آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ

ارشادِ ربانی ہے ’’اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو‘‘ اس آیت میں جوڑے سے مراد نر و مادہ تو ہے ہی لیکن اسی کے ساتھ زمین و آسمان، دن و رات،زندگی و موت،دنیا و آ خرت ،جنت ودوزخ اور خوشی و غم وغیرہ بھی ہے ۔ گزشتہ ایک ہفتہ کے اہم واقعات پر غور کیا جائے تو شى ت وان میں پہ در پہ خوشی و غم کا پہلو بہت ہی نمایاں ہے مثلاًصباح الدین اور فہیم کی عدالتِ عالیہ سے رہائی ،محمدحسین کی رہائی پر اسی عدالت کے ذریعہ منسوخی ،مایا کندنانی اور بابو بجرنگی کی سزا ئیں،کرناٹک میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں،ارون گاؤلی کو جیل ،ثاقب ناچن کے فرزند کی گرفتاری اورمحمد احمد کاظمی کے خلاف ناقص چارج شیٹ ۔ ان میں سے ہر واقعہ مخلفں نوعیت کاہونے کے ساتھ ساتھ متضاد کیفیت کا حامل ہے ۔

اجمل قصاب کی کی پھانسی پرقومی ذرائع ابلاغ نے جس قدر خوشی منائی گئی ۲۵ سالہ صباح الدین اور ۳۶ سال کےفہیم کی رہائی کوافسوس کے ساتھ حکومت کی ناکامی قرار دیا گیا لیکن امت مسلمہ اور ان کے اہل خانہ نے اس خبر پر اللہ کا شکر ادا کیا ۔ صباح الدین کے والد شبیر احمد مدھوبنی سے قریب گندھوائر گاؤں کی پنچایت سمیتی کے گزشتہ تین میقاتوں رکن منتخب ہوتے چلے آئے ہیں ۔ صباح الدین نے بنگلور سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ۔ تعلیم کے دوران وہ ایک کال سینٹر میں جز وقی ملازمت کرکے اپنے خاندان کا معاشی بوجھ ہلکا کررہاتھاکہ پولس نے اسکو رامپور میں سی آر پی ایف کیمپ پر ہونے والے حملہ کے الزام میں گرفتار کر لیا پھر ممبئی حملہ کا الزام بھی اس پر جڑ دیا ۔ صباح الدین پر انڈین انسٹی ٹیوٹ پر حملہ کا بھی الزام ہے ۔ یہ مقدمہ ابھی شروع بھی نہیں ہو سکا ہے ۔ صباح الدین ممبئی حملہ سے تو بری ہو چکا ہے لیکن وہ دوسرے فرضی مقدمات سے کب بری ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا

