کشمیری مہاجرین اور کشمیر کے لیڈر

عشروں پہلے کہ بات ہے کہ ایک کشمیری جو تحریک آزادی کشمیر کے سلسلے میں آزاد کشمیر /پاکستان ہجرت پر مجبور ہوا تھا،سالہا سال رہنے کے بعدواپس مقبوضہ کشمیر چلا گیا،وہاں جا کر اس نے اپنے وطن میں رہنے کے لئے وہاں کی انتظامیہ کو درخواست دی۔اسی سلسلے میں وہ وہاں کے وزیر اعلٰی بخشی غلام محمد کے پاس ملاقات کے لئے گیا،وہاں ڈی آئی جی بھی بیٹھا ہوا تھا۔تحریک آزادی کے اس سینئر سیاسی کارکن کی درخواست پر بخشی غلام محمد نے کہا کہ تم تو بڑی آزادی کی اور ہمارے خلاف باتیں کرتے تھے ،اب بتاﺅکیا کہتے ہو؟اس شخص نے کہا کہ جب دو فریقوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے تو ایک جیت جاتا ہے اور ایک ہار جاتا ہے،میں ہار گیا ہوں تو اس میں کیا بڑی بات ہے۔اس پر بخشی اور ڈی آئی جی مسکرا دیئے۔
1988ءسے مقبوضہ کشمیر سے کشمیری حریت پسندوں کی آزاد کشمیر آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو ہزاروں کی تعداد میں کشمیری مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر آ گئے۔پھر سالہا سال کے بعد معلوم ہوا کہ کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کی حمایت کرنے والی پاکستان کی انتظامیہ کا مقصدمقبوضہ کشمیر کو بھارت سے آزادی دلانے کے بجائے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں مصروف جنگ کرنا تھا۔اس وقت کے پاکستانی حکام کہتے تھے کہ ” انڈیا بلیڈ کرے گا“،یعنی بھارت کو کٹ لگا لگا کر لہو لہان کر دیا جائے گا۔لیکن بھر دنیا نے دیکھا کہ ارباب اختیار کی یہ پالیسی بھی نہ صرف ناکام ثابت ہوئی بلکہ کشمیریوں کی بے دریغ قربانیوں پر بھی پانی پھیر دیا گیا۔نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دینے کے فیصلے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے مظفر آباد میں تقریر کرتے ہوئے دعوی کیا کہ دہشت گرد ی کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور کشمیر کاز بچا لئے گئے ہیں۔لیکن کشمیریوں کی مسلح جدوجہد کو ”رول بیک“ کرتے ہوئے مسلح جدوجہد کی صلاحیت کو کم از کم سطح تک محدود کر دیا گیا ۔اسی وقت یہ حقیقت بھی بے نقاب ہو گئی کہ کشمیریوں کی مسلح جدوجہد مکمل طور پر کنٹرولڈ“ ہے۔

گزشتہ کچھ عرصہ سے مقبوضہ کشمیر سے آئے افراد کی یہاں سے واپسی شروع ہوئی اور درجنوں افراد اپنے بیوی بچوں سمیت واپس کشمیر چلے گئے۔ایک نئی اطلاع کے مطابق حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے دو میں سے ایک دھڑے کے سیکرٹری اطلاعات شوکت وانی بھی چند دن قبل واپس مقبوضہ کشمیر چلے گئے ہیں۔واپسی کے اس عمل میں پاکستانی اداروں کی طرف سے کوئی رکاوٹ دیکھنے میں نہیں آئی ۔تاہم ایسے بھی کئی کشمیری ہیں جو اسلئے واپس نہیں جا رہے کہ ابھی بھارت کی طرف سے اس سلسلے میں باقاعدہ کوئی پالیسی نہیں ہے،یہ سارا سلسلہ عارضی بنیادوں پہ جاری ہے اور خطرہ محسوس کیا جاتا ہے کہ واپس جانے والے کسی بھی وقت پابند سلاسل ہو سکتے ہیں۔

حریت کانفرنس کی آزاد کشمیر شاخ سیاسی انداز میں1990ءسے آئے تمام مہاجرین کی نمائدہ بنی لیکن نمائندگی کا حق ادا نہ کر سکی۔حریت کانفرنس میں شامل کئی کشمیری نمائندوں نے اپنے بچوں اپنے خاندانوں کا مستقبل تو تابناک بنا لیا لیکن اپنی نمائندگی کا حق مظلوم کشمیریوں کے حق میں ادا نہ کیا۔کئی کشمیری نمائندے تو کاروبار وغیرہ کرتے ہوئے امارت کے درجے پہ پہنچ گئے اور محنت مزدوری کر کے گزر اوقات کرنے والے بڑی تعداد میں ایسے بھی ہیں جو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو ان کے بیوی بچوں کا کون پرسان حال ہو گا۔

