٢٥ فروری والے روز پاکستان میں
اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے شریف برادران کے خلاف نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد ملکی
سیاست میں آنے والا سونامی اپنے ساتھ نہ جانے کیا کچھ بہا لے جائے اس کا فیصلہ
آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری قسمت میں آگے بڑھنے اور
ترقی کرنے کا کوئی دور آئے گا یا یونہی ہر بار قوم کو ایک نئی اذیت میں مبتلا
کرنے کا ملکی سیاسی جماعتوں کا وطیرہ بدل پائے گا؟یہ بات روز روشن کی طرح عیاں
ہے کہ موجودہ صورتحال اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے عوام کی قربانیوں سے لائی گئی
جمہوریت کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہے جس کا راز آنے والے مہینے میں افشاں ہو
جائے گا۔ لیکن بات یہ ہے کہ شریف برادران آج جس مینڈیٹ اور جمہوری اقتدار کی
پامالی کا رونا رو رہے ہیں کیا انہوں نے اپنے سابقہ ادوار میں کوئی اچھی مثال
قائم کی تھی جس کو بنیاد بنا کر پاکستانی عوام ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے
اور مرکزی حکومت کو مجبور کرتے کہ وہ ایسی کسی بھی سازش کا سر کچل دیں جو
جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے لیے تیار کی گئی ہو۔
غلام مصطفٰی جتوئی کی سربراہی میں قائم کی گئی اسلامی جمہوری اتحاد نامی جماعت
جو کہ ایجنسیوں کی پیداوار تھی۔ شریف برادران اس کے بطن سے برآمد ہوئے تھے اور
اول الذکر کو بائی پاس کر کے خود اقتدار کے سنگھاسن پر قبضہ جما لیا تھا۔ پی پی
پی کو سندھ میں مشکلات سے دو چار کرنے کے لیے جام صادق جیسے ننگِ وطن کو سندھ
میں اقتدار دیا ۔ جام صادق مرحوم نے صحافیوں کی موجودگی میں یہ تسلیم کیا تھا
کہ وہ شراب پیتے ہیں۔ انہوں نے نہ جانے کتنے جام چڑھا کے پی پی پی کے ورکروں
اور عہدیداران کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا اور یہ سب کچھ شریفین کے ایما
پر کیا گیا تھا۔ کیا اس وقت ان کو مینڈیٹ یا جمہوری سیاسی رویوں کا سبق بھول
گیا تھا؟ِ مزید برآں اپنے دوسرے دور میں سندھ میں ایک منتخب جمہوری حکومت کی
بساط لپیٹ کے غوث علی شاہ کی سربراہی میں گورنر راج نافذ کرتے ہوئے بھی ان کو
مثبت سیاست کا کوئی اصول یاد تھا؟ آج جبکہ پنجاب میں انکے اقتدار پر ضرب لگی ہے
تو انکو تمام اخلاقی، آئینی ،قانونی اور جمہوری روایات یاد آ گئی ہیں۔ پنجاب سے
تعلق رکھنے والے قارئین بخوبی آگاہ ہیں کہ کس طرح گزشتہ ایک سالہ دورِ حکومت
میں نواز لیگ نے پنجاب میں پی پی پی کے کارکنوں، حتٰی کہ حکومت میں چالیس فیصد
شیئر رکھنے والی جماعت کے وزرا بھی اپنے جائز کاموں کے لیے نواز لیگ کے محتاج
ہو کے رہ گئے تھے۔ کیا اس وقت شریف برادران کو مرکزی حکومت سے کیے گئے وعدے اور
قسمیں یاد نہ تھیں؟ میثاقِ جمہوریت کا رونا رونے والے حضرات خود بتائیں کہ اس
وقت میثاقِ جمہوریت کہاں تھا جب وہ ق لیگ کے رہنماؤں سے جپھیاں ڈال رہے تھے؟
ایم کیو ایم سے کسی قسم کا رابطہ نہ رکھنے کی قسمیں کھانے والے اور ایم کیو ایم
کو قومی سیاسی دھارے سے دور رکھنے کی باتیں کرنے والوں کی اخلاقیات اس وقت کہاں
تھی جب شہباز شریف صاحب ایم کیو ایم کے گورنر کی دعوتیں اڑا رہے تھے؟ آج جبکہ
ملک میں سیاسی مفاہمت اور اتحاد کی زیادہ ضرورت ہے نواز لیگ اس کو سبوتاژ کرنے
پہ تلی ہوئی ہے۔ نا اہلی کا فیصلہ سراسر آئینی اور قانونی ہے اس کو پی سی او
ججز کی عدالتیں کہنے سے کسی طور ہضم نہیں کیا جا سکتا۔ میاں صاحبان جس افتخار
چودھری کی بحالی کی جنگ لڑ رہے ہیں انہی صاحب کی عدالت میں اس وقت اپیل کیوں
نہیں کی جب وہ مشرف کے وقت میں بیٹھ کے مزے اڑا رہے تھے؟ پاکستانی قوم کو مضبوط
ملکی معیشت اور امن کی ضرورت ہے جبکہ دھرنوں اور جلاؤ گھیراؤ کی وجہ سے نہ صرف
ملک اقتصادی بحران کا شکار ہو رہا ہے بلکہ امنِ عامہ کی صورت حال بھی ابتری کی
طرف جا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وسیع تر قومی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے
اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈالا جائے اور مرکزی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری
کرنے دی جائے۔ تاکہ ایک بہتر اور صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن ہو سکے۔ ورنہ
اندر کی خبریں رکھنے والے احباب جانتے ہیں کہ اندر کھاتے کس قسم کی سازشیں تیار
ہو رہی ہیں۔ اگر وقت کی نزاکت کو نہ سمجھا گیا تو عین ممکن ہے کہ قوم کو ایک
اور آمرانہ دور کی اذیت سے دو چار ہونا پڑے۔ تمت بالخیر |