شریف بردران کو نااہل قرار دلوا
کر اور صوبہ پنجاب میں گورنر داری قائم کر کے پی پی کی حکومت نے یہ ثابت کر دیا
ہے کہ وہ کسی بھی صورت کسی دوسرے کو حکومت نہیں کرنے دے گی- پی پی کی اس حرکت
نے نہ صرف یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مصالحت کی سیاست کی بجائے محاذ آرائی کی
سیاست پر یقین رکھتی ہے ایک طرف تو مسلم لیگ (ن)کے ساتھ مل کر چلنے کے وعدے
کرتی رہی- تاہم اپنے ہر وعدے سے انحراف کیا بلکہ اب محاذ آرائی پر اتر آئی ہے-
پیپلزپارٹی کہنے کو تو اپنے آپ کو جمہوری پارٹی کہتی ہے-تاہم اقتدار کا معاملہ
ہوتا ہے تو وہ ملک توڑ دیتی ہے مگر دوسرے کا جمہوری حق تسلیم نہیں کرتی
موجودہ بحران پیدا کر کے پی پی پنجاب میں حکومت حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کے
ناجائز طریقے استعمال کر رہی ہے- پی پی والوں کا یہ کہنا کے نااہلی کا فیصلہ
عدالتی ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ عدالتوں پر کون اعتبار کر رہا ہے عدلیہ کی ٢نومبر
کی پوزیشن پر بحالی تحریک کو پاکستانی عوام کی حمایت حاصل ہے-پی پی بھی
اقتدارمیں آنے سے پہلے ججوں کی بحالی کی مومنٹ کا حصہ بنی رہی- مگر برسراقتدار
آ کر اس سے انحراف کرنا شروع کردیا، وعدے تو بہت کیے مگر کسی پر بھی قائم نہ
رہی- موجودہ عدلیہ میں بہت سے ایسے جج شامل ہیں جن کا تعلق پی پی سے رہا ہے-اس
سے ثابت ہے کہ پی پی آزاد اداروں پر یقین نہیں رکھتی-اور عدلیہ بحالی تحریک میں
شمولیت پیپلز پارٹی نے صرف برسر اقتدار آنے کے لیے کی
اگر پیپلز پارٹی نااہلی کیس کے فیصلے میں ملوث نہ ہوتی تو وہ گورنر راج نافذ نہ
کرتی-اور اسمبلی کو نیا قائدے ایوان منتخب کرنے کا موقع فراہم کرتی- لیکن چونکہ
پیپلزپارٹی والے اپنی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں- اور ان کے پاس مطلوبہ
تعداد بھی موجود نہیں-اس کے لیے ان کو وقت چاہیے اور وہ بھی روپے پیسے کے زور
پر ممبران کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے
پنجاب میں حکومت پر اس وقت کنٹرول حاصل کرنے کا ایک مقصد وکلاء تحریک کو ناکام
بنانا ہے- لیکن شاید پی پی یہ بھول گئے ہیں- کہ مشرف کے دور میں بھی وکلاء
تحریک کو روکا نہیں جاسکا تھا-اب یہ تحریک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے-
اس لیے اس کو روکنا ممکن نہیں-اب پی پی کے پاس وقت ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی
پاسداری کر کے اپنی ساکھ بحال کر لے |