محترم قارئین :آئیے امام علی رضاکی سیرت کے
مزید گوشوں سے اکتسابِ فیض کرتے ہیں چنانچہ
غیب کے سوالات کے جوابات کا حصول :
کوفہ والوں میں سے ایک شخص نے بیان کیا کہ جب میں خراسان جانے کے لیے کوفہ
سے باہر نکلا تو میری لڑکی نے مجھے ایک نفیس کپڑا دے کر کہا ۔
'' اے فلاں اسے فروخت کرکے میرے لیے ایک فیروزہ خرید لانا۔''
جب میں مروپہنچا تو آپ کے خدام نے مجھ سے آکر کہا ۔
'' ہمارا ایک رفیق انتقال کرچکا ہے اس کے کفن کے لیے یہ کپڑا ہمارے ہاں
فروخت کردو۔''
میں نے کہا :
'' میرے ہا ں کوئی کپڑا نہیں۔''
یہ سن کر وہ چلے گئے لیکن دوسری دفعہ پھر آگئے اور کہنے لگے۔
'' ہمارے آقا نے تجھے سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ تمہارے پاس ایک کپڑا ہے
جو تمہاری لڑکی نے تمہیں دیا تھا تاکہ اسے تم فروخت کردو اور اس کے لیے
فیروزہ خرید سکو، ہم اس کی قیمت لے کر آئے ہیں۔
میں نے کپڑا دے دیا اور اس کے بعد اپنے دل میں سوچا کہ چند مسائل آپ سے
دریافت کرتا ہوں، دیکھوںکیا جوابدیتے ہیں، پھر میں چند مسائل ایک کاغذ پر
نوٹ کرکے اگلی صبح سویرے آپ کے مکان پر حاضر ہوگیا۔ وہاں لوگ بکثرت جمع تھے
مگر کسی کی کیا مجال کہ وہ آسانی سے ملاقات کرسکے، میں حیران و پریشان کھڑا
تھا کہ آپ کا ایک خادم باہر آیا اور میرا نام لے کر ایک تحریر کیا ہوا کاغذ
مجھے دے کر کہنے لگا۔''
'' اے فلاں یہ سوالات کے جوابات ہیں۔
جب میں نے اس کاغذ کو کھول کر تحریر کا مطالعہ کیا تو وہ واقعی میرے سوالات
کے جوابات تھے۔
خواب میں نُسخہئ شفا بتانا :
ایک ڈاکو نے کسی تاجر کو کرمان کے راستہ میں سردی کے موسم میں پکڑ لیا اور
اس کے منہ کو برف کی طرف کرکے لٹادیا۔ یہاں تک کہ اس کی زبان گنگ ہوگئی اور
وہ بات کرنے سے مجبور ہوگیا، جب وہ خراسان پہنچا تو معلوم ہوا کہ حضرت علی
رضی اللہ عنہ نیشار پور تشریف لے گئے ہیں، اس نے اپنے آپ سے کہا کہ وہ اہلِ
بیت رسول سے ہیں ان کی خدمت میں حاضر ہونے سے شائد کوئی علاج ہوسکے۔ اس نے
رات کو خواب میںدیکھا کہ حضرت امام رضا کی خدمت میں حاضر ہے اور شفاکا طلب
گار ہے۔ آپ نے فرمایا :
'' اے فلاں کمونی، پودینہ صحرائی اور نمک لے کر انہیں پانی میں بھگو کر دو
دو تین تین بار منہ میں رکھو شفا پاجاؤ گے۔''
جب خواب سے بیدارہوا تو اسے اس پر اعتبار نہ آیا ، جب نیشا پور پہنچا تو
معلوم ہوا کہ آپ باہر کسی مسافر خانے میں تشریف فرما ہیں، وہ تاجر آپ کی
خدمت میں حاضر ہوا اور تمام قصہ عرض کیا لیکن خواب کا ذکر نہ کیا آپ نے
فرمایا۔
'' تمہاری دوا وہی ہے جو میں نے خواب میں بتادی تھی۔''
تاجر نے کہا :
'' اے ابن رسول میں چاہتاہوں کہ دوبارہ سنوں۔''
آپ نے فرمایا :
'' تھوڑی سی کمونی ، پودینہ صحرائی اور نمک لے کر پانی میں تر کرلو اور دو
تین بار منہ میں رکھو گے تو شفا حاصل کرو گے۔''
اس تاجر نے آپ کی وصیت کے مطابق ایسا ہی کیا اور شفا حاصل ہوگئی۔
