لوگ کہتے ہیں پاکستان میں تبدیلی
آرہی ہے ۔میں بھی شمار تو لوگوں میں ہوتا ہوں مگر میں ویسا نہیں سوچتا جیسے
وہ سوچتے ہیں۔میں ویسا بولتا بھی نہیں جیسا وہ بولتے ہیں۔مگر جیسا میں
سوچتا ہوں ویسا وہ نہیں مانتے اور جیسا میں بولتا ہوں ویسا وہ سنتے نہیں۔یا
شائد سن سکتے ہی نہیں ۔اس کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں۔وہ شائد عام باتوں
پر توجہ نہیں دیتے۔دیں بھی کیوں وہ تو خاص سمجھتے ہیں خود کو۔خوا ہ ہم
مانیں یا نہ مانیں ۔مگر آم کی بہت اہمیت ہے کیونکہ آم بھی ایک بہت مشہور
شخص کے علاقے سے لائے جاتے ہیں ۔ جو کبھی تخت نشین ہوا کرتے تھے۔اور بڑے
بڑے دعوے بھی کیا کرتے تھے۔بڑے نام اور بڑے کام بنا گئے۔خیر دعوے تو سب
کرتے ہیں۔کوئی کیسا کوئی کیسا۔ان سے متفق ہونا کسی کی مجبوری یا ذمہ داری
نہ ہے۔مگر درحقیقت کچھ کی ہے بھی سہی۔اب دیکھیں نا سب اچھا کا راگ گانا بھی
ایک دعوہ ہے ۔جھوٹا بھی ہو شائد۔ مگر دعوہ تو دعوہ ہوتا ہے خواہ وہ جھوٹا
ہو یا سچا۔مگر ایسا شائد اسلم رئیسانی سوچتے ہوں گے۔ہم پورے ہونے والے کو
دعوہ اور نہ ہونے والے کو جھوٹ کہتے ہیں۔جھوٹوں کی آج تک نہ تو کوئی گنتی
کی گئی اور نہ ہی اس میں کوئی ایوارڈ دینے کی فکر وزیر ثقافت کو آئی۔وہ
ایسا کرتے اور حکمرانوں میں اگر مقابلہ کرایا جاتا تو بلاشبہ ایک کانٹے دار
مقابلہ دیکھنے کو ملتا۔خیر مقابلے تو اب بھی روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔میں
سیاست کا قیدو میڈیا کو مانتا ہوں۔ اکثر علاقوں میں مرغوں کی لڑائی ہوتی ہے
۔پولیس کو اگر اس میں سے حصہ نہ دیا جائے تو وہاں ایک شاندار چھاپا مارا
جاتا ہے۔کئی لوگ اٹھا لیے جاتے ہیں۔جو لڑوا رہے ہوتے ہیں مگر مرغے جو اصل
میں لڑ رہے ہوتے ہیں ان کو ویسے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے ۔میڈیا بھی تو ایسے ہی
مرغے اکٹھے کر کہ ان کو لڑنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے مگر ان پر پولیس کا چھاپا
نہیں پڑتا نہ کوئی ان کو پکڑنے آتا ہے ۔شائد ان کے ہاتھ لمبے ہیں ۔ویسے
ایسا لوگ کہتے ہیں کہ لمبے ہاتھ والے نہیں پکڑے جاتے۔جیسا کہ ملک ریاض صاحب
۔لیکن لوگ بڑے بڑے پکڑے بھی گئے ہیں۔ایسا میں مانتا ہوں ۔جیسے کہ گیلانی
صاحب ۔بڑے نہیں چھوٹے صاحب۔شائد پکڑنے والے سیاستدانوں کو لڑنے والے مرغے
ہی نہیں مانتے ۔ممکن ہے انہوں نے اپنی لڑائی کے لیے پارلیمنٹ سے کوئی بل
ایک ساتھ پاس کرا کے رکھا ہو۔کیونکہ یہ ایک ساتھ مل بھی تو جاتے ہیں۔نہ بھی
مل سکیں تو ایسا کرنے کی کوشش ضرور کرے ہیں۔ایک دوسرے کا ساتھ مانگتے رہتے
ہیں۔اب خواجہ سعد صاحب ہی کو لے لیں ۔تحریک انصاف کا ساتھ مانگتے ہیں کراچی
میں جیتنے کے لیے۔اور بھی کئی جگہوں پر جہاں خود کو کمزور دیکھتے ہیں کسی
نہ کسی کا ہاتھ پکڑ نے کا شوق رکھتے ہیں۔ایسا کرنے سے وہ دو کشتیوں کے
ناکام مسافر کی ایک تصویر بننے جا رہے تھے جسے شائد زیادہ عرصے تک عوام تو
یاد نہ رکھتے ہاں مگر ان کی حامی سیاسی قوتیں برسوں بلکہ صدیوں اس کو نہ
صرف ایک سیاسی شہادت بلکہ ایک کارنامہ قرار دیتے جو کہ جمہوریت کی بقاءکے
لیے سر انجام دیا جانا تھا۔مگر حقیقت میں نہ تو یہ شہادت تھی نہ ہی جمہوریت۔
