شہرِ قائد میں وحشتوں کا رقص
بدستور جاری ہے۔ بد امنی و بدانتظامی نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا
ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ایک عرصے سے جاری ہیں، ایک دن میں اوسطاً 10 سے
15 انسانی جانیں بدامنی کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ اس صورت حال پر حکمرانوں اور
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یوں لاتعلقی اختیار کی ہوئی ہے جیسے کچھ
ہوا ہی نہ ہو۔
ایک قومی معاصر نے یہ افسوس ناک رپورٹ شائع کی ہے کہ پیپلزپارٹی کے ساڑھے 4
سالہ دور حکومت میں کراچی میں اس کے 425 کارکنان ٹارگٹ کلنگ میںمارے جاچکے
ہیں، اس میں سندھ کونسل کے 4 ارکان بھی شامل ہیں ۔جب کہ رواں سال اب تک پی
پی پی کے 108 کارکن قتل ہوچکے ہیں۔
علاوہ ازیں ماہ اگست کے دوران 175 افراد اپنی جانیں گنواچکے ہیں، جن میں 45
سیاسی کارکنان سمیت رینجرز و پولیس اہلکار اور خواتین بھی شامل ہیں،جب کہ
2012ءکے 8 ماہ میں 1250 افراد حکمرانوں کی بے حسی اور دہشت گردوں کی درندگی
کا شکار ہوئے۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جن حکمرانوں کی اپنے جیالوں کی
حفاظت کے حوالے سے بے بسی کا یہ عالم ہو وہ دوسرے شہریوںکے تحفظ و سلامتی
کیسے کرسکتی ہے؟ پیپلزپارٹی کراچی ڈویژن کے صدر ایم این اے قادر پٹیل کی
جانب سے کارکنوں کے قتل میں ایم کیو ایم کے ملوث ہونے کے بیان پر اتحادی
جماعت ناراض ہوگئی ،جس کے بعد اس نے پیپلزپارٹی سے شدید احتجاج کیا۔ ایم
کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن رضا ہارون نے بھی پریس کانفرنس میں کہا کہ
ہمارے کارکنوں کو چن چن کر قتل کیا جارہاہے، صدر، وزیراعظم نوٹس لیں۔ سندھ
کی حکمران اتحادی جماعتوں میں اختلافات بڑھنے کے پیش نظر صدر زرداری نے
تہران سے کراچی پہنچتے ہی پی پی کے رہنماﺅں کو اتحادی جماعت کے خلاف بیان
بازی سے روک دیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ایم این اے قادر پٹیل کو بلاکر ان کی
سرزنش کی۔ صدر زرداری نے ہدایت کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ معاملات افہام و
تفہیم سے حل کیے جائیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عام شہری مفاہمتی سیاست کی نذر ہوتے ہیں تو ہوتے
رہیں لیکن اتحادی جماعتیں ناراض نہیں ہونی چاہئیں۔ یہ ہمارے لیے انتہائی
افسوس کا مقام ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہر میں انسانی جانوں کے ضیاع
اور لوگوں کے کاروبار تباہ ہونے کے باوجود ہمارے ذمہ داران نے بے حسی کی
چادر اوڑھی ہوئی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو فکر ہے تو بس اس کی کہ آیندہ 5 سال
کے لیے دوبارہ کیسے اقتدار میں آجائیں تاکہ بچے کچے ملک کو بھی کھاجائیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے 27 تا 31 اگست تک سپریم کورٹ کراچی رجسٹری
میں مقدمات کی سماعت کی۔ سندھ بار کونسل کے 131 رکنی وفد سے ملاقات کے موقع
پر انہوںنے کہا کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کرے۔
کراچی میں مخصوص لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، وکلاءاور ججوں کو تحفظ
حاصل نہیں۔ ان کا کہناتھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں
پوری نہیں کررہے۔
چیف جسٹس کا بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ لیکن موجودہ حکمرانوں کو عدالت کے
احکامات روندنے اور اسے نیچا دکھانے سے فرصت ہو تو وہ شہریوں کے جان و مال
کے تحفظ کی طرف توجہ دے۔ گزشتہ ساڑھے 4 سال کے دوران حکومت نے عدالتی
فیصلوں کا تمسخر اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ این آر او کیس اور سوئس
حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر مسلسل ٹال مٹول اور وقت گزارنے کی پالیسی سے
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کے کیا عزائم ہیں؟۔ پی پی رہنما نثار
کھوڑو اور شرجیل میمن قبیل کے لوگوں نے سپریم کورٹ کے خلاف محاذ کھول رکھا
ہے اور یہ عدالتی فیصلوں کو صوبائیت و لسانیت کا رنگ دے کر سندھی قوم کی
ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ وزیراعظم نے
سپریم کورٹ کو سوئس خط لکھنے کی یقین دہانی کس بنیاد پر کرادی ہے، تو بعض
مبصرین کے مطابق آیندہ انتخابات سر پر ہیں اور پیپلزپارٹی کبھی بھی یہ نہیں
چاہے گی کہ وہ عدالت کے ساتھ محاذ آرائی کا تاثر دے کر انتخابی میدان میں
اترے۔ کیوں کہ قوم سپریم کورٹ کے پشت پر کھڑی ہے اور گزشتہ ایک عرصے سے
عدالت کے جرات مندانہ فیصلوں کو سراہا گیا۔ جب کہ پیپلزپارٹی سیاسی شہادت
چاہتی تھی اس کی وہ خواہش تو پوری نہیں ہوئی۔ البتہ ابھی وقتی طور پر عدالت
کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ
وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو 18 ستمبر تک مزید مہلت مل گئی ہے تو دوسری
جانب وہ اس سے سیاسی طور پر بھی مستفید ہوگی۔
بہر حال پیپلزپارٹی نے قوم کو اپنے دور حکومت میں بدامنی، مہنگائی،
بیروزگاری اور امریکی ڈرون حملوں کے سواکچھ نہیں دیا۔ لیکن موجودہ سیاسی
منظر نامے کو دیکھتے ہوئے ،یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر اپوزیشن
جماعتیں اسی طرح منتشر رہیں تو کوئی بعید نہیں کہ آئندہ 5 سال کے لیے بھی
پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں برسر اقتدر آجائیں۔ لہٰذا ان حالات
میں دینی و مذہبی جماعتیں بالخصوص اور ن لیگ اور تحریک انصاف کو ایک دوسرے
کے خلاف اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجانا
چاہیے۔ کیوں کہ حکمران اتحادی جماعتیں منتشر اپوزیشن کی وجہ سے ہی کھل کر
کھیل رہی ہے۔ |