ایک شخص موت کے منہ میں :
ایک روز کا ذکر ہے کہ حضرت امام رضا رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا اور
فرمایا :
'' اے اللہ کے بندے جو چاہتا ہے اس کی وصیت کر اور جس چیز سے گریز نہیں اس
کے لیے تیار ہوجا۔''
اس بات کو تین ہی روز گزرے تھے کہ وہ شخص موت کے منہ میں چلا گیا۔
دل کی بات کا جواب تحریر میں دینا:
ایک راوی نے بیان کیا کہ جب میں نے حج کا قصد کیا تو میری لونڈی نے ایک
نفیس ریشمی کپڑے سے احرام تیار کیا، جب وقتِ احرام آیا تو میرے دل میں
ریشمی کپڑے کے احرام کی عظمت کا اندیشہ پیدا ہوا تو میں نے ریشمی احرام کو
چھوڑ دیا اور کوئی دوسرا کپڑا زیب تن کیا، پھر جب میں مکہ پہنچا تو حضرت
علی رضا رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک خط کے ہمراہ وہ کپڑا بھیج دیا لیکن
اس میںیہ مرقوم کرنا بھول گیا کہ ریشمی کپڑے سے احرام باندھنا جائز ہے یا
ناجائز، حالانکہ میں نے خط اسی نسبت سے بھیجا تھا یہاں تک کہ قاصد خط کا
جواب لے کر آگیا، خط کے آخر میں مرقوم تھا کہ۔
'' اگر ریشمی احرام باندھ لے تو کوئی حرج نہیں۔''
حمل میں بچوں کے نام تجویز کرنا :
ایک راوی سے مروی ہے کہ میری زوجہ عالمِ حمل میں تھی جسے میں حضرت امام علی
رضا کی خدمت میں لے گیا اور عرض کیا۔
'' حصور دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ اسے بیٹا عطا کرے۔
آپ نے فرمایا :
'' تمہاری زوجہ کے شکم میں دو بچے ہیں۔''
واپسی پر میں نے خیال کیا کہ ایک کا نام محمد رکھوں گا اور دوسرے کا نام
علی رکھوں گا۔''
پھر آپ نے مجھے بلا کر فرمایا :
'' ایک کا نام علی رکھنا اور دوسرے کا نام عمر رکھنا۔''
'' جب دونوںبچے تولد ہوئے تو ایک لڑکا تھا اور ایک لڑکی۔''
علی اور عمر کی ترتیب کے ساتھ ناموں کا انتخاب کیا گیا، ایک دن میں نے اپنی
والدہ سے دریافت کیا ۔
'' ام عمر کیا نام ہے ؟''
میری والدہ نے جواب دیا۔
'' میری والدہ محترمہ کا نام اُمِ عمر تھا۔''
قبر کی مٹی سُونگھ کر راز کا منکشف کرنا :
ابوالصلت نامی ایک شخص نے بیان کیا کہ ایک روز میں حضرت امام رضا رضی اللہ
عنہ کی خدمت میں کھڑا تھا تو آپ نے مجھ سے فرمایا۔
''اس قبر پر جاؤ یہ قبر ہارون الرشید کی ہے اس قبر کے چاروں اطراف سے مٹی
اٹھا لاؤ۔''
میں آپ کے حکم کی تعمیل بجالاتے ہوئے مٹی اٹھالایا۔ آپ نے مٹی کو سونگھ کر
پھینک دیا اور فرمایا۔
'' بہت جلد میرے لیے ایک گڑھا کھودا جائے گا جس میں ایک پتھر نمودار ہوگا
جسے خراسان کے سب کے سب قبر میں کھدائی کرنے والے بھی نہیں ہلاسکیں گے۔''
پھر آپ نے فرمایا :
'' فلاں جگہ سے مٹی لاؤ۔'' آپ نے اسے سونگھ کر پھینک دیا پھر آپ نے فرمایا
:
'' وہاںمیرے لیے ایک گڑا کھودا جائے گا جو سات ہاتھ گہرا ہوگا پھر اس کے
مابین قبر شق کی جائے گی اور اگر بادشاہ کا کہا پورا نہ ہوا تو پھر قبر ہی
بنائیں گے جو دو ہاتھ ہوگی اسے اللہ تعالیٰ جیسے چاہے گا کھول دے گا یہ
