتی بیان لوک سبھا اور
راجیہ سبھا میں دیا ہے، اس میں ان تمام نکات کا اجمالاً ذکر ہے۔ ذکر اس بات
کا بھی ہے جب 2005میں انہوں نے یہ تجویز رکھی کہ کوئلہ بلاکس کا
اجراءنیلامی کے ذریعہ ہو توکئی ریاستی سرکاروں نے اس کی مخالفت کی۔ سب سے
پہلے مدھیہ پردیش کی اس وقت کی وزیر اعلا محترمہ وسندھرا راجے سندھیا،
چھتیس گڑھ کے وزیر اعلا ڈاکٹر رمن سنگھ اور مغربی بنگال کی بائیں بازو کی
سرکار نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی تھی اور اس کے جو دلائل خاص طور سے
محترمہ سندھیا اورڈاکٹر رمن سنگھ نے دئے تھے ، ان میں بڑاوزن بھی ہے۔ اس
مخالفت کے باوجود اگر مرکز پالیسی بدلتا تو یہ اقدام وفاقی نظام کی روح کے
منافی ہوتا اور اس پر ریاستوں کی رائے کو نظرانداز کرنے کا الزام صادر
ہوتا۔اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ملک کے مجموعی قومی مفاد کو دھتا بتا
کر اور خود اپنی ریاستی حکومتوں کی رائے کو نظر انداز کرکے بی جے پی مرکز
کے خلاف گمراہ کن سیاست کررہی ہے ۔
اڑنگے بازی کی سیاست: بی جے پی ، جو سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے، عرصہ سے
اڑنگے بازی کی سیاست پر گامزن ہے اور پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں چلنے دیتی۔
پچھلے دنوں اس نے ٹو جی اسپکٹرم معاملے میں چدمبرم کے خلاف مہم چلائی تھی
اوران کے استعفے کے مطالبہ پر اصرار کی بدولت پارلیمنٹ کے اجلاس میں رخنہ
پڑتا رہا۔ یہاںتک کہ پہلے ذیلی عدالت اور اب سپریم کورٹ نے ان تمام الزامات
کو بے بنیاد قرا دیکر مسترد کردیا۔ اب وزیر اعظم کے استعفے کا غیر آئینی
اور غیر اخلاقی مطالبہ کررہی ہے اور پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں چلنے دے رہی
ہے۔ ایسا ہی نیوکلیر ڈیل کے معاملے میں ہوا تھا۔ اس سے سواہنگامہ راجیو
گاندھی کے دور حکومت (1984-89) میں انفارمیشن ٹکنالوجی کو ملک میںلانے کے
اعلان بعدکیا گیا تھا۔ آج اسی ٹکنالوجی کی بدولت لاکھوں نوجوان برسر روزگار
ہیں اور کمپیوٹر فروغ تعلیم کا اہم ٹول بن گیا ہے۔ ٹوجی اسپکٹرم معاملے میں
ہرچند کہ متعلقہ وزیر قانون کی گرفت میں ہیں، مگر اس پر جس طرح سبرامنیم
سوامی اور بھاجپا نے ہنگامہ کیا جس کی بدولت بہت سے لائسنس رد ہوگئے ، اس
کا اثر عنقریب اس وقت نظر آئیگا جب نئے لائسنس جاری ہونگے اورموبائل کالس
کے ریٹ آسمان کو چھونے لگیں گے ۔ چنانچہ موبائل رکھنامہنگا ہوجائے کا اور
اس کا پھیلاﺅ رک جائیگا جس سے لاکھوں لوگوں کو روزگار مل رہا ہے۔یہ بات یاد
رکھنی چاہئے کہ لائسنسوں کے فروخت سے سرکاری خزانے بھرنے سے ملک ترقی نہیں
کریگا، سہولتوں کو ارزاں کرنے سے روزگار بھی بڑھیںاور ترقی بھی ہوگی۔ یہ
بات بھاجپا کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟اس لئے کہ اس کو ملک کا مفاد سے
زیادہ ہوس اقتدار عزیز ہے۔
جمہوری طریقہ کار سے فرار: کیگ کی رپورٹ پر غور کرنے کا طے شدہ طریقہ کار
یہ ہے کہ پہلے اس پر پارلیمنٹ کی اکاﺅنٹس کمیٹی (PAC) غور کرتی ہے جس میں
سبھی پارٹیوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ موجودہ پی اے سی کے چیرمین بھاجپا کے
ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی ہیں۔ پی اے سی میں متعلقہ وزارتوں کو یہ موقع دیا