زندہ دل اور نرم مزاج فہیم احمد پر الزام یہ تھا کہ اس نے ممبئی کا نقشہ نیپال کے اندر احمد کو دیا اور جواجمل قصاب کے ساتھی ابو اسماعیل کی خون سے لت پت لاش کی جیب میں ملا ۔ پولس نے اپنے اس بے بنیادالزام کے حمایت میں جو نقشہ پیش کیا تھا اس پر خون کا کوئی دھبہ تو درکنار ایک سلوٹ بھی نہیں تھی ۔ دورِ حاضر میں شہروں کے تفصیلی نقشے گوگل ارتھ پر دستیاب ہیں اور اس کیلئے کسی کو نیپال جاکر نقشہ پہنچانے کی ضرورت نہیں ۔ فہیم احمد پر بھی رامپور حملے کا لزام ہے لیکن دہشت گردی کی دفعہ ہنوز اس پر لگائی نہیں گئی ہے ۔ابھی اس مقدمہ میں صرف گواہیاں مکمل ہوئی ہیں فیصلہ باقی ہے اور پھر اس کے خلاف اپیل در اپیل کا سلسلہ کب ختم ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا؟ فہیم احمد دبئی میں رہ کر اپنا گھر چلاتا تھا ۔ اب وہ جیل میں ہے، اس کے اہلِ خانہ کو اپنا مکان بیچنا پڑا ہےاور وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برسوں بعد ہونے والی رہائی سے کیا ان معاشی اور نفسیاتی مظالم کی بھرپائی ہو جائیگی اور جو لوگ اس ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں ان کو اپنے کئے کی کوئی سزا نہیں ملے گی؟
ان فیصلوں سے جہاں عدالتِ عالیہ پر عوام کا اعتماد بحال ہوا وہیں سپریم کورٹ نے محمد حسین کی رہائی کو منسوخ کرکے اپنے اعتماد ٹھیس پہنچانے کا کام ازخود کر ڈالا ۔محمد حسین عرف ذولفقار علی پاکستانی باشندہ ہے اسے ؁۱۹۹۷ کے دہلی دھماکہ میں گرفتار کیا گیا اور وہ ۱۴ سال سے جیل میں ہے ۔ جسٹس دتو اور پرساد نے تسلیم کیا چونکہ ملزم کو وکیل کے حق سے محروم رکھا گیا اس لئے اسے سزا نہیں دی جا سکتی ۔ ان دونوں ججوں کا مستقبل کے لائحہ ٔ عمل پر اختلاف ہوگیا پرساد رہائی کے حق میں تھے اور دتو مقدمہ پھر سے چلانا چاہتے تھے ۔ سپریم کورٹ نے رجوع کرنے پر کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ملزم ۱۴ سال جیل میں گزار چکا ہے معاملے کی سنگینی کے باعث اسے رہا کرنے کے بجائے اس پر ازسرِ نو مقدمہ قائم کیا جائے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نیا مقدمہ کب تک چلے گا ؟اور اگرمحمد حسین بالآخر بے قصور پایا گیا تو اس طویل سزا کی ذمہ داری کس پر آئیگی ؟

اجمل قصاب کی پھانسی پر خوشی منانے والے ہندو انتہا پسندوں کی امیدوں پر احمد آباد کی خصوصی عدالت نے مایا کندنانی اور بابو بجرنگی کو مجرم ٹھہرا کر پانی پھر دیا ۔گزشتہ دس سال سے ظلم کے خلاف لڑنے والے مظلومین کیلئے یقیناً یہ بڑی خوشی کی خبر تھی ۔ گجرات بی جے پی کے ترجمان ویاس نے اس معاملے میں جو صفائی پیش کی وہ نہایت دلچسپ ہے ۔ان کا کہنا یہ ہے کہ جس وقت مایا کندنانی نے یہ جرم کیا اس وقت وہ وزیر نہیں تھیں اس لئے حکومت کو اس کیلئے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ لیکن وہ بیچارے بھول گئے کہ مایا اگر وزیر نہیں بھی تھیں تو بی جے پی کی ایم ایل اے تو تھی ہی تھیں۔ اس لئے ان کی اپنی دلیل کے مطابق اگر مودی حکومت کو نہ سہی تو بی جے پی کو موردِ الزام ٹھہرایا ہی جاسکتا ہے۔ اسی کے ساتھ اگر ایسا ہوا ہوتا کہ وہ اس حادثے سے قبل وزیر رہی ہوتی اور بعد میں اسے ہٹا دیا گیا ہوتا تب توبات بن بھی سکتی تھی مگر اس کے برعکس پہلے وہ وزیر نہیں تھی ، اس ظلم کاارتکاب کرنےکے بعد اسے انعام و اکرام سے نوازکرجس نے وزیر بنایاکیا وہ اس کے جرم میں شریک نہیں ٹھہرتا؟

