اقوام متحدہ کی جانب سے 110لاپتہ
افراد کے حوالے سے سربراہ مسٹر اولیور کا دو رکنی وفد کی آمد کے ساتھ سیاسی
اور غیر سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ پاکستان کے اندرونی
معالات میں اقوام متحدہ کی جانب سے براہ راست مداخلت کی دعوت کس نے اور
کیوں دی ؟ ۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے پہلے اس بات پر لاعلمی کا
اظہار کیا بعدازاں ایسے حکومتی دعوت پر وفد کی آمد قرار دیا ۔ لیکن جو اصل
حیرت ناک بات ہے وہ یہ ہے ، لاپتہ افراد کے حوالے سے سپریم کورٹ ، ہائی
کورٹ، پارلیمانی و عدالتی کمیشن اور جسٹس (ر) جاید اقبال کی سربراہی
میںلاپتہ افراد کمیشن پہلے ہی کام کر رہا ہے، لیکن اقوام متحدہ کا جائزہ
کمیشن 106افراد کی فہرست کے ساتھ اچانک کیوں پاکستان آئے ۔؟ جسٹس (ر) جاید
اقبال کے مطابق جائزہ کمیشن نے 28افراد کے پتے اور رابطہ نمبر بھجوائے ہیں
جو موجود نہیں ہیں یہ کیسز 80اور90 کی دہائی کے کیسوں کے علاوہ 20غیر
ملکیوں کے صرف ناموں کی فہرست ہے جس میں کوئی تفصیلات نہیں ہے ۔ جبکہ ایچ
آرسی پی کے مطابق 2000سے 2012تک 159افراد کو بازیاب کرایا جا چکا ہے
اور1992سے اب تک 72افراد لاپتہ ہیں۔ایچ آر سی پی کی لسٹ میں 39ایسے لاپتہ
افراد کے نام دئےے گئے ہیںجن کے لواحقین کی تفصیلات اور گھروں کے پتے شامل
نہیں ہیں۔جبکہ جسٹس(ر) جاوید اقبال کے مطابق 29افراد کی تلاش جاری ہے اور
باقی کیس ختم ہوچکے ہیں۔ کمیشن کے مطابق وفد کی فہرست کے مطابق 106افراد
میں سے8افرادکوبازیاب کرایا جا چکا ہے جبکہ 21کیسزسپریم کورٹ کے فیصلوں کے
ذریعے حل کئے گئے۔
چیف جسٹس آف پاکستان بھی کہہ رہے ہیں کہ اقوام متحدہ والے آگئے تو سب کی
بدنامی ہوگی ۔سپریم کورٹ بلوچستان میں لاپہ افراد کے حوالے سے حکومتی رپورٹ
پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دے چکی ہے کہ لاپتہ افراد کا
معاملہ سنگین ہے ، کمانڈیٹ ایف سی احکامات نہیں مانتے تو کورٹ مارشل کیا
جائے۔تو عوامی حلقوں میں یہ سوال پھر شدت سے اٹھا کہ سپریم کورٹ کے سامنے
شواہد ہیں اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے سرکاری اداروں کے ملوث
ہونے کے ثبوت بھی ہونے کے باوجود ان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جا رہی ؟
سپریم کورٹ فوجی عدالت سے کیوں کہہ رہی ہے کہ وہ کورٹ مارشل کرے ۔ حالاں کہ
سب جانتے ہیں کہ ایف سی کی جانب سے ایسے متعدد واقعات ہوچکے ہیں کہ ان کے
خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی اور توقع بھی یہی ظاہر کی جارہی ہے کہ آئندہ
بھی کاروائی نہیں ہگی ، اور چیف جسٹس آف پاکستان کے مطابق وہ فیصلے میں
نہیں لکھیں گے لیکن اقوام متحدہ الے آگئے تو بڑی بد نامی ہوگی ۔ اور اقوام
متحدہ کاوفد پاکستان کے دورے پر پہنچ گیا جس میں وہ بلوچستان ،سندھ، پنجاب
اور خیبر پختونخوا میں لاپتہ ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے ملاقاتیں بھی
کریںگے،8روزہ دورے میںپاکستان میں موجود انسانی حقوق کی تنظیموں سے ملاقات
کے بعد جائزہ کمیشن اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کو رپورٹ دےگا جو
کہ ظاہر ہے پاکستان میں جاری کشیدہ حالات اور بیرونی ملک تاثر کے باعث
مملکت کی سخت ترین بدنامی کا سبب بنے گا۔
پاکستانی حلقوں کے مطابق اقوام متحدہ جائزہ کمیشن کا یہ اقدام پاکستان کے
خلاف ایک سازش کا حصہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے
بین الاقوامی طاقتوں کو براہ راست پاکستان میں مداخلت کی دعت دی ہے ، جموری
طن پارٹی کے سربراہ طلال بگٹی نے بھی آنے والے وفد کو ڈیرہ بگٹی سمیت
