موجودہ ملکی سیاسی حالات میں ق
لیگ جو کبھی دشنام طرزی کے لیے دونوں بڑی اتحادی جماعتوں کے زیرِعتاب تھی آج
وقت نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ اس کی خوشنودی اور رضا کے لیے کسی بھی اخلاقی یا
اصولی سیاسی روایت سے ہٹ کے بچھی جا رہی ہیں۔ درحقیقت اٹھارہ فروری کے الیکشن
میں ق لیگ صوبہ پنجاب میں تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر منظر عام پر آئی۔ نواز
لیگ اور پی پی پی کے حکمرانوں نے ق لیگ سے کسی بھی قسم کے روابط نہ رکھنے کی
قسمیں کھائیں، وعدے کیے گئے لیکن وقت بڑا بے رحم ثابت ہوا اور ق لیگ کو مشترکہ
دشمن قرار دینے والے رہنما چودھری برادران کی چوکھٹ پہ سر جھکائے کھڑے نظر آتے
ہیں جس کا اخلاقی جواز پرویز الٰہی کی والدہ کے انتقال نے بخوبی اور بر وقت
فراہم کیا۔ ظہورالٰہی پیلیس میں تعزیت اور مرحومہ کے ایصالِ ثواب کی غرض سے دعا
کے ساتھ چودھری صاحبان سے سیاسی دوا بھی طلب کی جا رہی ہے۔
مسلم لیگ ق کس کی جھولی میں اپنی طاقت ڈالے گی اس پہ بحث کی جا رہی ہے۔ ابھی تک
ق لیگ نے کوئی واضح موَقف اور پالیسی میڈیا اور عوام کے سامنے پیش نہیں کی لیکن
ق لیگ کی سابقہ سیاسی تاریخ اور ذوقِ سیاست کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں اس کالم
کے ذریعے اپنے قارئین سے ایک بات شئیر کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ ملکی حالات
دراصل اسٹیبلشمنٹ اور انٹی اسٹیبلشمنٹ کی دریں خانہ کشمکش کو ظاہر کرتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ سول اور ملٹری افسر شاہی کے ان صاحبانِِ بست و کشاد پر مشتمل ہے جس
میں ملٹری انٹیلیجنس اور وفاقی سطح کے سول بیوروکاٹس شامل ہیں جن کا جھکاؤ مشرف
دور سے کچھ زیادہ ہی امریکہ کی طرف رہا ہے۔اور امریکہ کی طرف سے بھی تائید و
حمایت کے بھی دعویدار ہیں۔دوسری طرف انٹی اسٹیبلشمنٹ میں آئی ایس آئی دائیں
بازو کی جماعتیں شامل ہیں جو کہ افتخار چودھری کے ایشو پر حکومت کو براہِ راست
اور اسٹیبلشمنٹ کو بالواسطہ وقت ڈالے ہوئے ہیں۔ افتخار چودھری کی معزولی ق لیگ
کے دور حکومت میں ہوئی تھی جو کہ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ہوئی تھی۔ اس سے ظاھر
ہوتا ہے کہ ق لیگ گزشتہ دورِ میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہی ہے۔ اور میں اپنے قارئین
پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو سیاسی جماعتیں تا حال
وابستہ ہیں ان میں پی پی پی ، ایم کیو ایم، اے این پی اور ق لیگ شامل ہیں۔ اس
وقت پی پی پی کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ لہٰذا ق لیگ اپنی حقیقی
جماعت کے پیدا کاروں کے خلاف نہیں جا سکتی اور بالآخر پی پی پی کے ساتھ ہی اپنی
اگلی اننگ کھیلے گی۔جہاں رہی بات نواز لیگ کی اگلی حکمت عملی کی تو فی الحال
اسکو اقتدار کے ایوانوں تک رسائی ملنی مشکل ہے تا وقتیکہ اسٹیبلشمنٹ پی پی پی
کی حمایت سے ہاتھ نہیں کھینچ لیتی یا اسکا ایجنڈا پورا نہیں ہو جاتا۔
اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر انشاﺀ اﷲ اگلی تحریر میں ذکر کروں گا۔
نوٹ: آج کل کے سیاسی منظر نامے میں قارئین سے التماس ہے کہ اخبارات اور نیوز
چینل میں آرمی چیف کیانی صاحب کی سربراہی میں ڈی جی آئی ایس آئی کی امریکہ
یاترا کو پس انداز نہ کریں۔ کیونکہ اس یاترا کے بہت دور رس نتائج سامنے آنے
والے ہیں۔ |