عدالت نےمایا کے اس الزام کو کہ وہ سیاست کی شکار ہوئی ہے خارج کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے سیاسی رسوخ کے باعث الزا مات بچتی رہی ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ جو خاتون عورتوں اور بچوں کی قاتل ہواسےبچوں اور خواتین کی فلاح وبہبود کا وزیربنانا سفاکی کی انتہا ہے ۔جو خواتین کے امراض کی ماہرطبیبہ اپنی نگرانی میں مادرِ حمل سے بچے کو نکال کر اسے قتل کروادیتی ہے اس سے عورتوں اور بچوں کی فلاح و بہبود کی توقع کی سنگھ پریوار ہی کر سکتا ہے ۔ مودی یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ اجمل قصاب چونکہ پاکستانی ہے اس لئے پاکستان دہشت گردوں کا سرپرست ہے اور اس نے حافظ سعید کو پناہ دے رکھی ہے اس لئے وہ جرم میں شریک ہے ۔ اسی منطق کے مطابق مایا کی سرپرستی کرنے والا اور بجرنگی کو پناہ دینے والا مودی ازخود مجرم ٹھہرتا۔ مایا کے خلاف فیصلے کے بعد نئی دنیا میں ’’اگر میں مجرم ہوں تو مجھے پھانسی چڑھا دو‘‘ کہنے والے مودی کی زبان گنگ ہوگئی ۔

اجمل نے اپنےابواسماعیل کے ساتھ ۵۹ لوگوں کو ہلاک کیا مایا نے بجرنگی کے ساتھ ۹۷ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ۔اس پر طرہ یہ کہ بجرنگی نے بڑے فخر سے اعتراف کیا کہ مہارانا پرتاب نے جو عظیم کارنامہ کیا تھا میں نے اس کا اعادہ کیا ہے اس کے باوجود وہ پھانسی سے بچ گیا اس بات کا افسوس بہرحال ہر انصاف پسند شہری کو ہواہوگا۔ بال ٹھاکرے جیسے لوگ جواجمل کو فی الفور پھانسی دینے کا مطالبہ کررہے تھے اس بابت چپی سادھ لی ۔ ویسے ان ظالموں کے پاس اب بھی عدالتِ عالیہ سے رجوع کرنے کا حق ہے ۔ سجن کمار کا معاملہ سب کے سامنے ہے ۔اس پر ؁۱۹۸۴ میں سکھوں کے قتل عام کا لزام ہے ۔ ؁۲۰۱۰ میں اس کے خلاف سی بی آئی نے چارج شیٹ داخل کی اس کے باوجود معاملہ ہنوز گھسٹ رہا ہے ۔ ابھی مقدمہ ٹرائل کورٹ سے ہائی کورٹ میں آیا ہے یہ کب سپریم کورٹ میں پہنچے گا۔ اس کے بارے میں کچھ بھی کہا نہیں جاسکتا ۔مایا اور بجرنگی بھی کب تک قانون سے کھلواڑ کریں گے یہ بھی وقت ہی بتائے گا ۔

فہیم انصاری کے معاملے میں ان کے اہل خانہ اور ابوعاصم اعظمی نے پولس کو سزا دینے اور ہرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے مطالبات کا پولس پر کوئی اثر نہیں ہوتا ورنہ کرناٹک میں ہونے والی تازہ گرفتاریوں کا سلسلہ پھیل کر مہاراشٹر تک نہیں پہنچتا ۔ گرفتار شدگان میں قومی تجربہ گاہ ڈی آرڈی او کے سائنسدان کےعلاوہ ڈکن ہیرالڈ کا صحافہ مطیع الرحمٰن بھی شامل ہے ۔ اس بار پاکستان کے بجائے سعودی عرب میں موجود کسی نا معلوم فرد کو ان کا سر غنہ بنایا جارہا ہے ۔ یہ تازہ گرفتاریاں اس بات کا ثبوت ہے کہ انتظامیہ نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ انتظامیہ پر اس لئے بھی شک ہوتا ہے کہ ان تعلیم یافتہ نوجوانوں پر اس سے پہلے ایسا کوئی الزام نہیں تھا ۔ پولس نے یہی کچھ دہلی کے آمر خان کے ساتھ بھی کیا جو حال ہی میں ۱۴ سال کی قیدو بند کے بعد بے قصور رہا ہوا ہے ۔ اس دوران اس کے والد کا حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال ہو گیا اور ماں پر فالج کا دورہ پڑ گیا ۔ گاندھی کے عدم تشدد پرمضمون لکھ کر اول انعام پانے والے آمر نےرہا ہونے کے چودہ سال بعد تاروں کو دیکھا تھا ۔