گڑھا کھودتے وقت میرے سرہانے کی جانب سے ایک قسم کی تری پیدا ہوگی، میں نے
جس بارے میں تجھے ہدایت دی ہے ویسے ہی کرنا، پانی کے جوش سے قبر پانی سے
بھر جائے گی، اس میں تجھے چھوٹی چھوٹی مچھلیاں نظر آئیں گی،یہ روٹی جو میں
تجھے دیتا ہوں ٹکڑے کرکے پانی میں پھینک دینا تاکہ مچھلیاں اسے کھالیں، جب
کچھ نہ بچے گا تو ایک بڑی مچھلی نمودار ہوگی جو سب چھوٹی مچھلیوں کو ہڑپ کر
جائے گی، جب کوئی مچھلی باقی نہ رہے تو تم اپنا ہاتھ پانی میں رکھ دینا اور
جو تم سے میں نے کہا ہے وہی کہہ دینا یہاں تک کہ پانی کی سطح نیچی ہوجائے
اور کچھ نہ بچے، یہ سب کچھ مامون الرشید کے سامنے پیش کرنا۔''
پھر فرمایا :
''اے ابوالصلت کل میں مامو ن الرشید کی ملاقات کے لیے آؤں گا۔ اگر میرے سر
پر کوئی چیز پہنی ہوئی نظر پڑی تو مجھ سے محو گفتگو ہونا اور اگر میرا سر
خالی ہوا تو مجھ سے گفتگو نہ کرنا۔''
ابوالصلتنے کہا کہ :
جب صبح ہوئی تو حضرت امام علی رضا رضی اللہ عنہ نے لباس زیب تن کیا اور
مامون الرشید کے غلام کے منتظر ہوئے، آپ مامون الرشید کے ہاں گئے ان کے
سامنے میوؤں کے رکاب رکھے ہوئے تھے، اور وہ ہاتھ میں انگوروںکے خوشے پکڑے
ہوئے تھا۔ مامون الرشید آپ کو دیکھ کر اپنی جگہ سے دوڑا اور آپ سے معانقہ
کرکے آپ کی پیشانی پربوسہ دیا اور آپ کو بٹھایا۔ پھر وہ انگور کے گُچھے
حاضر کرکے گویا ہوا اے ابن رسول اللہ ، کیا آپ نے کبھی ان انگوروں سے بہتر
انگور دیکھے ہیں۔'' آپ نے فرمایا ۔'' اس سے بہتر انگور تو بہشت میں دیکھے
ہیں۔''
پھر مامون نے کہا :
'' اے ابن رسول اللہ کھائیے ۔''
آپ نے فرمایا :
'' میں انگو رکھانے سے معذور ہوں۔''
مامون نے بات کو طویل کرتے ہوئے کہا۔
'' آخر اس میں کون سی چیز مانع ہے ؟ شاید آپ مجھے تہمت زدہ خیال کرتے
ہیں۔''
یہ کہہ کر مامون نے آپ سے وہ خوشہ انگور لے لیا اور چند دانے کھا کر پھر
دوسری مرتبہ آپ کو دے دیا، آپ نے اس خوشہ سے دو تین دانے کھائے اور باقی
خوشہ رکھ دیا ، پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔
مامون الرشید نے کہا :
'' یا حضرت آپ کہاں جارہے ہیں؟''
آپ نے فرمایا :
'' جہاں تم نے بھیجا ہے؟''
پھر آپ اپنے سر پر کوئی چیز باندھ کرباہر تشریف لے آئے، میں نے آپ سے کلام
نہ کیا ، آپ نے اپنے سرائے میں آکر فرمایا۔
''سرائے کا دروازہ بند کردو۔''
آپ اپنے بستر پر سوگئے اور میں سرائے میں حیران وہ پریشان کھڑا رہا۔ چانک
میری نظر ایک حسین و جمیل نوجوان پر پڑی جس کے بال خوشبو سے معطر تھے۔ اس
کا چہرہ آپ سے ملتا جلتا تھا میں بھاگ کر اس کے قریب گیا اور عرض کیا۔
''آپ کہاں سے تشریف لے ائے کواڑ تو بند تھا؟''
نوجوان نے کہا :
'' مجھے وہ شخص لایا ہے جو ایک لمحہ میں مدینہ سے لے آتا ہے۔''
میں نے دریافت کیا ۔
'' آپ کون ہیں ؟''
نوجوان نے کہا :
'' میں حجۃ اللہ محمد بن علی ہوں اور اپنے والد کے ہاں آیا ہوں۔''