یہ ایک عام سا فیصلہ تھا۔ جسے تحریک انصاف والوں نے اسی وقت مسترد
کردیا۔اور ان سب سے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ہاتھ ملانا اکثر لمبے عرصے
تک یاد کیا جاتا ہے جیسا کہ صدر صاحب نے سارہ پالن سے ملایا تھا۔ہاتھ تو سب
ہی ملاتے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن صاحب بھی ،ایم کیو ایم بھی مگر اتنی
پذیرائی کوئی نہیں پاتا جتنی صدر صاحب نے پائی ۔شائد ان کے ہاتھ ملانے میں
ایک سیاست تھی یا پھر کوئی بہت خاص حکمت عملی تھی۔انہوں نے امریکہ والوں سے
بھی ہاتھ ملایا۔برطانیہ سے بھی ملتے ملاتے رہتے ہیں۔وہ جب بھی ہاتھ ملاتے
ہیں تو سوچھ سمجھ کر ملاتے ہیں۔عمران خان سے بھی ملا سکتے ہیں۔برطانیہ میں
ان کے کئی جاننے والے بھی رہتے ہیں۔اس لیے وہ بھی وہاں سے ہاتھ چھڑا نہیں
سکتے۔ہاتھ تو کسی سے بھی ملایا جا سکتا ہے ۔اس لیے تخت برطانیہ نے دونوں کو
ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔سیاست میں ماضی صرف روشن پہلوﺅں تک محدود ہوتا ہے
تاریک پہلو اور مخالفت سیاستدان ماضی میں ہی چھوڑ کر آتے ہیں۔پھر عوام جو
بھی کہتی ہے کہتی رہے ۔ان کا اپنا مقصد حل ہو جاتا ہے۔مگر مسائل حل نہیں
ہوتے۔کیونکہ مسائل عوام کے ہوتے ہیں ۔جن کے پاس پیسہ نہیں ۔حکمران تو عوام
بیچ کر یا گروی رکھ کر اپنا شاہانہ خرچ چلا ہی لیتے ہیں۔عوام اپنی مدد آپ
کے تحت اپنا انتظام کرے ایسا سیاست دان کہتے ہیں ۔وہ شاعر نے کہا تھا کہ
خدا اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہییں بدلتا جب تک وہ خود اس کی کوشش نہ
کرے۔گویا جو بھی کرنا ہے عوام کو کرنا ہے۔ان کا کوئی بھی عملی فائدہ نہ
ہے۔ایک صاحب فرماتے ہیں۔ترمیم الف ،ب اور ج ہم نے منظور کرائی ۔میں ان
لوگوں کو ڈھونڈنے میں مصرو ف ہوں جن کو استرمیم بے سود سے روٹی ،کپڑا یا
پھر مکان ملا ہو۔ایک بزرگ کہتے ہیں کہ اس سے پیٹ نہیں بھرتا۔بزرگ کی بات
قبیلے کی بات ہوتی ہے۔پیٹ بھرنے کی فکر سیاستدانوں نے حد درجہ کی ہے مگر
صرف اپنے پیٹ بھرنے کی۔عوام سے ان کو کیا۔اپنے پیٹ بھرتے بھرتے بعض کے پیٹ
تو بڑھ بھی گئے۔ہر چیزہی بڑھ رہی ہے۔ مگر عمران خان کا ملک ٹھیک کرنے کا
دورانیہ کم ہوتا جا رہے ہے۔اور شائد مقبولیت بھی۔90 دن سے کم ہوکر بات 9 دن
تک آگئی ہے۔امید ہے ایک دن پر بھی آجائےگی۔ مگر میرے نزدیک کرپشن کا خاتمہ
صرف عوام خود کرسکتی ہے۔ وہ بھی ایک دن میں ۔اور وہ ایک دن الیکشن کا دن
ہوگا۔اللہ ہمیں خیر و عافیت سے وہ دن دکھائے جس میں بہت سے لوگ ایک دوسرے
سے ملنے جلنے کی باتیں کر رہے ہیں۔اکثر تو صرف باتیں ہی کر رہے ہیں۔مجھے تو
لگتا ہے سب کے سب ہی باتیں کر رہے ہیں۔سب آزمائے ہوئے کھلاڑی ہیں ۔ایسے
حالات میں تمام پارٹیز کے پاس موقع ہے کہ مو رثیت سے ہٹ کر شفاف اور نئے
لوگوں کو موقع دیا جائے ۔مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کو پارٹی ورکرز کو
پاوور میں لانا ہوگا۔ میری نظر میں وہ ایسا کبھی بھی نہیں کریں گے ۔کیونکہ
سب اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔سب کے لیے الیکشن جیتنا ہی پاکستان کی بقاءہے
اس لیے سب کہتے ہیں پاکستان کی بقاءکے لیے کسی کو بھی ساتھ ملا لیں گے اور
کچھ بھی کر لیں گے۔حالانکہ وہ بہت کر چکے ہیں۔ |