تازہ ہوا کے شوق میں اے پاسبان شہر - اتنے در نہ بنا کہ دیوار آگرے
پاکستان کا سوئٹزر لینڈ کہلایا جانے والا شہر سوات ان دنوں انتہائی نامساعد
حالات سے دو چار ہے اور امن معاہدے کے باوجود بھی صورتحال گھمبیر سی بنی ہوئی
ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر اب تک وطن عزیز کو مسائل سے دوچار رہنا پڑا ہے تاہم
بعض حصے ایسے بھی ہیں جہاں امن امان کی حالت دگرگوں ہے اور حالات ہیں کہ
بدلنےکا نام ہی نہیں ہے رہے۔ ساڑھے بارہ لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل صوبہ سرحد
کے ضلع سوات میں گذشتہ چند برسوں سے تو صورتحال اتنی بگڑ چکی ہے جس کا کبھی
تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سوات کا مرکزی دار الحکومت سیدو شریف ہے اور اہم
شہروں میں منگورہ، مٹہ شامل ہیں -چاروں طرف سے اونچے پہاڑوں میں گھرا ہوا اور
خوبصورت دریاؤں کی موجودگی کی وجہ سے یہ علاقہ اپنی مثال آپ ہے اور حالات خراب
ہونے سے کچھ عرصہ قبل تک یہ غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔اسی
بناء پر اسے پاکستان کا سوئٹزر لینڈ بھی کہا گیا-اس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی
ہے جس میں محمود غزنوی کی آمد سے پہلے ہندوؤں اورانگریزوں کاغلبہ رہا -دریائے
سوات کا ہندوؤں کی مقدس کتاب رگ وید میں بھی ذکر ہوا ہے جس میں اس دریا کا نام
شری واستو یا شواستو دیا گیا ہے327 ویں ہجری میں الیگزینڈر ، اوڈی گام اور بری
کوٹ کے علاقوں کو فتح کرنے قبل وہ اس دریا سے ہوتے ہوئے گذرا۔ دوسری صدی ہجری
میں بدھ مت کے ماننے والوں نےاس علاقہ پر قبضہ کرلیا تاہم محمود غزنوی نے 1023
عیسوی میں اس کو آزاد کرلیا -وفاقی دارحکومت اسلام آباد سے 160کلو میٹر دور
واقع سوات انتہائی خوبصورت جھیلیں دیکھنے کو ملتی ہیں جبکہ اس کے چاروں طرف کوہ
ہمالیہ کا سلسلہ ملتا ہے-یہاں تین قسم کی زبانیں بولی جاتیں ہیں تاہم پشتو کو
مرکزیت حاصل ہے-تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سوات کا پرانا نام
یودھیانا تھا اور اس ذکر بھی رگ ویدا 1929کے باب میں تحریر ہے،سوات کا ہندو
شاہی خاندانوں اور سنسکرت نے حکمرانی کی تاہم ماریانوں کا عرصہ گزرنے کے بعد
یہاں پر 324 ہجری میں سوات میں ہندو چھاگئے جبکہ ہندو راجاؤں کے زمانے میں یہاں
شاہی حکمران ہوتے ہوا کرتے تھے- وطن عزیز کے قیام کے کئی برسوں بعد سال 1969 تک
یہاں بدستور شاہی حکمرانی کا سلسلہ جاری رہا اور پرنس آف سوات کی مرضی چلتی
رہی-اب اسوقت سوات سے سات ارکان صوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوتے ہیں- ایک
خاتون ارکن اسمبلی بھی منتخب ہوئی ہیں-ناظم سوات کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی
سے ہے جبکہ زیادہ تر صوبائی اسمبلیوں کی نشستو پر عوامی نیشنل پارٹی کر ارکان
براجمان ہیں-شورش زدہ علاقے سوات کی مختصر سے تاریخ کے جائزے کے بعد ہم موجودہ
حالات میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر مختلف تبدیلیوں کے عمل سے گزرنے
والے اس جنت نظیر وادی میں آخر ایسا کیا ہوا کہ پوری دنیا کی نظریں یہاں لگی
ہیں
اہمیت اس بات کی ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ آخر کیوں یہاں پر قتل و غارت گری
کا بازار گرم کیا گیا اور صحافیوں کو بھی نہیں بخشا گیا -یہ امر مسلمہ حقیقت ہے
کہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق سےمحروم کر کے ان کی مرضی و منشاء کے خلاف آمرانہ
اقدامات نافذ کرنے کوشش کی جائے تو پھر انقلاب جنم لیتے ہیں، اس پر اس بات کا
خیال نہیں رکھا جاتا کہ انقلاب کس قسم کا ہے آتا ہے، گذشتہ برسوں سے قبائلی
علاقوں بشمول سوات و مالاکنڈ میں امریکی ایماء پر آپریشن شروع کیا گیا جس میں
