نئی نسل کے نمائندہ شاعر ندا
فاضلی کا مشہور زمانہ شعر
دشمنی لاکھ سہی،ختم نہ کیجئے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے
ہندو پاک کے قائدین کوناموافق حالات میں بھی مصافحہ اور معانقہ کی روایت
پرسختی کے ساتھ کاربند رہنے کاحوصلہ فراہم کراتارہاہے۔ممبئی کی بے نظیردہشت
گردی کے بعدبھلے ہی کچھ دنوںکیلئے یہ سلسلہ ترک کردیاگیااورہم حبیب جالب
کایہ شعرگنگناکردل کی بے قراری کاعلاج ڈھونڈنے لگ گئے کہ
دیکھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ
سانپ ہوتے ہیں آستینوں میں
خدا کاشکر ہے کہ ترک تعلق کایہ سلسلہ جلد ہی ختم ہوگیااورعادل منصوری ہمیں
یاد آگئے
باتوں کا کوئی سلسلہ جاری ہو کسی طور
خاموشی ہی خاموشی ہے دونوں کی طرف سے
اس طرح مذاکرات کی وہ گاڑی جو26/11کے بعد ٹھہرگئی تھی،شرم الشیخ میں آگے
بڑھی اور چراغ امید روشن کرنے کا سبب بنتی چلی گئی۔گوکہ ابتدامیں ہندوپاک
نے’ مذاکرات برائے مذاکرات ‘کاسلسلہ ہی آگے بڑھا یا مگر’جامع مذاکرات‘ کی
رسائیوں کا دونوں ہی فریق کو خیال آگیاچنانچہ دوستی نہ سہی، کاروبار بڑھانے
کافیصلہ لے لیاگیا۔بداعتمادی کی فضاگرچہ اب بھی قائم ہے مگر ’خوش رنگ‘
حناسے’خوش لباس‘ کرشناکا مصافحہ اس بار غیرروایتی استقامت کاضامن بن
گیا۔گرچہ دونوں ممالک نے ویزاکے نظام کو سہل بنانے کا باضابطہ فیصلہ لے لیا
ہے اور اس کے تحت آمدو رفت کی مشقتوںسے نجات کی صورت بھی پیدا ہو گئی ہے
لیکن پھر بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان
تعلقات میں خوش گواریت پیدا ہو گئی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان’ پائیدارشتہ‘کاقیام درحقیقت مونگیری لال کے
حسین خواب کی مانند ہے۔ کاروباری روابط میں اضافہ اورویزانظام کو سہل بنانے
کی کوششوں کے باوجود رشتوںمیں گرم جوشی کااحساس شاید اُس وقت تک پیدا ہو ہی
نہیں سکتاجب تک کہ نظریے میں تبدیلی نہیں لائی جاتی۔ہندوپاک کی دوستی کی
حقیقت کیا ہے؟دونوںممالک کے قائدین کو ایک دوسرے پر اعتماد کس قدرہے؟یہ
بنیادی سوالات ہیں۔ بظاہر دوطرفہ تعلقات پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑانے کے
بعدیہ نکتہ ابھرتاہے کہ فریقین کے درمیان بھروسے کی ڈور نہایت کمزور ہے۔وہ
کس طرح،یہ جاننے کیلئے 6دہائیوں پر محیط سرد و گرم تعلقات کے درمیان وقفہ
وقفہ سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اورماضی کی تین جنگوں کاجائزہ لے
لیجئے،اچھی طرح سمجھ میں آجائے گاکہ ہندو پاک کے درمیان معانقہ اور مصافحہ
کی حقیقت کیاہے؟ اس تلخ حقیقت کے باوجودکہ ہندوپاک کی دوستی کچے دھاگے سے
بندھی ہوئی ہے اور دو قدم آگے بڑھنے کے بعداکثرچار قدم پیچھے ہٹ جانے کا
احساس بھی نہایت شدت سے ہوتا رہاہے،یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ فریقین اِس
باردلجمعی کے ساتھ آگے بڑھنے میں سنجیدہ ہوگئے ہیں اور یہ کہ مصافحہ و
معانقہ کاسلسلہ اب رسمی راہداریوں سے گزرکرنئی تاریخ رقم کرنے والا ہے۔
مذاکرات درمذاکرات کے باوجودپیچیدگیاں کیوں برقرار ہیںاورگتھیاں کیوںسلجھ
نہیں پارہی ہیں؟ اس پر تبصرہ سے قبل ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ
کونسے تصفیہ طلب امور ہیں،جنہیں حل کیاجانا ناگزیر ہے۔ ہندوپاک کے رشتوںپر
نگاہ رکھنے والوںکاعام خیال یہ ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کے قابل قبول حل کی
راہ ہموار نہیں ہوگی،رشتوں میں گرمجوشی پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ اب رہا سوال