متاثرہ افراد سے ملاقات اور دورے کی دعوت ہے ۔ جس سے معاملے کی سنگینی کا
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کے حالات کس نج پر جا رے ہیں اور بین
الااقوامی ادارے کی براہ راست آمد اور بلوچستان کے ساتھ 90ءکی دہائی میں
کراچی سے اغوا ہونے والے افراد کے علاوہ سندھی علیحدگی پسند رہنما ﺅں کے
علاوہ خیبر پختونخوا سے بھی گم شدہ افراد کے بارے میں اپنی رپورٹ مرتب
کرےگی۔ قومی اسمبلی میں بھی جائزہ کمیشن پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے
بعض اراکین اسمبلی نے ایسے ملک توڑنے کی سازش قرار دیا۔ جبکہ دور آمریت میں
پرویز مشرف کی جانب سے 600سے زائد افراد کو پاکستان سے لاپتہ کئے جانے کے
اعتراف کے بعد کمیشن نے امریکہ اور پاکستانی حکومت سے ان کی فہرست اور
جرائم کے حوالے سے رپورٹ کیوں نہیں لے رہی۔
پاکستانی حلقوں میں اس حوالے سے بھی شدید تشویش پھیل رہی ہے کہ کیا وفد کو
بی ایل اے او بلوچ اسٹوڈنٹس آزادکے ر حیریار مری اور ہاکنگ کانگ ،میں قائم
ایشین انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے 10شہروں کو جاری ہونے والا بیان اور
بلوچستان علیحدگی پسند گروپوں نے خصوصی خط لکھ کر تو نہیں لایا اور
بلوچستان کے حوالے سے پاکستان مخالف غیر ملکی لابیز کی بریفنگ کی وجہ سے
اقوام متحدہ جائزہ کمیشن کے سربراہ مسٹر اولیور کا دو رکنی وفد پاکستان کے
خلا ف ہونے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر یو این اے کی انسانی حقوق کمیشن کو جو
رپورٹ دےگا وہ ملکی سلامتی کے لئے نقصان دہ اور بدنامی کا باعث بنے گی جس
کا واشگاف اظہاراب پارلیمنٹ اور چیف جسٹس آف پاکتان کرچکے ہیں۔جبکہ اطلاعات
کے مطابق اقوام متحدہ کے ضصوصی نمائندہ برائے اظہار آذادی ھی حکومت ِ
پاکستان کی دعوت پر اس برس آرہے ہیںجبکہ حکومت کی ہی دعوت پر جون 2012ء میں
کمشنر برائے انسانی حقوق مسز Nareneitem Pillay اور مئی 2012 ء میں وکلا ار
ججوں کی آزادی کے حوالے سے خصوصی نمائندہ مسز Gabriela Knaulبھی اکستان کا
دورہ کرچکی ہیں۔
پاکستان میں لاپتہ افراد کے حوالے سے جتنی گھمبیر صورتحال خیبر پختونخوا
میں رہی ہے اس حوالے سے کوئی دوسرا متاثر نہیں ہے ، لیکن پشاور ہارٹی کورٹ
کی جانب سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے فاٹا اور پاٹا میں 34سے زائد
تفتیشی مراکز بنائے ,دوسو سے زائد زیر حراست افراد کو تفےیشی مراکز سے
عدالت میں پیش کیا جارہا ہے ، 1035افراد گھر جا چکے ہیں جبکہ لاکنڈ کے
تفتیشی مراکز میں895افراد کی فہرست بھی عدالت کے حوالے کی جاچکی ہے جیسے اب
لاپتہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔کیونکہ یہ اب عدلیہ کی نگرانی میں ہیں۔ورکنگ
گروپ نہ فیکٹ فائنڈنگ گروپ ہے نہ فیکٹ فائندنگ مشن ہے لیکن بلوچستان میں
دہشت ے گردی کے حامی ممالک کے سفارت کار اور اداروں کا اس طرح متحرک
ہونایقینی طور پاکستان کو بدنا م کرنے کی سازش کی ایک کڑی نظر آرہی
ہے۔پاکستانی عدالتوں نے دیر سے سہی لیکن مسلسل کاروائی کرکے تمام صوبوں میں
لاپتہ افراد کے خلاف ٹھوس اور مربوط کاروائیاں کیں ہیں جو قابل تحسین ہیں
موجودہ صورتحال حکومت کی لاپروائی اور تفتیشی اداروں سمیت ایسے سیکورٹی
فورسز کا قصور بلا شک و شبہ نظر آتا ہے کہ ان کے طریقہ کار اور اختیارات سے
تجاوز کی وجہ سے ہی آج پاکستان کے علیحدگی پسندوں کا مقدمہ اب اقوامِ متحدہ
پہنچ چکا ہے جو ہم سب کے لئے لمحہ فکر ہے ۔ ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ِ
ثانی اور خامیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے
گا۔ |