کوٹلی نواب واہنڈوسے پیپلزپارٹی
کے جیالے اورجانباز چودھری عظمت علی کے ڈیرے پران کابھانجا چودھری عرفان گل
اپنے شریک چیئرمین وصدرمملکت آصف علی زرداری اوراپنے حلقہ پی پی99واہنڈوسے
پیپلزپارٹی کے منتخب ممبر پنجاب اسمبلی قیصراقبال سندھوایڈووکیٹ کی وکالت
بڑے پرخلوص اورپرجوش اندازمیں کررہا تھا۔مجھے چودھری عظمت علی کی یہ بات سن
کرشدیدحیرت ہوئی کہ فروری 2008ءکے عام انتخابات میں این اے99کامونکے سے
مسلم لیگ (ن) کے رانانذیراحمدخاں جبکہ ان کے نیچے دونوں صوبائی حلقوں پی
پی99 سے پیپلزپارٹی کے قیصراقبال سندھوایڈووکیٹ اورپی پی100سے پیپلزپارٹی
کے چودھری ذوالفقاربھنڈرجو قیصراقبال سندھوایڈووکیٹ کے پھوپھی زادبھائی ہیں
وہ منتخب ہوئے ۔چودھری عرفان گل کے مطابق ان کاایم پی اے قیصراقبال
سندھوایڈووکیٹ ایک مختلف اورمثبت خصوصیات کاحامل انسان ہے اوراس کااپنے
ووٹرز کے ساتھ سیاسی نہیں بلکہ روحانی اورجذباتی رابطہ ہے جواس کی
شاندارکامیابی کی بنیادبنا اورآئندہ بھی واہنڈوسے قیصراقبال سندھوکی
کامیابی یقینی ہے۔چودھری عظمت علی کے مطابق قیصراقبال سندھوایڈووکیٹ کی
کامیابی میں ان کے بڑ ے مرحوم بھائی چودھری ناصراقبال سندھوجواپنے دور کے
دبنگ طالبعلم رہنما رہے ہیں ،ان کی عوامی شخصیت نے کلیدی کرداراداکیا ۔چودھری
ناصراقبال سندھو کا اپنے چھوٹے بھائی قیصراقبال سندھوایڈووکیٹ کی کامیابی
سے محض چندروزقبل انتقال ہوگیامگرواہنڈو کے عوام نے چودھری ناصراقبال سندھو
کی خدمات کوفراموش نہیں کیااوراپنے اعتماد کاتاج ان کے بھائی قیصراقبال
سندھوایڈووکیٹ کے سرپرسجادیا ۔چودھری عظمت علی کے بقول واہنڈو کے غیورعوام
قیصراقبال سندھوایڈووکیٹ کی کمٹمنٹ اورخدمات کے قدردان ہیں اورانہیں صرف
ووٹ نہیں دیتے بلکہ ان پرنوٹ بھی نچھاورکرتے ہیں ۔اس دوران آنیوالے
انتخابات کے سلسلہ میں بننے والے سیاسی اتحادوں، ووٹ کے تقدس اورووٹرز کی
اہمیت پربحث چھڑ گئی جورات گئے تک جاری رہی ۔
میں نے کہا ووٹ صرف ہمارا آئینی اورجمہوری حق نہیں بلکہ اس کادرست استعمال
ہرایک ووٹرکااخلاقی اورقومی فرض ہے ۔اگرووٹ کوووٹرکے پسندیدہ امیدوار کے
کردارکی شہادت اورضمانت کہا جائے توبیجانہیں ہوگا۔انتخابات میںہرایک ووٹ
بڑی اہمیت کاحامل ہوتا ہے۔ہمارے ایک ایک ووٹ سے امیدوارکامیاب
ہوکرطاقتور،بااختیاراورسرمایہ دار بن جاتے ہیں مگرہمارے ہاں جمہوریت اور
ووٹرزکی حالت زارآج تک نہیں بدلی۔مختلف پارٹیوں کے امیدوارہردوچاریاپانچ
سال بعد ووٹرزکوجانوروں کی طرح ہانک کرپولنگ سٹیشن تک لے جاتے ہیں
اورپھرآئندہ الیکشن تک ان کی طرف پلٹ کربھی نہیں دیکھتے ۔ووٹ ایک مقدس
امانت ہے جومہذب اورمتمدن معاشروں میںصرف اہل اورمستحق امیدواروں کودیا
جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں امیدواراورووٹراپنے اپنے مفادات کیلئے ووٹ خریدتے
اوربیچتے ہیں۔کسی کوووٹ دینے کامطلب ہے آپ اس کے گناہوں اوراس کے اچھے
اقدامات میں برابر کے شریک ہیں ۔نمائندوں کے ہاتھوں ووٹرزکے استعمال اوران
کااستحصال ہونے میں ان کااپناہاتھ ہے کیونکہ وہ اپنے گلی محلے کی نالیاں
بنوانے،سیوریج کی تعمیر یادوسرے معمولی مسائل یااپنے کسی عزیزکی ملازمت