یہ کہ کشمیر کی گتھی کیسے سلجھائی جائے؟چونکہ ہندوستان کی نگاہ میں کشمیر
ایک ’اٹوٹ حصہ ‘ہے اور پاکستان اسے’متنازعہ خطہ‘قرار دیتا رہا ہے ، تو ایسی
صورت میں ہمیں یہ نہیں لگتا کہ کشمیر کے مسئلے کا کوئی معقول حل تلاش
کیاجاناممکن ہے! یوں بھی جب جب ہند و پاک کے قائدین تصفیہ طلب امورکو
سلجھانے کے نام پر بزم سجاتے ہیں،کشمیر کے علاحدگی پسندوں کی سرگرمیاں بڑھ
جایاکرتی ہیں اور یہ نکتہ شدت کے ساتھ ابھارنے کی کوشش ہوتی ہے کہ کشمیرکا
ایسا حل ڈھونڈا جائے جوتینوں فریقوںیعنی ہندوستان،پاکستان اور کشمیری عوام
کیلئے قابل قبول قرار پائے۔ پاکستان کا کشمیر پر موقف نہایت واضح ہے ،جو
بظاہر ہندوستانیوں کے گلے سے نیچے اتر ہی نہیں سکتا۔یعنی پاکستان شروع سے
یہ چاہتا رہاہے کہ کشمیر کو ہندوستان سے ’آزادی‘ دلائی جائے۔کشمیر کی بعض
علاحد گی پسند تنظیموںکو پاکستان کی جانب سے ملنے والی ’نام نہاد‘ اخلاقی
تائید کی حقیقت بھی یہی ہے کہ کشمیریوں کو آزادی کے نام پر اُکسایاجائے اور
ان کے درمیان ہندوستانی ارباب اقتدار کے تئیںمنافرت کے جذبے کو زیادہ سے
زیادہ اُبھاراجائے۔اس مقصد میں پاکستان کسی حد تک کامیاب بھی ہے۔اس سے نہ
انکار ممکن ہے اور نہ ہی فرار۔جذبہ شدت پسندی کو برانگیختہ کرنے کی کوشش
میں پاکستان کی کامیابی کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ توقف اور تعطل کے ساتھ ہی
سہی،سرحد پر غیر قانونی سرگرمیاں جاری ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا عشرہ گزرتاہے
،جب پاکستان کی جانب سے در اندازی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوتا۔یہ اس
حقیقت پر مہر صداقت لگانے کیلئے کافی ہے کہ پاکستان اپنے ’ناپاک عزائم‘ کی
کامیابی کیلئے نہایت استقلال کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ کشمیر میںدراندازی کے
واقعات کو روک پانے میںیوںتوہماری حکومت کامیاب نہیں ہوسکی ہے،مگردوسری
جانب کشمیریوں کو قابو میں کرنے کی حکمت عملی کے تحت وادی کشمیر کو جس طرح
فوجیوں کے مستقل قیام گاہ میں تبدیل کردیا گیا ہے ،اس سے کشمیریوں میں
ہندوستان کے تئیں ناراضگیوںمیں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔قصہ مختصر یہ کہ
کشمیرکا تنازعہ ایک لاینحل مسئلہ بن چکا ہے، جس کے نہ سلجھ پانے کی وجہ سے
دونوںممالک کے تعلقات میں بہتری کا خواب سجانا مشکل ہے۔
کشمیر کے مسئلہ کی طرح ہی دونوں ممالک کے درمیان رشتوں میں خرابی پیدا کرنے
والی اور بھی کئی وجہیں ہیں،جن کو برسوں کے مذاکراتی عمل کے درمیان دور
نہیں کیاجاسکاہے۔مثال کے طور پرسیاچن اور سرکریک کے تنازعہ کو شمار
میںلایاجاسکتا ہے۔اسی طرح آبی تنازعہ بھی مدتوںسے جیوں کا تیوں برقرار
ہے،جس پر ہنوز کسی طرح کی ایسی پیش قدمی نہیںدکھائی جاسکی ہے جس سے فرحت
کااحساس ہو۔اسی طرح دہشت گردی کا مسئلہ بھی دونوں ممالک کے مابین دوستانہ
تعلقات کو کمزور کرنے میں کلیدی کردار نبھاتا رہا ہے۔خصوصاًممبئی کے
گنہگاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں پاکستان کی جانب سے گریزو پرہیز کی
مسلسل کوشش بھی فریقین کے درمیان بحالی اعتماد کا راستہ روکتی رہی ہے۔
تصفیہ طلب امور کو حل کرنے کی بجائے ہند و پاک کی قیادت نے حال کے دنوںمیں
تجارتی رشتے استوار کرنے کی کوشش کی ہے جس کے تحت پاکستانی سرمایہ کاروں کو
ہندوستان میں کاروبار کرنے کی اجازت مرحمت کی گئی ہے۔اسی طرح ہندوستانی