جاتا ہے وہ رپورٹ میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیں۔ان جوابات کی روشنی
میں افسر شاہی کی رپورٹ پر سیاسی نمائندے جب غور و خوض کرتے ہیں تو اس میں
عوامی مفاد کے وہ بہت سے پہلو بھی زیرغور آتے ہیں جن سے افسر شاہی کو غرض
نہیں ہوتی ۔ اس کے بعدپی اے سی کی رپورٹ پرپارلیمنٹ میں بحث ہوتی ہے۔ابھی
رپورٹ ان مراحل سے گزری نہیں کہ بی جے پی نے اپنے طور پر وزیر اعظم کو قصور
وار قراردیدیا اور پارلیمنٹ پر بھی بحث کےلئے آمادہ نہیں۔ اس کو اس آئینی
جمہوری طریقہ کارکی پامالی میں اس لئے تردد نہیں کہ موجودہ جمہوری آئینی
نظام کی قدر ومنزلت اس کی سرشت میں ہی شامل نہیں۔حد تو یہ ہے اس کے الزام
کے جواب میں ڈاکٹڑ من موہن سنگھ جوکہنا چاہتے ہیں، اس کو سننا بھی اس
کوگوارا نہیں حالانکہ انصاف قاتل کو بھی اپنی صفائی پیش کرنے کا حق دیتا
ہے۔لیکن بی جے پی آئینی طریقوں اور اخلاقی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر
وزیر اعظم کے استعفے پر اڑے ہوئی ہے اور اس کے کم پر راضی نہیں اور سڑکوں
پر اترنے کی دھمکی دے رہی ہے۔
وزیر اعظم کو ہٹانے کا آئینی طریقہ: بی جے پی اگر یہ سمجھتی ہے کہ قوم کے
مجموعی مفاد میں کوئلہ لائسنس جاری کرکے ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کوئی ایسا
جرم کردیا ہے جس کی بدولت اب وہ وزیر اعظم کے منصب پر رہنے کے اہل نہیں رہے
ہیں توان کو ہٹانے کےلئے ہنگامہ آرائی کے بجائے عدم اعتماد کی تحریک لانی
چاہئے ۔ قانون یہ کہتا کہ جب تک وزیر اعظم کو لوک سبھا کی اکثریت کا اعتماد
حاصل ہے ان کو ہٹایا نہیں جاسکتا۔ مگر یہاں ایک چھوٹی سے اقلیت اس بات پر
اڑی ہوئی ہے کہ اس کا مطالبہ منظور کرکے وزیر اعظم استعفا دیں۔طرفہ تماشا
یہ ہے کہ گزشتہ دو پارلیمانی انتخابات میں عوام نے توبی جے پی کو مسترد
کردیا مگر وہ بزعم خوداپنا یہ حق سمجھتی ہے جب جس وزیر کے استعفے کا مطالبہ
کرے وہ مستعفی ہو جائے اور جب وزیر اعظم سے کہے کہ استعفا دیدو، سرکار بدل
جائے۔ یہ روش اس کے مزاج کی فسطائیت اور آمریت کا مظہر ہے۔
اصل کھیل: ہرچند کہ کیگ نے لائسنسوں کے اجراءکے طریقہ کار پر ہی اعتراض
اٹھایا ہے مگر بھاجپا نے اس رپورٹ کی آڑ میں وزیر اعظم پر کرپشن کا لیبل
چسپاںکرنے کی مہم چلادی ہے۔ اس کھیل کا منشاءیہ ہے کہ2014کے الیکشن سے پہلے
وزیر اعظم کی شبیہ کو عوام کی نظروںمیں مشکوک کردیا جائے ۔کیونکہ 2009کے
چناﺅ میں ان کی صاف ستھری شبیہ نے ہی این ڈی اے کے ارمانوں پر پانی پھیر
دیا تھا۔ آڈوانی بیشک ان کو کمزور وزیر اعظم قرار دیکر خود کو مضبوط
امیدوار باور کر اتے رہے مگر بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ وہ ملک کے تو
کیا خود اپنی پارٹی کے بھی مضبوط لیڈر نہیںرہ گئے ہیں۔ ہر چند کہ بی جے پی
خود کرپشن میں گلے گلے ڈوبی ہوئی ہے مگر سرکار کے خلاف اس الزام کو اتنی
شدت سے اور اتنی مرتبہ دوہرانا چاہتی ہے کہ رائے دہندگان کو اس کے دامن کے
داغ تو نظر نہ آئیں، یو پی اے کے ساری خطائیں یاد رہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا
وہ عوام کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجائی گے؟ (ختم) |