یاضمانت پررہائی کیلئے اپنے ہاتھ کاٹ کران کے حوالے کردیتے ہیں اورمسلسل
پانچ برس تک اپنی اپنی محرومیوں کاجنازہ اپنے کندھوں پراٹھا ئے پھرتے ہیں ۔دوبڑی
سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے یہ تاثرعام ہے کہ اگروہ پارٹیاں کسی کھمبے کوبھی
اپنا پارٹی ٹکٹ دیں گی تووہ بھی جیت جائے گا،میں سمجھتا ہوں یہ بات
ووٹرزاورامیدواروںکیلئے ایک گندی گالی اورمقدس ووٹ کی توہین ہے ۔ یہ تاثر
عوام کے سیاسی شعورکے ساتھ ساتھ امیدواروں کی سیاسی حیثیت اور حمیت کیلئے
بھی ایک بڑاسوالیہ نشان ہے ۔زیادہ ترامیدواروں کو قیادت کے آشیرباد کاگھمنڈ
ہوتا ہے اوروہ کسی بھی قیمت پرپارٹی ٹکٹ کے حصول کواپناہدف بناتے ہیں۔ ایسے
امیدوار ووٹرز کی خوشی غمی میں شریک ہونے کی بجائے صرف پارٹی قیادت کاطواف
اوران کی ضرورت سے زیادہ خوشامدکرتے ہیں ،اپنی اپنی قیادت کوپارٹی فنڈکے
نام پربھاری رقم اور قیمتی تحفے دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں اگرانہیں
انتخابات میںپارٹی ٹکٹ ملی تووہ باآسانی جیت جائیں گے ۔ووٹرز کے حوالے سے
یہ کہا جاتاہے کہ وہ امیدوارکی شخصیت یااس کے کردار کی بجائے صرف اس کی
پارٹی وابستگی کودیکھتے ہیں ۔ووٹرزکواس روش کے نتیجہ میں اپنے بنیادی حقوق
سے محروم ہوناپڑتا ہے۔
جس امیدوارکوہم نے ووٹ دیا اگروہ کامیاب ہونے کے بعدکرپشن کی میراتھن ریس
میں شامل ہوجاتا ہے،اپنے ووٹرزکوتنہاچھوڑدیتاہے ،اگروہ کسی اہم عہدے ،اقتداریاپھرمراعات
سمیت مخصوص فوائد کیلئے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتا ہے ،ملک وقوم سے غداری
کرتا ہے تواس کے ووٹرکی حیثیت سے میں اورآپ بھی اس کے ان سب گناہوں
میںبرابر کے شریک ہیں اگروہ خلوص وایمانداری سے اپنے اہلیان حلقہ کی خدمت
کرتا ہے ،پارلیمنٹ میں اپنامثبت اورتعمیری کرداراداکرتے ہوئے اپنے ووٹرز
اورقومی مفادات کیلئے آوازاٹھاتا ہے توبلاشبہ اس کی نیک نیتی اورنیکیوں
کاثواب اس کے ووٹرزکوبھی ملے گا۔جس طرح انسان کے اچھے کام صدقہ جاریہ کے
زمرے میں آتے ہیں اس طرح ہمارے ہربرے کام اوراقدام کی نحوست کا سایہ بھی
قبورتک ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔ووٹرزکوبیلٹ پیپر پر مہرثبت کرتے ہوئے محض
چندسکینڈ لگتے ہیں جبکہ امیدوارکامیاب ہوکرمسلسل پانچ برس کیلئے اپنے
ووٹرزکی قسمت کا مختارکل بن جاتا ہے۔عوام کے منتخب نمائندے کو وی وی آئی پی
حیثیت مل جاتی ہے جبکہ ووٹرز کاکام صرف انہیں سلیوٹ مارناہوتاہے ۔منتخب
نمائندے کوملازمتوں کاکوٹہ دیاجاتا ہے اوربیچارے ووٹرزاپنے ووٹوں سے منتخب
ہونیوالے نمائندے کورشوت دے کربھی اس سے ملازمت کی بھیک مانگتے ہیں۔فوجی
آمر پرویز مشرف کے دورمیں انتخابات کیلئے بی اے پاس ہونے کی شرط بلاشبہ
بدنیتی اورسیاسی تعصب پرمبنی تھی تاہم اس کے نتیجہ میں کئی سیاستدان بے
نقاب ہوئے اوران میں سے کسی نے اپنی باپردہ بیوی ،کسی نے نوجوان بیٹی،کسی
نے بہو جبکہ کسی نے بھانجی بھتیجی سمیت مختلف عزیزواقارب کومیدان میں
اتارا۔اگریہ شرط عائدنہ ہوتی توشایدان نام نہاداشراف کی تعلیمی قابلیت
کارازفاش نہ ہوتا۔ہمارے ہاںانگوٹھا چھاپ عوامی نمائندہ ہرتقریب میں سٹیج