پھر نوجوان مجھ سے بولا کہ تم بھی آجاؤ، جب حضرت رضا نے اسے دیکھا تو آپ
اٹھ کھڑے ہوئے اور معانقہ کرکے اپنے سینہ سے لگایا اور پیشانی پر بوسہ دیا
ور پھر اسے اپنے بستر پر لے گئے ، وہ نوجوان اپنا چہرہ اپنے والد کی طرف
کرکے بیٹھ گیا اور کچھ راز میں گفتگو کی جو میں نہ سمجھ سکا۔ پھر مجھے آپ
کے دونوں لبوں پر برف کی طرح سفید جھاگ نظر آئی جو آپ کا بیٹا چاٹ گیا۔ پھر
اس نوجوان نے اپنے والدِ محترم کے کپڑوں میں اپنا ہاتھ ڈالا تو چڑیا کی طرح
ان کے سینہ سے کوئی چیز باہر آئی اور نیچے گر گئی، اسی وقت آپ نے وصال
فرمالیا۔
پھر اس نوجوان نے کہا :
'' اے ابوالصلت اٹھو اور بیت المال سے پانی اور تختہ لاؤ۔''
ابوالصلت نے عرض کیا ۔
'' بیت المال میں نہ پانی ہے اور نہ ہی تختہ ہے۔''
نوجوان نے کہا :
'' میں جو کہتا ہوں اس پر عمل کرو۔''
ابوالصلت بیت المال میں گیا وہاں سے پانی اور تختہ لے آیاابوالصلت نے یہ
خیال کیا کہ ان کا ہاتھ بٹاؤ لیکن نوجوان نے کہا ۔
'' اے ابوالصلت میرا ہاتھ بٹانے والے حاضر ہیں۔''
نوجوان نے حضرت علی رضا کو غسل دے کر کہا۔
ابوالصلت بیت المال میں ایک کپڑوں کا صندوق ہے اس میں کفن اور خوشبودار
چیزیں موجود ہیں وہ لے آؤ۔''
ابوالصلت گیا اور دیکھا کہ وہاں وہ صندوق موجود تھا جسے اس سے پہلے کبھی نہ
دیکھ تھا ، اس صندوق کو لا کر رکھا تو آپ نے حضرت علی رضا کو کفن دے کر
نمازِ جنازہ پڑھی اور پھر کہا۔
'' اے ابوالصلت ! تابوت لے آؤ۔''
ابوالصلتنے عرض کیا :
''حضور میں جاتا ہوں تاکہ بڑھئی کو تابوت بنانے کے لیے کہو ں۔''
نوجوان نے کہا :
'' بیت المال میں جاؤ ۔''
ابوالصلت جب بیت المال میں گیا تو وہاں ایک تابوت پرنظر پڑی، جو اس نے اس
سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا،وہ تابوت لایا گیا جس میں نوجوان نے حضرت امام
علی رضا کو لٹا دیا اور پھر دو رکعت نماز پڑھنا شروع کی ابھی نماز ختم نہ
ہونے پائی تھی کہ تابوت اپنی جگہ سے اٹھنا شروع ہوا۔ مکان کی چھت پھٹ گئی
اور تابوت پرواز کرتا ہوا اپنے مقام پر پہنچ گیا۔
ابوالصلت نے عرض کیا۔
'' اے ابن رسول اللہ مامون کو بھی بلا لینا چاہیے۔''
نوجوان نے کہا :
'' خاموش رہو، تابوت ابھی واپس آنے والا ہے۔''
نوجوا ن نے پھر کہا۔
'' اے ابوالصلت کوئی ایسا نبی نہیں کہ جس کا وصال مشرق میں ہوا ہو اور اس
کا وصی مغرب میں وصال کرے ، بجز اس کے کہ ان کی روح اور جسم باہم ملحق
ہوجائیں ۔''
ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ گھر کی چھت پھٹی اوروہی تابوت پھر مکان میں
آگیا۔
نوجوان نے حضرت امام کو تابوت سے باہر نکالا اور بستر پر پہلے کی طرح ٹا
دیا، جیسا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہوں اور ان پر کوئی کفن وغیرہ نہیں۔
نوجوان نے پھر کہا :
'' اے ابوالصلت اٹھو اور دروازہ کھولو۔''
