سوشل میڈیا اور سیاست۔۔۔۔

دنیا کے کمپیوٹر انجنیئرز نے انسانی باہم تعلقات اور روابط کو بڑھانے کے رجحان کو محسوس کرتے ہوئے اس سلسلے میں گزشتہ دھائی سے ہی اپنی کوششیں جاری کردی تھیں اور کمپیوٹر کو ایک بہترین تعاون بنانے کیلئے اس میں روز بروز جدت اختیار لائی گئیں ، کم وقت میں کمپیوٹر انجینئرز اپنے اس مقصد کے حصول تک پہنچ گئے یہ سلسلہ پوری دنیا تک پھیل گیا ، یہ حقیقت ہے کہ اُن ممالک نے اس میں زیادہ کام کیا جو معاشی، سیاسی ، سماجی اور اقتصادی طور پر مستحکم تھے جن میں امریکہ، یورپ اور ایشیاءمیں چائنا، جاپان، تائیوان، کوریا خاص کر شامل رہے ۔ پاک و ہند اپنی بد انتظامی ، سیاسی جنگ و جدل اور دشمنی کی بناءپر اس طرف توجہ نہ دے سکے لیکن دو جنگوں سے نہ صرف نقصان سے دوچار ہونا پڑا بلکہ دنیا کی ترقی میں بھی پیچھے رہ گئے با لآخر بھارت اور پاکستان کو احساس ہوگیا کہ دنیا کے ساتھ چلنے کیلئے لڑائی نہیں پڑھائی ضروری ہے اسی احساس نے بھارت کو بہتر اور معیاری تعلیم کی جانب گامزن کردیا مگر پاکستان میں سیاستدانوں نے طلب تعلیم کے باجود عوام الناس میں ایک ایسا گھناﺅنا منفی تعلیمی زہر گھول ڈالا شائد اس کا اثر کبھی ختم ہو یہ زہر رشوت کے عوض پاس کرنا ، نقل کے رجحان کو بڑھانا، سیاسی داخلہ پالیسی کو اجاگر کرنا، ذہین و قابل طالب علموں کیلئے مسلسل رکاوٹ پیدا کرنا معمول بنادیا گیا ہے، سرکاری مدارس کو مکمل تباہ و برباد کرکے غیر سرکاری اسکولوں کو فروغ دینا اور غیر سرکاری مدارس سے بھاری فیسوں کے عوض زیادہ سے زیادہ دولت کمانا ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے جو سلسلہ شروع ہوا اور اب تک جاری ہے بلکہ اس میں کئی قدر منفی اضافہ بھی ہوگیا ہے ۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کے تمام سرکاری مدارس مثالی تھے اور اساتذہ کرام اس شعبہ کو ایمان کی حد تک رکھتے تھے انتہائی جافشانی ، محنت اور لگن سے طالبعلموں کو پڑھاتے تھے ٹیوشن کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ، ان اساتذہ کرام میں ایک بہت بڑی تعداد اُن اساتذہ کرام کی تھی جنھوں نے بھارت کی سب سے بڑی اور معیاری مسلم یونیورسٹی سے تعلم حاصل کی تھی اُس یونیورسٹی کا نام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تھا جس کی بنیاد سر سید احمد خان نے رکھی تھی ۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں علی گڑھ یونیورسٹی کے طالبعلموں کا نام اور مقام بہت اہمیت رکھتا ہے بحرحال قوم پرستی، تعصب و اقربہ پروری نے اس ملک کے تعلیمی نظام کو تہس و نہس کرکے رکھ دیا کیونکہ اب اساتذہ سے لیکر وزیر تعلیم تک رشوت اور بد عنوانی میں مکمل دھنسے ہوئے ہیں ۔ یہاں غریب کیلئے تعلیم نایاب ہوچکی ہے کیونکہ اب تعلیم سب سے بڑا کاروبار بن چکی ہے جس ملک میں تعلیم اور صحت کاروبار بن جائیں وہ ملک جلد تباہی کے دھانے پر پہنچ جاتا ہے بحرکیف پاکستان کے مقابل بھارت میں غریب کی شدت کے باوجود تعلیم اور صحت پر حکومت نے خاص کنٹرول رکھا اور اپنی عوام کو بہتر تعلیم سے آراستہ کیا یہی وجہ ہے کہ بھارت کے شہری تعلیم میں کسی طور پر فرق نہیں رکھتے البتہ پاکستان میں تعلیم کے حصول میں بہت فرق پایا جاتا ہے جو جنتا امیر ہے اُس کا بچہ اسی قدر بہتر ماحول اور بہتر تعلیم حاصل کرسکتا ہے خیر اس سلسلہ میں بات کی جائے تو بہت دور تک چلی جائے گی ، پاکستان میں مہنگی تعلیم کے باوجود یہاں کے طالبعلموں کو اللہ نے بہت صلاحیت سے نوازا ہے اور کئی طالبعلوں نے کئی شعبوں میں بین الاقوامی مقام بھی حاصل کیئے ہیں ان میں متوسط طبقہ کے طالبعلم ہی ہیں۔ یہ بات سامنے آئی ہے کہ متوسط طبقہ کے طالبعلوں کیلئے تعلیم سستی اور آسان کردی جائے تو پاکستان تقیناً بہت جلد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل بھی ہوسکتا ہے ۔پاکستان کے ذہین طالبعلموں میں ارفع کریم، ملالہ یوسف زئی، مجتبیٰ رفیق جیسے ذہانت رکھنے والے طالبعموں نے پاکستان کیلئے اپنی خدمات پیش کرکے نہ صرف پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر عزت دلائی بلکہ ان کی خدمات پاکستان کی تاریخ کا حصہ بھی بن چکی ہیں ۔دور حاضر میں فائبر نیٹ ورک نے پوری دنیا میں روابط کا ایسا کارنامہ پیش کردیا ہے کہ اب کوئی خبر ہو یا واقعہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہ پاتا سب سے بڑھ کر خوبی یہ ہے کہ اس کمپیوٹر کے ذریعے سوشل میڈیا تمام چینل اور اخبارات سے پہلے اور پوشیدہ خبرون، واقعات کو فیس بک، ٹیوٹر ، گگل اور دیگر ویب سائٹ پر آزادانہ پیش کردیتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں غلطی کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ اس سوشل میڈیا کے ذریعے اچھی رائے بھی حاصل ہوتی ہیں اور تنقید برائے اصلاح بھی گوکہ لکھنے والوں کیلئے ایک بہترین پلیٹ فارم بھی ہے ۔دنیا ایک طرف پاکستان کی جو موجودہ حالت ہے اس پر کہنے والوں نے بڑے دل کھول کر اپنے جذبات و احساسات کا مظاہرہ کیا ہے خاص کر سوشل میڈیا میں تاثرات حقیقت کے قریب دیکھ سکتے ہیں ، حکومت اور سیاستدان اس سوشل میڈیا سے خائف ہے کیونکہ اس میں ہر جماعت کا رکن اور عام شخص بھی شامل ہے ، دیکھا یہ گیا ہے کہ کارکنان اپنی اپنی جماعتوں کے قصیدہ لکھنے اور منوانے پر تلے ہوتے ہیں اور عام شہری حقیقت سے ایک ذرہ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا ، انٹرنیٹ کی دنیا نے جہاں تصاویر کی رسائی آسان کردی ہیں وہیں وڈیوز کی اشاعت اور حصول بھی آسان بنادیا ہے گویا اب دنیا مکمل سمیٹ گئی ہو۔ سوشل میڈیا کو مثبت پہلو سے اپنانے سے بہتر نتائج حاصل وہتے ہیں اگر اسے منفی انداز میں اپنایا جاتا ہے تو یہ قوموں کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی وقت نہیں لیتا ، پاکستانی نوجوانوں میں یہ شعور بیدار کرنا ہوگا یہ اس سے ملکی و قومی سطح پر مثبت طریقہ کار سے بہتر تنائج اخذ کیئے جائیں تاکہ پاکستان کی تقدیر بدل سکے اور جمہوری ریاست میں جمہوریت کی اساس کا دم نہ گھٹ سکے اور ہماری نئی نسل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ملکی و قومی وقار کو با عزت بلندی تک پہنچائے ۔ اللہ پاکستان کو با وقار ہمیشہ رکھے آمین۔
Jawaid Siddiqui
About the Author: Jawaid Siddiqui Read More Articles by Jawaid Siddiqui: 310 Articles with 273866 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.