پاکستان میں یوں تو ہر مسئلہ ‘
ہر قانون ‘ ہر بِل ‘ اور ہر ہر وہ کام پر اختلاف رکھنے والے لوگ ‘ چھوٹے
بڑے سیاستدان اور دوسرے لوگ بے تحاشہ ہیں چاہے وہ مسئلہ‘ قانون ‘ بِل عوام
کے لئے اچھا بھی ہو تب بھی اختلاف ضرور پیدا ہوتا ہے۔ اچھی بات ہے اختلاف
رکھیں اور یہ اختلاف ہی جمہوریت کا حسن بھی کہلاتا ہے۔مگر دل و دماغ یہ
کہتا ہے اور قلم یہ لکھنے پر بضد ہے کہ جہاں عوامی آراءہو، جو قانون عوام
کی فلاح و بہبود کیلئے ہو اسے آنے دیا جائے تاکہ پاکستان کے وجود کے ۵۶ سال
بعد اگر کوئی اچھا کام ہونے جا رہا ہو تو ہونے دیا جائے۔ مانا کہ پرویز
مشرف صاحب فوجی تھے اور اقتدار پر قابض بھی رہے ۔ اب ظاہر ہے کہ انسان
فرشتہ تو ہے نہیں کچھ کام غلط بھی کیا ہوگا انہوں نے....مگر ساتھ ہی ساتھ
بلدیاتی نظام جو کہ برطانوی طرز کا تھا اور دوسرے مغربی ممالک میں بھی رائج
ہے، خوب لائے۔ یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ میں ان کا حمایتی بن رہا
ہوں بلکہ یہ نظام واقعتا نچلی سطح تک پہنچ رہا تھا۔
میں اس سلسلے میں بڑی بڑی باتیں نہیں کروں گا مگر ایک عام آدمی ہونے کے
ناطے صرف ایک دو حوالے دینا چاہوں گا کہ جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ
یہ نظام بہتر ہے یا نہیں؟ ایک عام آدمی کو شناختی کارڈ کا فارم اٹیسٹ
کروانا مقصود ہے۔ پرویز مشرف کے نظام میں یہ کام اس شخص کے اپنے علاقے کے
ناظم یا نائب ناظم کر دیا کرتا تھا ، اسے کہیں دور جانے کی ضرورت درپیش
نہیں آتی تھی، مگر آج جو نظام ابھی تک رائج ہے اس میں اس شخص کو اس ادنیٰ
سے کام کیلئے D.Cآفس تک جانا پڑتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ D.Cآفس ہر ایریا میں
تو موجود نہیں ہے مخصوص جگہوں پر ان کے آفس قائم ہیں اور بندے کو وہاں جانے
کیلئے اپنی روزی روٹی چھوڑ کر ایک دن کی چھٹی لیکر وہاں جاکر کام کروانا
پڑتا ہے۔ جبکہ پچھلے نظام میں چھٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی ، بندہ شام
سے رات تک اپنے علاقے کے ناظم یا نائب ناظم کے آفس جا کر باآسانی یہ کام
کروا لیتا تھا۔یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے اور یہی وہ مثال ہے کہ جس سے
باآسانی سمجھ آتی ہے کہ واقعی پچھلا نظام اچھا تھا۔ جہاں عوام کو تمام
سہولیات دروازے پر میسر تھیں۔تو میرے بھائی ، میرے اربابِ اختیار، میرے
مؤدب سیاستدانوں، اگر وہ نظام صحیح ہے تو اسی نظام کو لاگو کر دیں کہ کہیں
تو عوام کی فلاح کو بھی مقصود رکھنا چاہیئے۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ رہائشی علاقے کا گٹر بند ہونے پر موجودہ نظام میں
لوگ کہاں جائیں، ظاہر ہے اس نظام میں تو ایک کونسلر ہوتا ہے جو کافی بڑے
علاقے پر محیط اس کا حلقہ ہوتا ہے اور آج تو الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے وہ
کونسلر بھی ناپید ہیں۔ جبکہ ناظم والے نظام میں یہ خوبی تھی کہ رات کو
کمپلینٹ کروا دو اور صبح خاکروب حاضر ہو جایا کرتا تھا۔ اور یوں گندگی اور
غلاظت سے پُر راستے صبح صاف ستھرے ہو جایا کرتے تھے ، ہر شخص بشمول نمازی
حضرات کو بھی آنے جانے میں کوئی خاص دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا
تھا۔اسی طرح بے شمار مسائل ہیں جن کی نشاندہی علاقے کے ناظم یا نائب ناظم
کے دفتر تک باآسانی پہنچایا جا سکتا تھامگر یہ سہولت بھی آج ناپید ہے۔ کل
بارش ہوئی ہے آپ دیکھیں کہ ہر علاقے میں گٹر اُبل رہا ہے، گندگی اور غلاظت
کا ڈھیر جمع ہے ۔ نہ کوئی صفائی ہے اور نہ کوئی اسپرے۔ بیماریوں کے پھوٹنے
کا اندیشہ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ خاص کر ڈینگی جیسی لعنت کے سر اٹھانے کا
خطرہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
