پوری دنیا میں یہ اندازِ
فکر تقویت پکڑ رہا ہے کہ عوامی فلا ح و بہبود کو یقینی بنا نے کےلئے
انتظامی یونٹو ں کا حجم چھو ٹا کیا جائے تا کہ لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز
پر ہی حل ہو جائیں۔بھارت کے ہاں چونکہ جمہوری روائیات کافی مضبوط ہیں لہذا
اس معاملے میں اس نے پہل کی اور بہت سی نئی ریاستیں تشکیل دے کر عوامی
اندازِ سیاست کو زندہ رکھا یہی وجہ ہے کہ بھارت کے ہاں آزادی کے وقت جتنی
ریاستیں تھیں اب ان کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔یہی حال افغانستان، ایران،
فلپائن ،چین اور دوسرے ممالک کا ہے۔ امریکہ میں تو ہر ریاست اس حد تک خود
مختار ہے کہ اس کی اپنی سپریم کورٹ ہے ۔ بد قسمتی سے پاکستان جیسے اسلامی
ملک میں اس رحجان کی حو صلہ افزائی نہیں ہو سکی کیونکہ یہاں پر غداری کی
اصطلاح اتنی عام ہے کہ ملکی شناخت میں تبدیلی کےلئے کو ئی بھی بڑا فیصلہ
کرنے سے قبل کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔عوامی نیشل پارٹی سالہا سال تک غداری کے
لیبل کے ساتھ اپنی سیاست کرتی رہی ۔ یہ تو بھلا ہو ا موجودہ عوامی حکومت کا
جس نے سرحدی صوبے کو خیبر پختو نخوا کا نام دے کر غداری کی اس سوچ میں قدرے
دھیما پن پیدا کیا ہے لیکن اس کے باوجود پھر بھی جب غیر جمہوری قو توں کو
حب الوطنی کا دورہ پڑتا ہے تو وہ پھر وہی پرانا غداری والا راگ الاپنا شروع
کر دیتی ہیں۔ اس کارِ خیر میں مذہبی جماعتیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ ان
کی لغت میں کفر اور غداری کے فتوے اتنی کثیر تعداد میں موجود ہیں کہ انھیں
دو چار جماعتوں اور اشخاص پر اس قسم کے فتوے داغنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ان کے ذخیرے میں فتووں کی اتنی قسمیں ہیں کہ حسبِ حال کو ئی بھی فتوی دینا
ان کےلئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو تا ہے ۔ان کی ساری زندگی انہی فتووں کو
صادر کرنے میں گزری ہے لہذا وہ اس میں بڑے ماہر ہیں اور انھیں علم ہے کہ یہ
فتوے کب اور کس طرح سے صادر کرنے ہیں۔ ان کے انہی فتووں کے خوف سے پاکستان
میں نئے صوبے تشکیل نہ دئے جا سکے ۔حا لانکہ ان صوبوں کی تشکیل کی گنجائش
بہت زیادہ تھی ۔ آبادی بے تحاشہ بڑھ رہی تھی اور لوگوں کے مسائل کا تقاضہ
تھا کہ نئے انتظا می یونٹ تشکیل دئے جا ئیں تا کہ عوام کو ان کی دہلیز پر
انصاف مہیا ہو سکے لیکن پھر بھی کسی انجانے خو ف کی وجہ سے ایسا ہو نہیں
رہا تھا۔۔۔۔
14اگست 1947 کو پاکستان کے وقت پانچ صوبے تھے اور اس وقت موجودہ پاکستان کی
کل آبادی چھہ کروڑ کے لگ بھگ تھی ۔ پاکستان کے دو لخت ہو نے اور مشرقی
پاکستان کے قیام کے بعد اس وقت وہی چار صوبے موجود ہیں جو قیامِ پاکستان کے
وقت موجود تھے ۔ پینسٹھ (65) سال گزر جانے کے بعد موجودہ پاکستان کی آبادی
بیس کروڑ کے قریب پہنچ گئی ہے لیکن صوبوں میں کو ئی اضافہ نہیں ہو سکا۔ وہی
چار صوبے ہیں اور لوگوں کے وہی دیرینہ مسائل ہیں۔ پنجاب کی آبادی دس کروڑ
سے تجاوز کر چکی ہے جس کی وجہ سے اس کا بہتر انداز میں نظم و نسق چلانا
ممکن ہو چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی خواہشات کو مدِ نظر رکھتے ہو
ئے پنجاب کے مزید صوبے بنا دئے جاتے تا کہ لوگوں کی تکالیف کو کم کیا جا
سکے اور گڈ گورنس کا خواب شرمنہَ تعبیر ہو سکے لیکن کسی حکومت نے اس طرف
توجہ مبذول نہیں کی جس سے لوگوں میں احساسِ محرومی شدید تر ہو تا جا رہا ہے