میںنے دروازہ کھولا تو مامون الرشید اپنے خادموںکے ہمراہ آہ زاری کرتا
ہواگریبان چاک کیے ہوئے سر پر طمانچے مارتا ہوا اندر آیا اور کہا۔
یا سیداہ فجعت بک یا سیداہ
ترجمہ :'' اے میرے سردار مجھے مصیبت پہنچی ہے اے میرے سردار۔'
ازاں بعد آپ کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہوگئے تو حضرت امام محمد بن علی نے
فرمایا :
'' جاؤ آپ کے لیے قبر تیار کرو۔''
میں اسی جگہ گیا تو جو کچھ حضرت امام رضا نے فرمایا تھا ویسا ہی دیکھا۔
مامون الرشید نے پانی اور مچھلیوں کا مشاہدہ کیا تو کہا کہ امام محمد رضا
سے جس طرح زندگی میں عجیب و غریب کا ظہور ہوتا تھا زندگی کے بعد بھی ایسا
ہی ہوتا ہے۔
یہ بات مامون کے ایک درباری نے سنی تو کہا ۔
'' اے خلیفہ تجھے معلوم ہے کہ اس کا اشارہ کس طرف ہے ؟''
یہ اشارہ اس حقیقت کی طرف ہے کہ تمہاری سلطنت کثرت اور اطاعت میں ان
مچھلیوں کی مانند ہے کہ جب تمہارے وصال کا وقت آئے گا اور تمہاری زبان بندی
کے آثار رونما ہوں گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایک ایسے شخص کو مسلط فرمائے گا
جو تجھے نیست و نابود کردے گا۔
مامون الرشید نے کہا ۔
'' آپ نے یہ بالکل درست فرمایا ہے۔''
ابوالصلت سے دوسری ر وایت اس طرح ہے کہ جب مامون الرشید امام رضا رضی اللہ
عنہ کے دفن سے فارغ ہوا تو کہنے لگا۔
''آپ سے جو گفتگو امام رضا کے مابین ہوئی وہ بتاؤ۔''
ابوالصلت نے کہا ۔
'' وہ تو میں اسی وقت بھول گیا تھا چونکہ میں نے سچ بولا اس لیے اس نے مجھے
قید کرلیا،۔ میں ایک سال تک قیدی رہا اور میری روزی شدت سے تنگ ہوگئی۔''
پھر میں نے کہا اے میرے رب محمد آل و محمد کے صدقہ میں میری روزی کو وسیع
کردے۔ ابھی میری دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ مجھے حضرت امام علی رضا کا دیدار
ہوا کہ آپ نے فرمایا اے ابوالصلت! پریشان کیوںہو؟ میں نے عرض کیا ۔'' جناب
پریشان تو ضرور ہوں۔'' آپ نے فرمایا '' اٹھو اور باہر جاؤ۔''
آپ نے میرے ہاتھوںکے بندھنوں کو چھُوا تو وہ کھل گئے، پھر آپ نے میرا ہاتھ
پکڑا اور سرائے سے باہر لے آئے،۔ غلام یہ منظر دیکھتے رہے کیونکہ کوئی بھی
مجھ سے بات کرنے کی جرات نہ رکھتا تھا۔ آپ نے فرمایا۔
'' اے ابوالصلت ! اب تم اللہ تعالیٰ کی امان میں چلے جاؤ۔اب تمہیں نہ مامون
ملے گا اور نہ تم ان سے ملو گے۔
ابوالصلت نے کہا کہ میں نے اس وقت سے مامون کو نہیں دیکھا۔
محترم قارئین :تاریخ کے ان گوشوں سے آپ نے کچھ سیکھا ؟اثبات میں ملنے والے
جواب پر سبحان اللہ اور اگر نہیں تو ربّ تعالٰی سے وہ اس قلب سلیم
،اس فہم لطیف کی دعا کیجیے جس سے اس بندوں اور اس کی معرفت نصیب ہوتی ہے
۔آپ کے تاثرات ہی اس بات کا ثبوت ہونگے اپنی آراء سے ضرور نوازئیے گا۔
سبحان اللہ :کس قدر قابل تقلید ہیں یہ ہستیاں ۔جنھوں نے خود کو ربّ عزوجل
کے لیے پیش کیاتو اللہ عزوجل نے ان کے لیے راہیں تابندہ فرمادیا۔۔ |