کراچی میں امن کیوں قائم نہیں
ہورہا ؟ ۔ سندھ میں قوم پرست کیا چاہتے ہیں ؟۔ بلوچستان میں بلوچوں کے
تحفظات دور کیوں نہیں ہو رہے ؟ ۔ پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے ہیڈ کواٹر
اور جڑیں مضبوط کیوں ہو رہی ہیں ؟خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے مراکز پر
بیرونی قوتوں کے ساتھ ہم رکابی کے باوجود کامیابی کیوں ممکن نہیں ہو رہی ہے
؟فاٹا اور شمالی وزیر ستان میں فوج آپریشن سے کیوں پس وپش سے کام لے رہی ہے
؟ سوات میں فوج کے جانے کے بعد دوبارہ شدت پسندوں کا خطرہ کیوں موجود ہے ؟شدت
پسند جب چاہتے ہیں طاقت کے اہم ستونوں پر کاری ضرب لگا دینے میں کیوں
کامیاب رہتے ہیں ؟۔ملک بھر میں فرقہ وارانہ، لسانی قتل و غارت کی ہولناک
وبا کیوں پھیلتی جا رہی ہے؟ حساس اداروں کے درمیان رابطوں کا فقدان کیوں ہے
؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے موثر کردار کیوں ادا نہیں کر پا رہے ؟ عدلیہ
نے انتظامی معاملات کیوں سنبھال لئے ہیں ؟ لوڈ شیڈنگ کا عفریت قابو میں
کیوں نہیں آرہا ؟ غیر مسلم پاکستانیوں کو تحفظ کیوں نہیں مل رہا ؟ اغوا
برائے تاوان کی وارداتوں کا سلسلہ کیوں نہیں تھم رہا ؟ بھتہ خوری ، (جگا
ٹیکس) کلچر کا خاتمہ کیوں نہیں کیا جارہا ہے ؟ یہ سب بے یقینی ہی بے یقینی
کیوں ہے ؟ خوف ،بد امنی اور بھوک کا عذاب رب کائنات نے ہم پر کن قوانین کی
روگرادنی کے سبب نازل کئے ہوئے ہیں؟
ہمیں یہ سب کچھ اور بہت کچھ سوچنا ہوگا اور پھر اقتدار کے لئے رسہ کشی میں
مصروف جماعتوں سے بھی پوچھنا ہوگا ۔ سب نے تو انتخابی صف بندیوں کی تیاریاں
شروع کرلیں ہیں اکثر جماعتوں نے تو ابھی سے اپنی پارٹی کے انتخابی امیدوارں
کا اعلان بھی کرنا شروع کردیا ہے ۔بیشتر جماعتوں نے انتخابی اتحاد کے
اعلانات بھی کر دئےے ہیں ۔ حکمران جماعت پیپلز پارٹی آئندہ الیکشن اپنے
پرانے اتحادیوں کے ساتھ مفاہمتی پالیسی کو مزید تقویت دینے کی خوائش مند
نظر آتی ہے جس کا بر ملا اظہار ایوان صدر سے کیا جاتا رہتا ہے۔سب اقتدار کی
خوائش چاہتے ہیں انھیں ان سوالات کے جوابات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ مملکت
میں جو اتنی بُری صورتحال ہے اور قوم غلط پالیسوں کی وجہ سے عدم تحفظ کا
شکار ہیں کیا اس کا سلسلہ آئندہ بھی حکومت برقرار رکھنا چاہتی ہے ؟۔ عوام
کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ ڈرون حملوں کی صورت میں جب چاہے ملکی خود مختاری
پامال کردی جاتی ہے اور اربوں روپوں خرچ لینے والی فوج آخرکچھ کیوں نہیں کر
پاتی ۔ عوام کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ کراچی میں شدت پسندوں کیجانب سے حملے
میں بحریہ کے حساس جاسوسی طیارے تباہ ہوئے اور سمندری حدود غیر محفوظ ہیں
تو اربوں روپے لینے والی بحریہ کی فورس کس طرح بیرونی جارحیت کو روک سکتی
ہے ؟ امریکی فوجی بیڑے کی پاکستانی حدود میں موجودگی کے حوالے سے آئی ایس
پی آر یا حکومت کی جانب سے تاحال کوئی اطمینان بخش تردید تک کا جاری نہ
ہونا الطاف حسین کے انکشاف کو درست ثابت کرتا ہے کہ سمندری حدود میں امریکی
بیڑا جنگی ساز و سامان کے ساتھ موجود ہے ۔اربوں روپے خرچ کرنے والی فضائیہ
پاکستانی حدود میںداخل ہوکر پاک افواج کے جوانوں پر گولہ باری کر جاتی ہے ۔
اہم فوجی مرکز کے قریب ہیلی کاپٹر اسامہ کو مار کر با آسانی چلے جاتے ہیں ۔شدت
پسند قیمتی حساس جاسوسی طیاروں کو نقصان پہنچا جاتے ہیں لیکن یہ ہمارے
شاہین نہ جانے کون سی پہاڑوں پر بسیرا کر رہے ہیں ؟۔ کھربوں روپے لینے والی