۔ پنجاب پر حکومت کرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہے کہ
پنجاب کا صوبہ تقسیم نہ ہو تا کہ اس کے حکومتی رقبے پر فرق نہ آئے۔عوام کو
اس طرح کی سوچ سے کس قدر تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے انھیں اس سے کوئی
سرو کار نہیں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی چونکہ ایک عوامی جماعت ہے اور رعوامی
خواہشات کا پالن کرنا اس کا بنیادی فلسفہ ہے لہذا اس نے اس جانب خصوصی توجہ
مرکوز کی۔شروع شروع میں بہت سی مذہبی جماعتوں اور سیاسی ادا کاروں نے اس کی
مخالفت کی اور بہت ہی بودھے، بے کار اور غیر منطقی قسم کے دلائل سے اسے
روکنے کی کوشش کی لیکن یہ مسئلہ اتنا بڑا اور سنجیدہ تھا کہ اسے اس طرح کی
بے کار کوششوں سے روکا نہ جا سکا۔مسلم لیگ (ن) نے بھی نئے صوبوں کی تشکیل
پر بند ھ باندھنے کی کوشش کی لیکن عوامی دباﺅ کے سامنے اسے پسپائی اختیار
کرنی پڑی۔ پنجابی تسلط قائم رکھنے کی ن کی وہ روش اب بھی جاری ہے لیکن
انھیں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ عوام اب با شعور ہو چکے ہیں
اور اپنے حق کے لئے لڑنے کا جذبہ ان میں پہلے سے کہیں زیادہ قوی ہے۔ میڈیا
کی یلغار نے بھی اس مسئلے کو اٹھا کر رجعت پسندانہ سوچ رکھنے والے عناصر کو
دفاعی پوزیشن پر کھڑا کر دیا ہے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ رجعت پسند
حلقوں نے اسی طرح کی بے ہنگم سی حرکت اس وقت بھی کی تھیں جب سرحدی صوبے کا
نام تبدیل کرنے کا معاملہ در پیش تھا۔ صوبہ سرحد کی اسمبلی کا اس بات پر
اتفاقِ رائے تھا کہ سر حدی صوبے کا نام تبدیل کر کے اسے پختو نخواہ کا نام
دے دیا جائے لیکن مسلم لیگ (ن) کے مطا لبے پر اسے خیبر پختو نخوا ہ کانام
دیا گیا تھا حالانکہ اس صوبے کا خیبر سے کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا۔کتنا
ہی اچھا ہو تا کہ پختو نخواہ کے ساتھ خیبر کے لفظ کا اضا فہ نہ کیا جاتا
کیونکہ سارے لوگ اسے اب پختو نخواہ کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی
عادت ہوتی ہے کہ انھوں نے ٹانگ ضرور اڑانی ہوتی ہے چاہے ٹانگ ہی ٹوٹ
جائے۔پنجاب کو مزید صوبوں میں تقسیم کرنے کےلئے پارلیمانی کمیشن بنانے کا
وقت آیا ہے تو مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ پنجاب سے باہر کی
جماعتوں کی پارلیمانی کمیشن میں نمائندگی غیر ضروری ہے۔ کیا وہ یہ بتا نا
گوارہ کریں گئے کہ انھوں نے پختونخواہ کے صوبے کے نام پر پھڈا کیوں ڈا لا
تھا کیونکہ سر حد اسمبلی کی قرارداد منظور ہو جانے کے بعد پھڈا ڈالنے کا
کوئی جواز نہیں تھا۔پنجاب کی جماعت اگر پختونخواہ کے صوبے کے نام پر طوفان
کھڑ ا کر سکتی ہے تو پھر صدرِ مملکت آصف علی زرداری ساری سیاسی جماعتوں کی
نمائندگی کےلئے پارلیمانی کمیشن کیوں قائم نہیں کر سکتے؟پارلیما نی کمیشن
میں ساری جماعتوں کی نمائندگی سے وفاقِ پاکستان مضبوط ہوا ہے اور افہام و
تفہیم کے فلسفے کوتقویت عطا ہو ئی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) نے اس میں بھی نا
اتفاقی کو ہوا دے کر ساری فضا کو مکدر کر رکھا ہے ۔۔۔
پاکستان کے آئین میں صوبوں کی تشکیل کا ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور
اسی پر عمل پیرا ہو کر صوبوں کی تشکیل کی جا سکتی ہے۔مسلم لیگ (ن) چونکہ
پنجاب میں نئے صوبے کے قیا م کی مخا لفت تھی لہذا پی پی پی نے پہلے قومی
اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے ایک قرار داد منظور کروائی اور پنجاب حکومت
کوحکم دیا کہ وہ پنجاب اسمبلی میں علیحدہ صوبے کے لئے قرار داد پیش کرے ۔
پہلے تو مسلم لیگ (ن) نے حیل و حجت سے کام لیا لیکن پھر قومی اسمبلی کی
منظور کردہ قراردا پر انھیں عمل کرتے ہی بنا ۔صدارتی حکم بڑا واضح تھا کہ
اسمبلی میں علیحدہ صوبے کے لئے قرار داد پیش کی جائے ۔اب یہ پنجاب اسمبلی
پر منحصر تھا کہ وہ قرار داد کو منظور کر تی ہے یا اسے رد کر دیتی ۔عوامی
دباﺅ کے تحت مسلم لیگ (ن) میں اتنی جرات کہاں تھی کہ وہ اس طرح کی قرار دار
کی مخالفت کا فیصلہ کرتی۔ جس جماعت کی اپنی حکومت لوٹو ں کی حمائت پر قائم
ہو وہ اس طرح کے فیصلے کس طرح کر سکتی ہے۔مسلم لیگ (ن) کو علم تھا کہ اگر
اس نے قرار داد کی مخالفت کی تو اس کی اپنی حکومت ختم ہو جائےگی۔لوٹوں نے
ہی ان کی حکوت الٹ دینی تھی کیونکہ ان میں سے اکثریت کا تعلق جنوبی پنجاب
سے ہے لہذا انھوں نے قرارداد کی حمائت کا فیصلہ کیا لیکن ساتھ ہی ایک اور
پھلجڑی بھی چھو ڑی اور بہاول پور کو علیحدہ صوہ بنانے کی قرار داد بھی رکھ
دی جسے اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔پی پی پی تو پہلے ہی زیادہ صوبو ں
کے حق میں ہے لہذا اس نے اس قرار داد کو خوش آمدید کہا ۔قرار داد کی منظوری
کے بعد صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ ریاض
کو ریفرنس بھیجا کہ نئے صوبوں کی تشکیل کے لئے تیس (۰۳) دنوں کے اندر اندر
ایک کمیشن قائم کیا جا ئے لیکن سپیکر قومی اسمبلی اپنی مصروفیات کی وجہ سے
مقررہ مدت میں کمیشن قائم کرنے میں ناکام رہیں جس کے بعد صدرِ مملکت آصف
علی زرداری کو ایک دفعہ پھر خط لکھنا پڑا جس کے بعد مشا ورتی عمل کے ذریعے
سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے ۶۱ رکنی پارلیمانی کمیشن تشکیل دے
دیا جس میں دو ممبران پنجاب اسمبلی سے بھی لئے جانے تھے اور جن کے نام
سپیکر پنجاب اسمبلی نے دینے ہیں جو تاحال نہیں دئے گئے اور اس نامزدگی
کےلئے پنجاب اسمبلی مچھلی مارکیٹ بنی ہو ئی ہے ۔ ۶۱ ممبران کے کمیشن میں
مسلم لیگ (ن) کے ممبران کی تعداد پانچ ہے جب کہ پی پی پی کے ممبران کی
تعداد چار ہے۔ حکومتی پارٹی ہونے کی جہت سے پی پی پی کی اس کمیشن میں سب سے
زیادہ نمائندگی ہو نی چائیے تھی لیکن مفاہمتی سیاست کا علمبردار ہونے کی
وجہ سے صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے پی پی پی کی کم نمائندگی پر اکتفا کر
کے اپوزیشن کو زیادہ عز ت و احترام اور آ واز عطا کی لیکن مسلم لیگ (ن) کو
پھر بھی تحفظات ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) یہ چاہتی ہے کہ کمیشن کا اعلان بھی وہ
خود ہی کرے اور ممبران کا چناﺅ بھی اسی کی مرضی سے ہو جو کہ ممکن نہیں
ہے۔انھوں نے اپنے غیر منطقی مطالبات کےلئے فی الحال پارلیمانی کمیشن کا
بائیکاٹ کر رکھا ہے اور ا لٹے سیدھے بیانات سے نئے صوبوں کے قیام میں
رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ انھیں علم ہو نا چائیے کہ نئے
صوبے تشکیل ہو کر رہیں گئے اور انھیں اپنی بے سرو پا حرکات پر شرمندگی کا
سامنا کرنا پڑے گا۔ عوامی خواہشات کے بر عکس جو جماعت بھی سیاست کرتی ہے
اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہی روش مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنا
رکھی ہے جس کا خمیازہ انھیں آ ئیند ہ انتخابات میں بھگتنا پڑے گا- |