ان اندوہناک خبروں کے درمیان ایک خوشخبری ممبئی سے آئی جس میں مولانا ضیاالدین بخاری کے قاتل ارون گاولی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ ارون گاؤلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے ریاستی مجلسِ قانون ساز کا رکن بن گیا تھا اس کی بیوی میونسپل کاؤنسلر تھی ۔ وہ داؤد اور چھوٹا راجن کو چیلنج کیا کرتا تھا کہ پردیس میں رہ کر غنڈہ گردی کرنا کون سی بڑی بات ہے اگر دم ہے تو یہاں آکر گینگ چلاؤ ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب گاؤلی کو سینا بھاجپ کی سرپرستی حاصل تھی لیکن آگے چل کر اس پر شیوسینا کےرمیش مورے اور جینت جادھوکے کا قتل کاالزام لگا ۔بالآخراسےسزا شیوسینک کارپوریٹر کملاکر کے قتل کی ملی ۔ اسی غنڈے نے جیل میں بیٹھ کر اپنے ساتھی نرسالے کی مدد سے مولانا ضیاالدین کو جان بحق کرنے کی سازش رچی تھی ۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ بخاری جیسے مقبول و معروف رہنما کے قاتل ان کے سابق وزیر دفاع شرد پوار سے قریبی تعلقات کے باوجوداس وقت سزا سے بچ نکلے تھے ۔

مہاراشٹر کی پولیس نے جہاں ارون گاؤلی کو سزا دلانے میں اہم کردار ادا کیا وہیں ان لوگوں نے اس ہفتہ ثاقب ناچن کے فرزند اور بھتیجے کو دہشت گردی کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا ۔ شامل ناچن انجینئرنگ کا طالب علم ہے ۔ خود ثاقب ناچن کوبجرنگ دل کے وکیل منوج رائچا پر فائرنگ کے الزام میں اسی ماہ گرفتار کیا جا چکا ہے ۔ اس سے پہلے ؁۲۰۰۲ میں وشوہندو پریشد کے رہنما للت جین کے قتل کیس میں ایک فرضی مقدمہ بنا کر انہیں گرفتار کیا گیا تھا جس سے ؁۲۰۰۶ میں وہ بری کر دئیے گئے اس بار محض الزام کی بنیا د پر نہ صرف ان کی بلکہ ان کے معصوم بچوں کی گرفتاری ظلم کی انتہا ہے ۔گزشتہ سالوں کے اندر ممبئی میں ہونے والے تمام ہی دھماکوں میں ثاقب ناچن کو ملوث کرنے کی کوشش ممبئی پولس کرتی رہی ہے لیکن کسی ایک میں بھی وہ انہیں سزا دلانے میں کامیاب نہیں ہو سکی اس لئے کہ بلاثبوت الزامات لگا کر کسی کو جیل میں لے جانا جس قدر آسان ہے عدالت میں ٹھوس شواہد فراہم کر کے اسے ثابت کرنا اتنا ہی مشکل کام ہے ۔

اس طویل عرصہ میں ثاقب اپنی وکالت خود کرنے لگے ہیں اور پولس کے سارے الزامات کو غلط ثابت کر دیتے ہیں لیکن انتظامیہ اپنی غیر ذمہ دارانہ حرکات سے باز نہیں آتا ۔ ایک مر تبہ ایسا بھی ہوچکا ہے کہ انکاؤنٹر اسپیشلسٹ پردیپ شرما اور سچن وزےانہیں گرفتار کرنے کا بہانہ کرکے پڑگھا پہنچ گئے لیکن گاؤں والوں نے پولس درندوں کے ناپاک رادوں کو ناکام بنا دیا ۔ یہ وہی سچن وزے ہے جسے خواجہ یونس کے معاملہ میں تین پولس والوں کے ساتھ قتل کے الزام گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں پولس والوں نے وزے کو ضمانت پر رہا کروا کر کیس کمزور کر دیا ۔گھاٹکوپر بلاسٹ کی تحقیقات کرنے والے پردیپ شرما اور سریدھر واگھل کو تیلگی کی مدد کرنے کے الزام میں معطل کر دیا گیا ۔گھاٹکوپر بلاسٹ کیس میں سرکاری وکیل روہنی سالیان نے اعتراف کیا تھا کہ پڑگھا کے کسی شخص کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملابعد میں اے ٹی ایس اورکرائم برانچ پر سیاسی رسہ کشی کا الزام لگا کر وہ مقدمہ سے الگ ہو گئیں ۔

انتظامیہ پے درپے غلطیاں کرتا چلا جاتا مگر اپنی روش سے باز سے نہیں آتا اس لئے کہ اسے اپنے کئے کی کوئی سزا نہیں ملتی ۔اس امر کا ایک اور ثبوت اسی ہفتہ سیدمحمد احمد کاظمی کے خلاف داٖل کی جانے والی ناقص چارج شیٹ ہے۔یہ دستاویز انتظامیہ کے ۶ ماہ کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ اس کی عیوب قابلِ شرم ہیں۔مثلاً ہوشنگ ایرانی نامی ملزم پر کا ظمی کے رابطہ کا الزام ہے لیکن تاریخ اور مدت کی تفصیل چارج شیٹ میں درج نہیں ہے ۔ چشم دید گواہ گوپال کرشنن کا بیان لال موٹر سائکلا کا ذکر کرتا ہے پولس نے کالی موٹر سائیکل کو قبضہ میں لے کردھماکے میں اس کے استعمال کا الزام لگایا ہے ۔ پولس نے پریس کانفرنس میں الزام لگایاتھا کہ کاظمی کو ؁۲۰۱۰ میں حملہ کرنے کیلئے کہا گیا اور اس کیلئے ۲۱ لاکھ کی رقم باہر سے بھیجی گئی ۔ چارج شیٹ کے مطابق ۷۰ ہزار کی رقم کاا ندراج ملا جو کاظمی کے داماد نے؁۲۰۰۹ میں بھجوائی تھی ۔ چارج شیٹ کے مطابق ہوٹل ہائی فائی میں ایرانی حملہ آور ۱۳ فروی تک ٹھہرے ہوئے تھےاور پولس کو اس کا پتہ ۲۶ فروری کو چلا نیز ۱۳ مارچ ان کے کمرہ نمبر ۳۰۵ سے آتش گیر مادہ ملا قابلِ غور یہ ہے کہ اس دوران سارا ہوٹل مہمانوں سے پر تھا لیکن یہ کمرہ کسی کو نہیں دیا گیا ۔ ایسا کیوں ہوا یہ کوئی نہیں جانتا ؟ ایرانی حملہ آوروں کو اسرائیلی سفارتخانے تک لے جانے کا الزام تو پولس نے کاظمی پر لگا دیا لیکن ان کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکی ۔ اس لئے امید تو یہی ہے کہ ماضی کے واقعات کی طرح کاظمی رہا ہو جائیں گے لیکن جو لوگ اس طرح کے بے بنیاد الزامات لگا کر معصوم شہریوں کو پریشان کرتے ہیں کیا انہیں کوئی سزا کبھی نہیں ہو گی ؟ جب تک ایسا نہیں ہوگا یہ غیر ذمہ دارانہ سرگرمیاں جاری رہیں گی ۔

اس طرح کی صورتحال میں جبکہ یکے بعد دیگرے غم اور خوشی کی خبریں آرہی ہیں اہلِ ایمان کا رویہ کیا ہونا چاہئے اس جانب قرآن ِمجید کی یہ آیات ہماری رہنمائی کرتی ہے ’’کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے ۔(یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جاؤ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں‘‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان واقعات سے نہ ہی ہم دل شکستہ اور مایوس نہ پھول کر کپا ّ ہو جائیں بلکہ صبر و شکر کی مومنانہ شان کے ساتھ انہیں انگیز کرتے چلے جائیں ۔اس لئے کہ بقول شاعر ؎
یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450511 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.