پربراجمان ہوتا ہے جبکہ پروفیسرز،قانون دان،ڈاکٹرز،اساتذہ ،انجینئرزاورعلماءحضرات
اس کے سامنے درباریوں کی طرح بیٹھنے پرمجبورہوتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں رائج
اپاہج جمہوریت اسلامی تعلیمات کی ضدہے۔یادرہے جس ملک اورمعاشرے میں اپنے
حقیقی ہیروزاوراساتذہ کی عزت کاخیال نہیں رکھا جاتا ان کانام تاریخ کے
اوراق سے مٹ جاتا ہے ۔اسلام میں ایک انسان کو اس کے خاندانی پس
منظراورپارٹی وابستگی کی بجائے صرف اس کے تقویٰ اورکردارکی بنیادپرعوامی
خدمت کیلئے چناجاتا ہے جبکہ اس فراڈجمہوریت میں امیدواراور ووٹرز میں سے
کسی کاکردارنہیں دیکھا جاتا۔اس جمہوریت میں پروفیسرز،ڈاکٹرز،قانون
دان،اساتذہ ،انجینئرزسمیت علماءحضرات کااورغنڈوں،چوروں ،جواریوں سمیت مختلف
سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث افرادکاووٹ ایک برابرہے ۔پاکستان میں معاشرتی
اورمعاشی تعمیروترقی کاجموداس جعلی جمہوریت کاشاخسانہ ہے،عوام اپنے ووٹ کی
پرچی سے اس جمود،استحصالی جمہوریت اورفرسودہ ریاستی نظام کے پرخچے اڑاسکتے
ہیں ورنہ وہ اس ملک میں سراٹھاکر نہیں جی سکتے۔اس جمہوریت نے پاکستان سمیت
دنیا بھر میںموروثی سیاست کوفروغ دیاجبکہ اسلام کی درخشندہ اورتابندہ تاریخ
میں اس قسم کی کوئی مثال نہیں ملتی ،اس جمہوریت میں پاکستان اورہندوستان
میںکرپشن کلچر کوتقویت ملی،اس جمہوریت نے اہلیت اورقابلیت کاقتل عام کیا ،
میرے نزدیک یہ جمہوریت اخلاقیات اورپاکستانیت کیلئے زہرقاتل ہے ۔اسلام میں
اقرباءپروری کی حوصلہ افزائی اورپسندناپسندکے تحت فیصلے کرنے کی اجازت نہیں
ہے مگریہ مغرب زدہ جمہوریت اقرباءپروری کے بغیر پاکستان میںایک قدم نہیں چل
سکتی۔مڈل یامیٹرک پاس حکمران شخصیات ، صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ،گورنرزسمیت
وفاقی یا صوبائی وزراءمختلف تعلیمی شعبہ جات میں ایم اے ،ایم ایس سی ،ایم
بی اے ،ایم سی ایس اورایم بی بی ایس پاس کرنیوالے اورپوزیشن
ہولڈرزکوانعامات اوراپنا ''بھاشن'' دیتے ہیں ۔
ووٹرز الیکشن والے دن اپنے ووٹ کاحق ضروراستعمال کریں مگرقومی سوچ کامظاہرہ
کرتے ہوئے صرف اس امیدوارکوووٹ دیں جس میں وعدے وفاکرنے اورملک وقوم کے حق
اورمفادمیں کچھ کرگزرنے کی اہلیت اورقابلیت ہوجومنتخب ہونے کے بعد صرف اپنی
تجوریاں نہ بھرے بلکہ ملک وقوم کوڈیلیور کرے ۔عوام اس امیدوارکوووٹ دیں
جوذاتی حیثیت میں ان کے اعتماد کامستحق ہو، جو باضمیر، باکردار اورایماندار
ہو۔گھروں کے اندر بیٹھ کر کڑھنے یاتنقیدکرنے سے ہمارے ملک میںتبدیلی نہیں
آئے گی ،اگرپاکستان کی خاموش اکثریت الیکشن والے دن باہرآگئی توبڑے بڑے برج
الٹ جائیں گے اوراس بدنصیب ملک کی کایاپلٹ جائے گی۔میں سمجھتا ہوں پاکستان
میں نظام کی تبدیلی میں خاموش اکثریت رکاوٹ ہے اگروہ ووٹ کاحق استعمال نہیں
کرے گی توپاکستان بحرانستان بنارہے گا ۔عوام ووٹ کاسٹ کرتے وقت سیاسی
پارٹیوںکامنشور نہ دیکھیں بلکہ صرف اورصرف اپنے زندہ ضمیر کی آوازسنیں
اورپاکستان کے حق میں فیصلہ دیں۔ووٹرزکاایک درست قدم اوردوررس فیصلہ
پاکستان کوواقعتا اسلام کاقلعہ بناسکتا ہے جہاں ڈرون حملے نہیں ہوں گے
اورجہاں انسانوں کو بھوک اوربارود سے نہیں مارا جائے گا۔ |