یہاں پر میں میڈیا والوں سے بھی ایک گزارش کرنا چاہوں گا کہ مانا کہ ڈینگی
بخار بہت خطر ناک ہے اور اس سے آگاہی دینا آپ کا فرض بھی ہے۔ مگر صرف یہ
آگاہی دینا عوام کو خوف میں مبتلا کرنا ہے کہ آج اتنے ڈینگی بخار کے مریض
ہسپتالوں میں آئے ہیں اور اب ٹوٹل اتنے ہوگئے ہیں۔ بھائیوں ! یہ بھی بتا
دیا کریں کہ اب تک کتنے مریض اس ڈینگی بخار سے شفایاب ہو کر اپنے گھروں کو
جا چکے ہیں ۔ اس سے عوام میں خوف کے سائے قدرے کم ہو جائیں گے کہ چلو اس کا
بھی علاج موجود ہے۔
آج کل روزآنہ صبح و شام ، رات و دن کی بنیاد پر اس نظام کو رائج کرنے یا نہ
کرنے پر مذاکرات کئے جا رہے ہیں۔ بھائی اتنا تگ و دُو کیوں ! پچھلا نظام ہی
عوام کی بھلائی ، اور مختلف کاموں کی انجام دہی کیلئے بہتر تھا اسی کو رائج
کریںاور الیکشن کرائیں، مخالفت در مخالفت تو صرف سیاسی نظر آتے ہیں، اور ہر
دور میں مخالفت کرنے والے لوگ موجود ہوتے ہیںاس لئے ان سب باتوں کو پُرے
رکھتے ہوئے عوامی خواہش کے مطابق فیصلے کئے جائیںتاکہ عوام الناس کی داد
رسی ہو سکے۔
میں اگر یہ کہوں کہ ہر ذی شعور بندہ خدا میں سچائی و ایمانداری ذرا سی بھی
باقی ہوگی تو وہ اس حقیقت سے انکار ہرگز نہیں کر سکتا کہ اس شہر کی حالت
ناظمِ کراچی مصطفی کمال صاحب کے ناظمِ اعلیٰ بننے سے پہلے کیا تھی اور اب
کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کراچی کا نقشہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا
جاتا ہے اور یہ تمام کام بھی پچھلے بلدیاتی نظامِ حکومت کی وجہ سے ہی اور
قابل ناظمِ اعلیٰ سے ہی ممکن ہو سکا۔
میں تو کہتا ہوں کہ مخالفت وہاں کی جائے جہاں اُس کی ضرورت ہو۔ ترقی کی راہ
میں رکاوٹ بننا کبھی سود مند نہیں ہوتا ۔ آپ دیکھیں ہمارا برادر ملک چین جو
شاید ہمارے بعد آزاد ہوا تھا وہاں ایک ایسا لیڈر پیدا ہواجس کا نام ”ماوزے
تنگ“ ہے ۔ اس کے بعد اس ملک کی ترقی دیکھو کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے چین !
ملائشیا میں ترقی کا سیلاب مہا تیر محمد نے دی، اور تو اور بنگلہ دیش کو ہی
دیکھ لیں جو ہمارے ہی ملک کا ایک حصہ تھا 1971ءمیں دو لخت ہوا، ہم سے الگ
ہونے کے بعد اس ملک نے کتنی ترقی کی ہے ۔ آج بھی اس کے ملک کے ”ٹکا “ کی
ویلیو ہے اور ہمارے روپئے کی ویلیو صفر ہو کر رہ گئی ہے۔ سوچنے سے دماغ
ماﺅف ہونے لگتا ہے کہ ہم نے کیا ترقی کی ہے ۔ آج اگر ناظمِ اعلیٰ نے کراچی
کو اس قدر ترقی کی منازل طے کرا دیئے ہیں تو بجائے اس کے کہ شکر گزاری کی
جائے مخالفت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔
اس بلدیاتی نظام کا ایک بھرپور فائدہ تو عوام الناس کو یہ ہوا کہ ہر علاقے
کا اپنا یو سی ناظم اور نائب ناظم تھا ۔ لوگوں کو اُن کے دروازے پر تمام
مسائل کا حل مل جایا کرتا تھا مگر نہ جانے کیوں اربابِ اختیار اس نظام کے
دشمن ہوئے ہیںاور اس نظام کو ختم کرنے کے دَر پر ہیں۔ سوچیئے کیا صحیح کر
رہے ہیں یہ افراد ، ”یقینا نہیں “کیونکہ اسی نظام پر چل کر تو کراچی آج
حقیقی معنوں میں بین الاقوامی شہروں کی صَف میں شامل ہے۔
پاکستان کے 65سالہ دور میں آج تک کوئی بھی نظام اتنا کامیاب نہیں ہوا اور
نہ ہی اس قدر ترقیاتی کام ہوئے تو پھر کیوں نہ اسی نظام کو چلایا جائے تاکہ
کراچی ہی کیا پورا پاکستان ترقی کرے۔ آپ آج پاکستان کے جس لیڈر کو دیکھ لیں
وہ سترہ کروڑ عوام کے خیر خواہ ہونے کا کلّی دعویدار ہے مگرپھر بھی جو نظام
عوام کی بھلائی کرتی ہو اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ افسوس!
میں تو آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اللہ رب العزت سب کو ہدایت عطا
فرمائے اور سب کو اپنے عوام کے سامنے سرخروئی عطا فرمائے ۔ (آمین) |