بے شمار افراد جس میں بچے اور خواتین بھی ماری گئیں، اگر ایک امریکی دنیا کے
کسی کونےمیں ہلاک ہوجاتا ہے تو اس کے لیے شورو غوغا مچنے لگتا ہے لیکن وہاں پر
مصوم افراد کے قتل پر کوئی پوچھنے والا ہی نہیں، نام نہاد این جی اوز اور شہری
آزادیوں کے لیے لڑنے والی تنظیموں کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور انکو معلوم ہی
نہیں ہوتا کہ کتنے لوگ کیسے مارے گئے -سوات میں جہاں بھی شرپسند اور جرائم پیشہ
افراد کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ خون
پھر خون ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے کے مصداق صورتحال تبدیل ہوئی -انگلینڈ سے
لیکر امریکہ کی کائونٹیز تک میں قوانین مقامی افراد کی خواہش کے مطابق تشکیل
دیے جاتے ہیں اور عوام سے رائے لی جاتی ہے اور اگر سوات کے مسلمانوں نے بھی
اپنے لیے اگر شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا تھا اس میں کوئی برائی نہیں لیکن
ڈنڈے کے زور پر ایسا ہونا خطرناک ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا ایک حقیقی ریفرنڈم
کرایا جاتا اور لوگوں کو مارنے کے بجائے ان کی مرضی کے مطابق چلا جاتا لیکن
افسوس ایسا نہیں ہوسکا۔ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں کہ حالیہ امن معاہدہ بھی ایک
سازش ہے جس کی نشاندہی برطانیہ کے اخبار ٹائمز نے کی ہے جس میں واضح کیا گیا ہے
کہ یہ امریکہ کی حمایت سے ہوا اور امریکہ چاہتے ہیں کہ بیت اللہ محسود اور
مولوی فضل اللہ کے درمیان دراڑ پیدا کی جائے اور اس کا فائدہ سیکورٹی فورسز کو
ہوگا جس کے ترجمان لیفٹینٹ جنرل اطہر حسین نے اعتراف کیا کہ فورسز سوات میں
ناکام ہوگئیں تھیں اور مقامی افراد کی حمایت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے -
جہاں بھی دیکھو مولوی اور منبر کو نشانہ بنانےکی بات کی جاتی ہے اور اس بات کو
بھول جاتے ہیں کہ ہماری زندگی کی خوشیوں سے لیکر تا دم مرگ انہی مولویوں کا
کردار ہوتا ہے -سیاستدانوں سے لیکر نام نہاد دانشورں تک جس کو دیکھئے مغرب اور
اس کی پالیسیوں کے گن گاتے نظر آتے ہیں اور مولویوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ
بھائی اگر معاشرے کو سیاستدانوں اور فوج نے بگاڑ دیا ہے تو اب اس میں ان کا کیا
قصور؟اور اگر ہمارے نام نہاد سیاستدان سمجھتے ہیں کہ مولوی سسٹم نہیں چلا سکتے
ہیں تو پھر اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ لوگ انہیں قبول کریں جبکہ وطن عزیز کے
قیام کے اکسٹھ برس بیت چکے ہیں لیکن سیاستدان عوام کی خدمت کے بجائے امریکہ کی
غلامی کرنےمیں مصروف نظر آتے ہیں اور وائٹ ہاؤس سے ایک کال آنے پر ان کی دنیا
سنوارنے لگتی ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پھر نجانے کتنے بیت اللہ محسود
اور فضل اللہ پیدا ہوتے رہیں گے-اگر سیاستدان ملکی مفاد کی خاطر اپنا قبلہ درست
کرلیں اور حقیقی عوامی خدمدگار بن جائیں تو وہ دن دور نہیں ہوگا جب عوام ان کے
غلام بن جائیں گے ان ہی سیاستدانوں کے لیے کسی کیا خوب کہا ہے اور یہ شعر سابق
صدر پرویز مشرف نے اپنی تقریر میں پڑھا تھا مجھے نہ ان سے اتفاق ہے اور نہ ہی
ان کی پالیسیوں سے بلکہ انکی ہی لگائی ہوئی آگ نے سب پاکستانیوں کو شعلوں میں
جھونک دیا لیکن شعر ان سمیت دیگر سیاستدانوں کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ع میرا
عزم اتنا جواں ہے مجھے پرائے شعلوں سے ڈر نہیں - مجھ کو فکر آتش گل سے ہے کہیں
میرے چمن کو جلا نہ دے
مزید ایک شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ کسی بھی صورت میں مایوسی گناہ ہے اور
ہمیں امید بہر حال رکھنی چاہیے۔ع کچھ اور بڑھ گئے ہیں جو اندھیرے تو کیا ہوا-
مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم |