کافی شور ،ہنگامہ اور سیاست کے
دوران آخر کار حکومت دہلی نے917 غیر قانونی کالونیوں کو مستقل کئے جانے کا
اعلان کردیا اور ساتھ ہی اس بات کی یقین دہانی بھی کرادی کہ 600 اور ایسی
ہی کالونیاں جلد ہی منظور کی جا سکتی ہیں۔ ان کالونیوں میں رہنے والے 40
لاکھ لوگوں کی خوشی کا ٹھکانا نہیں کیونکہ اپنی زندگی کی ساری کمائی خرچ کر
کے انہوں نے سر چھپانے کا ٹھکانا بنایاتھا۔ وزیر اعلی شیلا دکشت نے وزراءکے
ساتھ میٹنگ کے بعد باضابطہ طور پر سرکاری اعلان کر دیا۔ اس دوران وزیر اعلی
نے صاف کیا کہ کوئی بھی کالونی توڑی نہیں جائے گی۔ قانونی طور پر پکا کام
کرنے سے ریگولیشن میں تاخیر ہوئی ہے تاہم اب عدالت میں یہ معاملہ نہیں جائے
گا۔شیلا دکشت نے بتایا کہ اے ایس آئی اور محکمہ جنگلات کی زمین پرکالونیوں
کےلئے جو بھی تبدیلی کرنے پڑے وہ کئے جائیں گے اس کا وعدہ مرکزی وزیر شہری
ترقیات کملناتھ نے کیا ہے ،ان کے بقول کا لونیاں پہلے آباد ہوئیں، جب کہ اے
ایس آئی قانون بعد میں آیا ہے، اندرا گاندھی نے 612کالونیوں کو اسی طر ح
مستقل کیا تھا، اس کے بعد راجیو گاندھی نے 400کالونیوں کو ترقیاتی کاموں کے
لئے منظوری دی۔ اسی طرح ہم ان کالونیوں کا ریگولیشن کر رہے ہیں۔ غیر
مجازکالونیوں کے ریگولیشن کی اطلاع نکلنے کے بعد جو بھی کام باقی ہیں انہیں
جلد ہی مکمل کیا جائے گا۔ کالونی ریگولیشن کا اختیار حکومت دہلی کا ہے۔
نوٹیفکیشن کے بعد ایم سی ڈی ،ڈی ڈی اے ،پی ڈبلیو ڈی کوئی اڑنگا نہیں لگائے
گا۔ ان کا کام ترقی امور کو انجام دینا ہے۔ شہری ترقی کی وزارت سے منظوری
لے لی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کی پارٹی کہتی تھی کہ ریگولیشن
نہیں ہوگا۔ ہم نے کر دیا ہے۔ کوئی دھوکہ نہیں دیا سب کچھ درست کرنے میں
تاخیر ہوئی۔وزیر اعلی نے اس کے لئے ڈاکٹر اشوک کمار والیہ کا خاص طور پر
شکریہ ادا کیااور کہا انہوں نے جس طرح کام کیا ہے اس میں میرا یقین ہے کہ
اس پر اب کورٹ کا کوئی فیصلہ نہیں آئے گا۔اس درمیان وزیر اعلی نے یہ بھی
کہا ہے کہ دہلی کی 45 بازابادکاری کالونیوں پر بھی مرکزی وزیر شہری ترقیات
سے بات چیت کی گئی ہے۔ وزارت اصولی طور پر مالکانہ حق دینے پر متفق ہے۔جو
بھی دقت ہے اس بارے میں مرکزی کابینہ کے سامنے تجویز لے کر جائیں گے۔ امید
ہے ہمیں کامیابی ملے گی ۔
اس میں کوئی شک نہیں چمچماتی سڑکیں، درجنوں فلائی اوور،آسمان کو چھوتی
عمارتیں، بڑے بڑے مال، اسکول کالجوں اور ہسپتالوں کی بھر مار جیسی سہولیات
کوشمار کر دہلی کو عالمی سطح کے شہر قرار دینے کی سرکاری کوشش جاری ہے۔
لیکن اس چمک دمک کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شہر کی آدھی سے زیادہ آبادی یہاں
کی غیر مجازکالونیوں، بازابادکاری کالونیوں اور جھگی جھونپڑیوں میں رہتی ہے۔
ابھی بھی ایسی کم از کم 600کالونیوں کو مستقل کیا جانا ہے ۔سال 2011 کی
مردم شماری کے مطابق 1.67 کروڑ آبادی والے اس شہر میں اکیلے غیر مجازی کا
لونیوں میں تقریبا 50 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔دہلی میں غیر قانونی کالونیوں کی
بساوٹ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کی ابتدا آزادی کے ایک دہائی بعد ہی
شروع ہو گئی تھی۔ دہائیوں سے ان کا استعمال ووٹ بینک کے طور ہوتا رہا۔ان
کالونیوں کو باضابطہ کرنے کے وعدے کر، حکومتیں ووٹ بٹورتی آئی ہیں۔لیکن بڑا
سوال یہ ہے کہ آخر ان کالونیوں کو کب مستقل کیا جائے گا۔ ظاہری طور پر بھی
شہر کی سیاست میں ان کا نایاب کردار رہا ہے۔راجدھانی کے منصوبہ بند ترقی کے
لئے سال 1957 میں دہلی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کی تشکیل کی گئی۔ لیکن
اس وقت تک کافی تعداد میں غیر قانونی کالونیاں بس چکی تھیں۔اس بات کی تصدیق
کے لئے مرکزی حکومت کے اس فیصلے کو یاد کیا جا سکتا ہے جب سال 1962-63 میں
شہر کی 103 کالونیاں کو پہلی بار مستقل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ نئی نئی غیر
مجاز کالونیاں کا بسنا جاری رہا اور سن 1977 میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا
گاندھی کی ہدایت پر کالونیوں کو مستقل کیا گیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ابھی بھی
1639کالونیوں میں سے600 کالونیاں غیر مجازی ہیں جنہیں مستقل کیا جانا ہے۔یہ
تعداد تھوڑی موڑی نہیں ہے۔ یہاں پر اتنی بڑی تعداد میں دہلی میں غیر قانونی
کالونیاںکیوں بس گئیں اور انہیں بسانے والے کون لوگ تھے، یہ بھی جاننا
ضروری ہے۔ اسکیموںکی اور سیاسی ماہرین کی مانیں، تو پہلی بات یہ تھی کہ
مکانوں کے معاملے میں مانگ اور سپلائی کا اصول لاگو ہوا۔ڈی ڈی اے بڑھتی
ہوئی آبادی کے قابل مکان بنانے میں ناکام رہا۔ دوسری جانب روزی روزگار اور
بہتر مستقبل کی تلاش میں بہار، اتر پردیش، اڑیسہ، راجستھان، ہریانہ سمیت
دیگر صوبوں کے لوگ آ کر دہلی میں بستے چلے گئے۔غیر مجاز کالونیاں کو بسانے
میں شہر کے زمین مافیا نے بھی اہم کردار ادا کیا اور ووٹوں کے لالچ میں
رہنماو ¿ں نے بھی ان سے رابطہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیڈروں کے لئے
کالونیوں کے لوگ مستقل طور پر ووٹ بینک بن گئے جبکہ مافیا نے کالونیاں کاٹ
کاٹ کر اربوں روپے کی جائیداد بنا لی۔لیڈروں کی شہ پر مافیا نے ڈی ڈی اے اے
ایس آئی (ہندوستانی آثار قدیمہ سروے)، محکمہ جنگلات، ریلوے سمیت مختلف
سرکاری محکموں کی خالی پڑی زمینوں پر بھی راتوں رات کالونیاں بنوا دیں۔ آج
بھی دہلی کی تقریبا دو سو غیر قانونی کالونیاں محکمہ جنگلات اوراے ایس آئی
کی زمین پر آباد ہیں۔غیر قانونی کالونیوں کے بننے میں یہاں کی مقامی سیاست
کا بڑا تعاون رہا۔ خاص طور پر سال 1993 میں دہلی میں ریاستی حکومت کے قیام
کے بعد اس معاملے میں سیاست نے مزید زور پکڑا۔ غیر سرکاری تنظیم کامن کاز
اس معاملے کو لے کر دہلی ہائی کورٹ پہنچی اور عدالتی کارروائی کی سماعت کے
دوران ایک موقع وہ بھی آیا جب اگست، 1998 میں دہلی کے اس وقت کے وزیر اعلی
صاحب سنگھ ورما خود ہی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ سال 1998 کے آخر میں ہونے
والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو شکست دے کر کانگریس نے شیلا دکشت کی
قیادت میں دہلی میں اپنی حکومت بنائی۔ اس کے بعد سے غیر قانونی کالونیوں کے
مستقل کئے جانے کی بحث اور تیز ہو گئی کیونکہ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ
کانگریس کو اقتدار دلانے میں اس وقت مہنگائی کا کردار تو تھی ہی لیکن یہ
بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت ان غیر مجاز کالونیوںو میں رہنے والوں نے بھی
کانگریس کے حق میں جم کر ووٹ دیا۔ اس وقت تک شہر میں غیر قانونی کالونیوں
کی تعداد 1071 تک ہی محدود تھی۔ دس سال بیت گئے، اس دوران کانگریس نے ایک
اور اسمبلی انتخابات بھی جیت لیا، کالونیوں کی تعداد 1071 سے بڑھ کر 1639
ہو گئی لیکن ایک بھی کالونی باقاعدہ نہیں کی جا سکی۔ البتہ، ان کالونیوں
میں بجلی، پانی، سڑک وغیرہ کی سہولیات ضرور بحال کر دی گئی۔سال 2008 کے
اسمبلی انتخابات سے پہلے سیاسی حلقوں میں یہ بحث بہت گرم تھی کہ بی جے پی
اس الیکشن میں کانگریس کو شکست دے گی۔ لیکن انتخابات کے تقریبا دو ماہ پہلے
ستمبر، 2008 میں ریاست کی کانگریس حکومت نے مرکزی حکومت کے تعاون سے شہر کی
تقریبا 1200 کالونیوںکو مستقل کئے جانے کا عارضی اسناد تقسیم کرنے کا اعلان
کیا اور متحدہ ترقی پسند اتحاد کی سربراہ سونیا گاندھی کے ہاتھوں یہ اسناد
بٹوا بھی دیے گئے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ شکست کی بحث کے درمیان بھی اسمبلی انتخابات میں
کانگریس کی جیت کی یہ سب سے بڑی وجہ تھی۔کیونکہ یہ پہلا موقع تھا جب ان غیر
مجازکالونیوںکے حق میںکوئی سرکاری دستاویزہاتھ آ گیا۔شاید اسی وجہ سے اب کی
بی جے پی نے بھی موقع ہاتھ سے نہ گنوا تے ہوئے لفظی حملہ شروع کردیا۔ دہلی
حکومت کی جانب سے 917 غیر قانونی بستیوں کو ریاستی انتخابات کے قریب آنے کی
وجہ سے جلدی میں کیا گیا فیصلہ قرار دیتے ہوئے اپوزیشن نے کہا کہ مستقل کئے
جانے کے ساتھ ہی ساتھ زمین کے استعمال میں تبدیلی بھی ضروری ہے۔بھارتیہ
جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قومی جنرل سکریٹری وجے گوئل نے کہا کہ ان بستیوں
کو بہت پہلے ہی مستقل ہو جانا چاہئے تھا۔ انتخابات سے ایک بار پھر پہلے ان
بستیوں کو مستقل کرنے کے اعلان کا حشر سال 2008 کے اسمبلی انتخابات سے قبل
عارضی سند فراہم کرنے والا نہیں ہو۔ اگر حکومت نے یہ فیصلہ اگلے سال ہونے
والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر لیا ہے تو یہ ایک بار پھر چالیس لاکھ
لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہوگا۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ سب حقائق کی پختہ
تفتیش کے بعد ہی لوگوں کو خواب دکھائے۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ
ان بستیوں کی رےزےڈنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کو اعتماد میں لے اور بنیادی
سہولیات کی فراہمی کی بابت ا]نا رخ واضح کرے۔انہوں نے کہا کہ 1218 میں سے
917 بستیوں کو باقاعدگی سے کیا جا رہا ہے تو باقی 301 بستیوں کا کیا ہوگا۔
گوئل نے کہا کہ اچھا ہوتا حکومت 6 ستمبر کو ہائی کورٹ میں غیر قانونی
بستیوں کی سماعت کا انتظار کر لیتی۔حکومت تو یہ دکھانے میں لگی ہے کہ عدالت
نے روک دیا ہم تو بستیوں کو باقاعدہ کرنا چاہتے ہیں۔
معاملہ جو بھی ہو کانگریس نے خواہ یہ فیصلہ الیکشن میں ووٹروں کو لبھانے کے
لئے لیا ہو یا اس کے پس پردہ دہلی کی تصویرمیں تبدیلی حقیقی معنوں میں
مقصود ہو، یہ فیصلہ بہرحال ناکوں چنے چبانے جیسا ہے ،اس لئے کہ کسی بھی
کالونی کو کسی ریاست میں محض قانونی طور پر تسلیم کر لینے سے معاملہ حل
نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے پیچھے اور بھی بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں جن
میں،علاقہ کی حفاظت ،نظم ونسق سے لیکر جملہ ضروریات زندگی کا بہتر ڈھنگ سے
مہیا کرانا بھی شامل ہوتا ہے اور شاید حکومت اسی وجہ سے اب تک بچتی رہی
تھی۔ویسے بھی جن علاقوں کو پہلے سے مستقل کیا گیا تھا وہیں بنیادی سہولیات
کا فقدان تھا ۔کالونی میں بجلی، پانی، سڑک جیسی بنیادی خدمات تک نہیں ہیں ۔
اس کے علاوہ ہائی ٹےشن تاربعض علاقوں کے اوپر سے گزر رہے ہیں جس کی وجہ سے
مسلسل حادثہ کاخطرہ موجودہے۔علاقائی منتظمین ہمیشہ تنگ دامنی کا شکار رہتی
ہیں۔ ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ فنڈ ملتا نہیں کام کس طرح کرائیں۔کچی
کالونیوں والے علاقوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ فنڈ ملتا ہی نہیں کام
کیسے کرائیں۔ان کے کاموں کی فائلیں ایک جگہ سے دوسری جگہ آفسوں کا چکر
لگاتی رہتی ہیں، ابھی بھی جمنا ندی کے کنارے بسی کالونیاں جن میں مسلم
اکثریتی والا علاقہ اوکھلاکاشاہین باغ،ابولفضل،طوبی کالونی،ذاکر نگر کے
علاوہ عثمان پور،گڈھی مانڈو،بھجن پورا،سبھاش وہار اورملن گارڈن چوہان پٹی
وغیرہ شامل ہیں، نئے پلان کے تحت دریا کی زمین کے دائرے میں آ گئی ہیں۔ ان
کالونیوں میں مکانوں کے نقشے پاس نہیں ہوتے اور آبادی بڑھتی جا رہی ہے
۔اوکھلا جیسے جن علاقوں میں کچھ کالونیوں کو مستقل کیا گیا ہے ان میں میں
سڑک، سیور پانی، پارک، اسپتال اور بسیں وغیرہ انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں
ہے۔حکومت اس جانب بھی توجہ دے گی یا نہیں کچھ کہنا مشکل ہے ۔پھر ان علاقوں
کو جن کو مستقل کیا گیا ہے ان کے مکین اب اپنے گھر کا نقشہ پاس کروا سکیں
گے؟،کیا ا ن کالونیوں کے باشندے اب قانونی طور پر رجسٹری کرا کر زمین اور
مکان کی خریدو فروخت کر سکیں گے؟،کیا بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ان
کالونیوں میں مکان، زمین اور دکانوں کو خریدنے اور تعمیر کرنے لے لئے لون
دینا شروع کر دیں گے؟کیا دہلی حکومت ان تمام 917 کالونیوں کا ’اسٹیٹس پیپر‘
جاری کرے گی؟یہ ایک الگ مسئلہ ہے ۔ |