جاسوسی ادارے دہشت گردی کی اطلاعات ملنے کے باوجود ا س قدر بے خبر کیوں ہیں
کہ بنوں جیل جیسا انوکھا واقعہ ہوجاتا ہے اور انھیں خبر تک نہیں ہوتی ۔رینجرز
کے ادارے ہوں یا پولیس فورس جرائم کی روک تھام میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں ۔
سندھ کا اتنا برا حال ہے کہ حکمران جماعت کو وزیر داخلہ ہی نہیں مل رہا جو
جرت مندی کا مظاہرہ کرکے سندھ کے غیر مسلم شہریوں کے اغوا ور زبردستی
شادیوں، بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ ، پرچی مافیا ، ڈرگ مافیا اور اسٹریٹ کرائم
کو کنٹرول کرسکے۔وزیر اعلی سندھ اپنی حالت تو سنبھال نہیں سکتے وزرات داخلہ
کے ساتھ متعدد اہم قلم دان رکھ کر بیٹھے ہو ئے ہیں۔پنجاب کے وزیر اعلی نے
تو 50فیصد وازارتیں اپنے پاس رکھنے کا ریکارڈ قائم کر رکھا ہے کہ خیبر
پختونخوا کا تو حال ہی نہ پوچھئے ان سے تو مسجد قاسم خان کے شہاب الدین
صاحب قابومیں نہیں آتے ، خود تو بجلی کے وزیر سے نااہلیت پر استعفی کا
مطالبہ کرتے نہیں تھکتے ، لیکن دوسری جانب ریلوے کی عبرت ناک کارکردگی پر
شرمندہ تک نہیں ہوتے۔بلوچستان کے وزیر اعلی جب اپنے صوبے تک نہیں جا سکتے
تو وہ کیا عوام کے مسائل حل کریں گے۔نئے الیکشن میں سیاسی جماعتیں آخر کیا
منہ لیکر عوام کے سامنے جائیں گے اور عوام اِن کا منہ دیکھنے کیا منہ بنا
نے جائیں گے ۔عوام کے سامنے ان کا انتخابی منشور کیا ہوگا ۔ جو حکومت
بلدیاتی انتخابات کرانے کی اہل نہیں ہے اور نچلی سطح پر عوام کے مسائل حل
کرنے جو قوتیں سنجیدہ نہیں ، انھیں بڑے مسائل یا عوامی تکایف سے کیا سروکار
؟ ۔ اس لئے تو پیر صاحب پگاڑا کہتے نظر آتے ہیںانھیں انتخابات ہوتے نظر
نہیں آتے۔پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی اپنے صوبوں میں
بلدیاتی الیکشن سے شدید خوفزدہ اسی لئے ہیں کیونکہ یہاں انھیں" صوبہ صوبہ"
کی سیاست کھیلنے کاموقع نہیں ملے گا۔ملکی صورتحال اور بین الاقوامی دباﺅ
اور گردگوں صورتحال کے باعث نئے انتخابات میں مستحکم مینڈیٹ حاصل کرنے کا
کوئی امکان نہیں ۔ ہاں عوام کے مسائل میں مزید اضافہ ضرور ممکن ہے اگر عوام
نے اپنی سابقہ روش برقرار رکھتے ہوئے انہی پرانے آزمائے چہروں کو دوبارہ
منتخب کیا توبزدل قیادت کو دوبارہ ووٹ دیکر نہ تو ہم ہم جرت مند قوم بن
سکتے ہیں اور نہ ہی فیصلہ سازی کی کسی قوت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔عوام کو
یہ سب کچھ اپنی بقا ءکے لئے سوچنا ہوگا کہ کروڑوں روپے خرچ کرکے جلسے کرنے
والے غریب عوام کو کس لئے اختیار تقویض کریں گے۔ یہ جماعتیں جتنا خرچ اپنے
سیاسی جلسوں کے انعقاد پر کرتی رہی ہیں اگریہ تمام پیسے رفاعی کاموں پر خرچ
کرتے یا بیرونی قرض ہی اتار دےتے تو آج پاکستانی قوم بیرونی آقاﺅں کی غلام
نہیں ہوتی۔جاگیرداروں ، سرمایہ داروں، وڈیروں ، خوانین اور پیشہ ور سیاست
دانوں کو اگر عوام ماضی کی طرح منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتی رہے گی تو
پھر عوام کبھی بھی مراعات یافتہ بھیڑیا نما طبقے کے حلق سے اپنے لئے دو
نوالے حق کے نام پر نہیںحاصل کرسکیں۔اگر عوام کو اپنی روش تبدیل نہیں کرنی
تو تحریک انصاف کے جلسوں میں شرکا ءکا حال دیکھ لیں کہ کس طرح بھکاریوں کی
طرح بریانی ان پر ڈنڈوں کے ساتھ پھینکی جاتی ہے اور صرف ایک تھیلی کےلئے
انھیں کس قدرذلالت سہنے پڑتی ہے ۔ اب آپ کی مرضی کہ مڈل کلاس اور اپنی صفوں
سے باشعور لوگوں کے ہاتھوں میں اپنی معیشت کی تقدیر دینی ہے یا پھر سوچ لیں
کہ خدا کو کیا منہ دکھائیں گے ؟؟؟؟۔۔۔ |