کمپنیوں کو بھی پاکستان میںسرمایہ کاری کی سہولت دی گئی ہے۔تحدید کے نفاذ
کے ساتھ ہی ساتھ کاروباری رشتوں کو دوام عطا کرنے کے سلسلے میںمثبت اور
حوصلہ افزاءاقدام سے گوکہ تجارتی برادری میں خوشی کی لہر محسوس کی جارہی ہے
مگر یہ سلسلہ کس حد تک استقامت کے ساتھ آگے بڑھ سکے گا،یہ دیکھنے کی بات
ہوگی۔
اگرہندوپاک کے قائدین دوستی کے بجائے تجارتی تعلقات کو بھی استحکام بخشنے
میں یقین رکھیں اور خلوص نیت کے ساتھ کاروباری رشتے کواستوار کریں تو یقینا
یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فریقین کے درمیان از خود خوشگوار تعلقات قائم
ہوجائیں گے۔ یہ ایک نہایت اچھی پیش رفت ہے جس کے تحت ایک دوسرے ملک میں
سرمایہ کاری کو فروغ دےنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔ آمد ورفت کے دشوار گذار
مراحل کو سہل بنانے کے لیے چونکہ ویزا کا نیا نظام متعارف کرانے کا فیصلہ
لیا جاچکا ہے لہٰذا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ تجارتی تعلقات کو نئی بلندی
حاصل ہوگی۔ وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا یوں تو وزیر اعظم ہند کے دورہ پاکستان
سے قبل سفارتی سطح پر زمین ہموار کرنے کی غرض سے اسلام آباد کے دورے پر گئے
ہیں تاکہ آئندہ دنوں میں جب منموہن اسلام آباد کے دورے پر جائیں تو اس کے
بہتر نتائج مرتب ہوسکیں لیکن یہ بات کہی جاسکتی کہ کرشنا اور حنا کے درمیان
ہونے والی گفتگو اور نیاعہد وپیمان دونوں ممالک کے رشتوں کو بہتری کی جانب
لے جانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ حالانکہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ
دونوں ممالک میں کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو ہندوپاک کے درمیان خوشگوار تعلقات
قائم ہوتے دیکھنا نہیں چاہتیں۔ ہمارے یہاں بال ٹھاکر ے ، راج ٹھاکرے اور اس
قماش کے لوگ بطور مثال شمار میں لائے جاسکتے ہیں تو پاکستان میں اسی طرح
حافظ سعید اور ان کے مقربین کوبطور نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے جن کی سیاست کی
بنیاد ہی مخاصمت اور دشمنی پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہندوستانی وزیر
خارجہ ایس ایم کرشنا اسلام آباد کے دورے پر گئے تو موقع گنوائے بغیر حافظ
سعید نے حکومت پاکستان کو متنبہ کرتے ہوئے دوستانہ تعلقات قائم نہ کرنے کا
”مخلصانہ مشورہ“ دے ڈالا۔ اسی طرح ابھی حال میں ہی جب ہندوستان میں دونوں
ممالک کے درمیان کرکٹ ڈپلومیسی کو فروغ دینے پر خیالات کے تبادلے کا دور
شروع ہوا تو ٹھاکرے گھرانہ نے اس کی شدید مخالفت شروع کی۔ کہنے کا ماحصل یہ
ہے کہ کچھ طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس طرح کا ماحول تیار کرنے کی
کوششیں کرتی رہی ہیں کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے قریب نہ آئیں۔ بدقسمتی یہ
ہے کہ حکومتیں بھی بعض اوقات ایسی سرگرمیوں سے متاثر ہوجایا کرتی ہیں اور
نتیجتاً قربت دوری میں بدل جاتی ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ ماضی کے
تجربات ومشاہدات کا فائدہ حاصل کرتے ہوئے فریقین مستقبل سنوارنے کی کوشش
کرتے ہیں یا پھر دہشت گردی کا کوئی واقعہ ایک بار پھر دونوں ممالک کے
درمیان خلیج پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ بہرحال تعلقات کی گاڑی کب تک پٹری
پر دوڑے گی اور کب پٹری سے اترے گی یہ دیکھنے کی بات ہے۔ |