آزاد کشمیر کے مہاجر کیمپوں میں مقیم کشمیریوں کا حال دیکھا جائے تو صورتحال کوئی بہتر نظر نہیں آتی۔آزاد کشمیر کے سیاستدان حصول اقتدار برائے مفادات اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں اتنے مشغول ہوئے کہ مہاجرین کا معاملہ ان کی ترجیحات میں اخبار ی بیانات تک ہی محدود ہے۔آزاد کشمیر میں انحطاط پذیری کا عمل بدستور تیزی سے جاری ہے۔مہاجرین کی نہ تو آباد کاری پر توجہ دی گئی اور نہ ہی انہیں مناسب گزارہ الاﺅنس ملتا ہے۔یعنی ان کی زندگی بدستورمشکلات اور غیر یقینی کا شکار ہے۔

انہی دنوں ایک عزیز بس سروس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر اپنے عزیز و اقارب سے ملکر واپس آئے تو انہوں نے تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ کئی لیڈروں کی جائیدادوں کے بارے میں بتایا جس میں کمرشل بلڈنگز اور ہوٹل بھی شامل ہیں۔ ان میںسرینگر میں اعلی ہوٹل رکھنے والے ایسے بھی اشخاص شامل ہیںجو بھارت نہ پاکستان صر ف خود مختاری کے بیانات دیتے اور تقاریر کرتے ہیں۔

پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے مسلسل یہی کہا جاتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سے متعلق روائیتی موقف پر قائم ہیں لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے بارے میں کشمیر کے حوالے سے ایسی مفاہمت ہو چکی ہے جس پر بتدریج عمل درآمد جاری ہے۔

گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران وادی نیلم کے عوام نے عسکری تنظیموں کے خلاف کئی مظاہرے کئے۔اب حال میں ہی ہونے والے ایک مظاہرے میں وہاں کے لوگوں نے کہا کہ اگر بھارت سے جنگ کرنی ہے تو وہ پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کو تیار ہیں لیکن کنڑول لائین پہ عسکری تنظیموں کی بے مقصد کاروائیاں کسی کے مفاد میں نہیں ہیں۔وادی نیلم کے بعض افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض حلقوں کو یہ پسند نہیں کہ وادی نیلم میں موسم گرما میں لاکھوں کی تعداد میں سیاح آئیں،سیاحوں کو ان علاقوں سے دور رکھنے کے لئے بھی اکا دکا سرحدی کاروائیوں کا امکان ہے۔

کشمیری بیچارے کیا کریں یہاں تو خود پاکستانیوں کو معلوم نہیں کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کیا ہے۔نہ جانے پاکستان کی حساس و اہم پالیسیاں کون بناتے ہیں لیکن ان ناقص و ناکام پالیسیوںکا خمیازہ ملک و قوم کو تادیر بھگتنا پڑتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ جب 1988ءسے شروع ہونے والی مسلح جدوجہد آزادی کے آغاز کے بعد لیڈر سطح کے لوگ یہاں آنے شروع ہوئے تو میں نے بھی ان سے گزارش کی کہ آپ پاکستانی حکام کو اپنا معاون ،دوست بنانا لیکن افسوس کہ اس کے بجائے ملازمت اختیار کر لینے کی حکمت عملی اپنالی گئی۔دوستوں،ہمدردوں سے کیا گلہ جب کشمیری لیڈروں نے ہی تمام کشمیریوں کے بجائے اپنے اپنے معاملات سیدھے کرنے شروع کر دیئے۔بقول شاعر
دل کے پھپولے جل اٹھے دل کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

عام کشمیر آج بھی یہ خواب دیکھتا ہے کہ ریاست کشمیر پر حقیقی طور پر کشمیریوں کا اختیار ہو اور اسے بھی اس آزادی کا احسا س ہو جو 1947ءکے بعد دونوں ملکوں کے عوام کو حاصل ہوا۔ لیکن ملازمت اختیار کر لینے والے رہنما کشمیریوں کی نسل در نسل جدوجہد اور قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دونوں ملکوں کی سہولت کاری کو ہی مناسب خیال کرتے ہیں۔تاہم جدید دور کے اس ماحول میں اب دونوں ملکوں کے لئے بہت مشکل ہے کہ وہ کشمیریوں کو دوسرے تیسرے درجے کا شہری ہی بنائے رکھیں۔سیاسی مداریوں کی پٹاریوں میں اب ایسا اکچھ باقی نہیں ہے کہ جسے وہ کشمیریوں کو نکال کر دکھانے کے بہانے اپنی طرف متوجہ رکھنے میں کامیاب ہو سکیں۔لیڈر ’آر‘ کا ہو یا ’پار‘ کا ،میں نے انہیں بکری کے میمنے کی طرح ممیاتے اور گھگیاتے سنا اور دیکھا ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699100 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More