نوری ماسٹر ۔ایک خاموش مجاہد(۱)

18مارچ 2012ءکے وہ لمحات کتنے ہی یادگار لمحات تھے ، جب جامعہ آباد کے لان پر پیام انسانیت کے بینر تلے بھٹکل کی تاریخ کا سب سے عظیم الشان اجتماع منعقدہورہا تھا ، اس میں اندازا پانچ ہزار غیر مسلم برادران وطن اور اسی تعداد میںبرادران ملت شریک ہوئے تھے ، اس اجلاس میں دونوں اقوام کے کل ہند سطح کے رہنما حاضر ہوئے تھے اور تلاوت کے بعد جامعہ کے نونہال کورس کی شکل میں ﴾اسلام شانتی مکڑو ناو شانتی لوک کے ساری ویو﴿ ہم اسلام کی سلامتی کے بچے ہیں ، اس پیغام امن و آشتی کو لوگوں میں پھیلائیں گے گارہے تھے۔ ترانہ کے الفاظ بتا رہے تھے گویا تخلیق کار نے اسی روز کے لئے اسے تیار کیا تھا ، لیکن وا قعہ دراصل ایسا نہیں تھا، اسے جناب ابو ریحان احمد نوری صاحب جو نوری ماسٹر کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے کوئی آج سے پینتالیس سال قبل تخلیق کرکے 1976ءبورڈ اسکول کے میدان میں منعقدہ جامعہ کے ایک اور تاریخی اجلاس میں پیش کیا تھا ،اس اجلاس میں بحیثت مہمان خصوصی مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ ، مولانا محمد الحسنی بانی مدیر البعث الاسلامی لکھنو اور مورخ ہند مولانا قاضی اطہر مبارکپوری پہلی بار بھٹکل تشریف لائے تھے ۔ اس وقت ہوئی حضرت مولانا کی ہوئی تقریر جو کہ﴾ نشان منزل﴿ کے نام سے بعد میں شائع ہوئی آپ کی بھٹکل کی تمام تقاریر میں نہ صرف شاہکار تھی ، بلکہ مرد مومن کی بصیرت کا ایک نمونہ تھی ، اس میں کئی آنے والے حالات کی نشاندہی بھی کی گئی تھی ۔

یہ جامعہ کے اولین معتمد اور استاد الاساتذہ مولانا عبد الحمید ندوی کا دور اہتمام تھا، جامعہ گوائی میراں منزل ، سوداگر بخار سے ہوتے ہوئے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر چڑھ چکا تھا ، نوری صاحب کو جامعہ سے وابستہ ہوئے یہ دوسرا سال تھا ، اس اجلاس میں طلبہ کے پروگراموں کی کامیابی کا سہرا موصوف اور نوجوان مدرس مولوی اکبر علی ندوی کے سر رہا ، نوری صاحب نے اس وقت دینی تعلیم کے موضوع پر جو ڈرامہ تخلیق دیا تھا اور جس میں ایک پارلمنٹ کی تمثیل پیش کی گئی تھی ، اس میں اس وقت کے ایک طالب علم انصاری شابندری کو اس وقت کے صدر ہند ڈاکٹر ذاکر حسین کا جوکردار دیا گیا تھا بڑا ہی متاثر کن تھا اور جوعرصہ تک ناظرین کی یاد داشت میں محفوظ رہا تھا ، معزز مہمانوں نے بھی اس کی بڑی پذیرائی کی تھی۔ نوری صاحب اس کے بعد 1975ءتک جامعہ سے وابستہ رہے اور اپنی اہلیہ کی اچانک وفات سے دل برداشتہ ہوکر بھٹکل چھوڑ کر اپنے وطن چلے گئے ،اس دوران آپ نے جامعہ کو مقبول عام کرنے اور اس کی خوبصورت شبیہ کو معاشرے میں پیش کرنے میں ناقابل فراموش کردا ر انجام دیا ، آپ جامعہ کے ابتدائی اور بحرانی دور میں جامعہ سے وابستہ رہے ، لیکن ہرسا ل عید میلاد النبی ﷺ کے موقعہ پر سلطان مسجد میں جامعہ کے طلبہ کی تقاریر اور نظموں کے مظاہروں پر آپ کی محنت سب اساتذہ پر بھاری رہتی تھی ،آپ کی زیر نگرانی نونہالان جامعہ کی پیش کردہ انگریزی اور کنڑی تقریروں اور نظموں کی بڑی دھوم ہوتی تھی اور ان زبانوں میں جامعہ کے معیار کی بڑی تعریفیں ہوا کرتی تھیں ، جس کے نتیجہ میں وطن کے دوسرے دینی مدارس کے برخلاف جامعہ میں معزز اور معروف خاندانوں کے بچے داخلہ لیتے تھے ، اب ایسے پروگرام ایک خواب بن گئے ہیں ، اسکا یہ مطلب نہیں کہ جامعہ کا اب وہ معیار نہیں رہا یا اب یہاں پر ایسے پروگرام نہیں ہوتے ، لیکن اپنی جگہ یہ ایک حقیقت ہے کہ طلبہ جامعہ کے پروگراموں کے اب ویسے چرچے نہیں ہوتے ۔ نوری صاحب ایک ہردل عزیز استاد تھے ، تعلیم میٹرک سے آگے نہیں ہوئی تھی ، لیکن عربی فارسی انگریز ی ، تلو اور ٹامل زبانوں سے شد بدھ رکھتے تھے ، اردو میں وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے ادیب کامل پاس تھے ، بیری ان کے گھر کی زبان تھی اور کنڑی ریاست کی سرکاری ، ان دونوں زبانوں کے وہ شاعر و ادیب تھے ، یہ اس وقت کی بات ہے جب ریاست کرناٹک کے مسلمانوں کی اکثریت اس زبان سے نابلد تھی ۔مسلمانوں میں ریاست کرناٹک کی اس سرکاری زبان کو رائج کرنے کی انہیں بڑی فکر دامنگیر تھی ۔

یوں تو آغاز ہی میں بانیان جامعہ نے اس ادارے کو نظریاتی اور جماعتی گروہ بندیوں کی آماجگاہ نہیں ہونے دیا ، جامعہ کی ابتدائی ساتویں جماعت تک جماعت اسلامی ہند کی تیار کردہ نصابی کتابیں ہماری کتاب ، عام معلومات ، آسان ریاضی ، ہماری دنیا ، آئینہ تاریخ وغیرہ داخل نصاب تھیں اور پھر بڑی جماعتوں میںندوة العلماءکا نصاب مقامی ضروریات فقہ شافعی وغیرہ کے مناسبت سے معمولی تبدیلی کے ساتھ رائج کردیا گیا تھا ، لہذا مولانا سید ابوا الاعلی مودوی رحمة اللہ علیہ کی خدمات افکار و خیالات کے تئیں جذبہ احترام اس وقت بھی طلبہ و اساتذہ میں تھا اور اس میں تا حال تبدیلی نہیں آئی ، اب بھی یہاں پر اللہ کے چند بندے اچھے الفاظ میں مولانا کے افکار و خیالات و خدمات سے طلبہ کو متعارف کرانے کا اہتمام کرتے ہیں ، اس وقت نوری صاحب کو اس سلسلے میں مرجع کی حیثیت حاصل تھی ، ساتھی اساتذہ آپ سے خورد تھے ،آپ کے ہم مشرب اس وقت کے نوجوان اساتذہ میں ماسٹر محمد شفیع شابندری ، مولانا ملا اقبال ندوی ، ماسٹر سعید عالم قاضیا ، مولانا محمد اویس مدنی اب یاد رہ گئے ہیں ، ان اساتذہ کے ساتھ ملک و ملت سے وابستہ مسائل پرآپ کا خوب تبادلہ خیال رہتا تھا ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ 1968ءمیں جب جامعہ کے سرکاری بورڈ سے الحاق کی باتیں ہورہی تھی اور بانیان جامعہ میں سے چند ایک اس سلسلے میں نرم رویہ اپنا رہے تھے تو اس وقت اپنے ساتھی مقامی اساتذہ کے توسط سے سرپرست جامعہ حضرت مولانا سید ابرار الحق رحمة اللہ علیہ تک تنہائی میں اس تحریک کے خلاف بات پہنچانے میں آپ کا کردار اہم رہا تھا ،دراصل آپ کا تعلق اس نسل سے تھا جسے مولانا مودودی ؒ نے آزادی ہند سے ایک عشرہ قبل اپنے افکار و خیالات سے متاثر کیا تھا ۔

نوری صاحب نے اپنے شاگردوں میں علم کی جستجو اور مطالعہ کا شوق پیدا کرنے پر خصوصیت سے توجہ دی ، ان کے لئے تدریس کا پیشہ ایک عبادت تھا، انہوں نے کتابیں اور رسائل پڑھنے کا شوق پید ا کرنے کے لئے نت نئے اسلوب اپنائے ، انہوں نے یہاں پر مائل خیرآبادی اور خالدہ تنویر کے مجلہ نور رامپور اور مولانا ابو سلیم عبد الحی کے الحسنات رامپور کو رواج دیا ، عصر کے وقت جب ہم چھوٹے طلبہ بور ہوکر قصہ کہانی سنانے کا مطالبہ کرتے تو آپ ہمیں مائل خیر آبادی کی کہانیاں سناتے ، ترکستان سے ترکی تک ، نوری شہزادہ ، مسلم کی آب بیتی وغیرہ سبھی کہانیاں اس وقت آپ نے یا تو ہمیں سنائیں یا پھر طلبہ سے پڑھوائیں ، جس پر کبھی طلبہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ، کبھی ہنسی کے فوارے چھوٹ جاتے ،جس سے طلبہ کی اردوخوانی و املاءکی درستگی اور نت نئے الفاظ کا ذخیرہ بغیر محنت کے لاشعوری طور پرذہن میں جاگزیں ہونے میں مدد ملی ، طلبہ اس تاثر کے نتیجہ میں ایسی کتابیں تلاش کرکے مطالعہ کی ٹوہ میں رہتے ، پندرہ روزہ نور رامپور کے سلسلہ وار مضامین کا طلبہ کو انتظار رہتا ، اسے درجہ میں اس طرح سنایا جاتا جیسے ریڈیو سنا جارہاہو۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمانان عالم کے حالات جانے میں طلبہ کی دلچسپی بڑھی ،دور دراز چین کے مسلم اکثریتی علاقہ سینکیانگ اور وہاں کے مجاہد سردار عثمان بطور وغیرہ کے حالات سے طلبہ کو مانوسی ہوئی ، حالانکہ چین کے بہت سے اہل علم بھی ان باتوں سے اب بھی ناواقف ہیں اور جب ہم جیسوں سے یہ باتیں سنتے ہیں تو ہکا بکا رہ جاتے ہیں کہ اچھا ہزاروں میل دور رہنے والے تم اجنبیوں کو اس کا پتہ ہے اور وہاں کے رہنے والے ہم باسیوں کو اپنے ہیروں کا حال معلوم نہیں ۔ ہم جیسے ناکارہ بندوں کو آئندہ زندگی میں کتابی دنیا سے جو تعلق پیدا ہوا اس میں آپ کے اس انداز تربیت کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔آپ کے اس احسان کو ہم کبھی نہیں بھول نہیں سکتے ۔
Abdul mat
About the Author: Abdul mat Read More Articles by Abdul mat: 18 Articles with 20213 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.