پی ایچ ڈی اور کالا منہ

پی ایچ ڈی کی ضرورت

تحریک انصاف کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ”زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لئے پی ایچ ڈی کرنا پڑے گی“۔

قومی سیاستدانوں میں سے اکثریت کی عمریں ساٹھ کے پیٹے میں ہیں۔ اگرچہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں، لحد سے مہد تک علم حاصل کرنے کا حکم ہے، اہل علم اس بات سے آگاہ بھی ہیں اور عملی مظاہر ہ بھی کرتے ہیں۔ مگر ہمارے سیاستدان اب اس لئے تو آگے پڑھنے سے رہے کہ ان کی اعلیٰ تعلیم کا مقصد زرداری کی سیاست کو سمجھنا ہی ہو۔ ہاشمی صاحب تو سالہاسال نوازشریف کی سیاست کو نہ سمجھ سکے وہ زرداری کو بھی نہیں پہچان سکیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آخر کتنے لوگ زرداری کی سیاست کو سمجھنا چاہتے ہیں، اور کتنے ہیں جو اس غرض سے پی ایچ ڈی کا وزن اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔

مخدوم صاحب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں اسمبلیوں میں جانے کے لئے کسی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں، گزشتہ حکومت نے اس غرض کے لئے کسی بھی امیدوار کے لئے بی اے پاس ہونا ضروری قرادیا تھا۔ یار لوگ جعلی اسناد کی مدد سے اسمبلیوں میں پہنچ گئے، کچھ تو دوران مدت ہی نااہل قرار دے دیئے گئے،بہت سے ایسے بھی ہیں جو جعلی اسناد کے حامل تو ہیں، مگر ”سستے اور فوری“ انصاف کے ان کی دہلیز تک آتے آتے ذراتاخیر ہوگئی، ابھی تک اسمبلی رکنیت کے مزے لوٹ رہے ہیں، عدالتوں کی کاروائیاں جاری ہیں، ممکن ہے اسمبلی کی مدت ختم ہوتے ہوتے ان کی رکنیت بھی ختم ہوجائے۔زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لئے اب پرانی قیادت تو پی ایچ ڈی کی منزل کو نہیں پہنچ سکتی ، لہٰذا مجبوراًً ان کی سیاست کو سمجھے بغیر ہی گزارہ کرنا پڑے گا، اور یقینا ایسا کیا جارہا ہے، یہ بھاری کام آئندہ نسلوں پر چھوڑ دیا جائے۔
نگران وزیراعظم اور کالا منہ!

پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں نگران وزیراعظم بننے کا مطلب منہ کالا کروانے کے سوا کچھ نہیں۔ اور یہ بھی کہ نگران وزیراعظم بننے کی بجائے وہ ریفرنڈم کی طرز پر براہ راست عوام کے ووٹوں سے صدر یا وزیراعظم بننے کو ترجیح دیں گے۔

ڈاکٹر قدیر کو قوم نہایت عقیدت اور احترام سے دیکھتی ہے، وہ قوم کے ہیرو ہیں، اخبار میں کالم لکھنے کے حوالے سے دانشور بھی ہیں، ان کا تجربہ اور مطالعہ بہت وسیع ہے، وہ کھری اور سیدھی بات کرنے کے قائل ہیں۔ اس لحاظ سے انہوں نے نگران وزیراعظم کے لئے جو لفظ استعمال کیا ہے ، ہمارے لئے تو وہ کافی وزنی ہے، لیکن ہمارے ہاں نگران کی بجائے خود منتخب وزیراعظم کے لئے ایسے حالات ہوتے ہیں، جن کا تذکرہ ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے، پاکستان میں وزرائے اعظم کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو ان میں سے اکثریت کو جس طریقے سے ان کے منصب سے فارغ کیا گیا، حتیٰ کہ موجودہ وزیراعظم کو بھی جس ’احترام‘ سے رخصت کئے جانے کا امکان ہے وہ بھی عوام کی نظروں سے پوشیدہ نہیں۔ رہی بات ریفرنڈم طرز کی ، تو جناب ریفرنڈم بذات خود ایک بدنام سرگرمی ہے ، جسے ایک بھیانک مذاق کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔لیکن پاکستان میں اس قسم کے معاملے کو ’عزت‘ کے معاملات کے ساتھ نہیں جوڑاجاتا، نہ ہی تھوڑی بہت بے عزتی کو دل میں جگہ دی جاتی ہے، اگر ایسا ہونے لگ جائے تو پھر ہماری حکومتیں ایک روز بھی نہ چل سکیں، یہ ان کی ہمت ہی ہوتی ہے کہ وہ ’رقییبوں‘ کی گالیا ں سن کر بھی بے مزہ نہیں ہوتیں، کیونکہ ہر اگلے الیکشن میں سیاستدانوں نے انہی عوام کے پاس ہی جانا ہوتا ہے، لہٰذا ایسے مواقع پر ان کے تمام نخرے برداشت کرنے پڑتے ہیں، اسے سیاست کہیں یا ڈھٹائی ، یہ ہر کسی کی اپنی سوچ ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 435658 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.