اب ہم زندگی کی اس شاہراہ کی طرف
آن پہنچے ہیں جہاں پہاڑوں کی بلندی ، تیز دریاﺅں کی روانی اور جوشیلی ہواﺅں
کا پر زور دباﺅ ناتواں جسم کے سامنے طاقت کا عظیم شکنجہ ہے جیسے طاقت برائے
طاقت سے نہیں بلکہ ہوش مندی اور سمجھداری سے لیکر چلنے کی ضرورت ہے۔جب
انقلابی ہستوں کی جانب نظر دوڑائی جاتی ہے ہر مکتبہ فکر سب سے پہلے انبیا
ءاکرام صلوة السلام کی اسوہ حسنہ کو اپنے لئے مشعل راہ بناتا ہے جو شعور کی
معراج پر پہنچنے کے بعد انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے خداواندکریم کی
جانب سے وقف کردی جاتی تھی تو اسی طرح ہر زمانے میں کسی نہ کسی شخصیت کو
میئشت الہیہ کی جانب سے مفاد عامہ کےلئے تقویض کردیا جاتا جن کا نام تاریخ
کے قرطاس میں انمول حروفوں سے لکھا جانا مقصود تھا اور آنے والی نسلوں
کےلئے اس میں ہدایت کا ایک ایسا عنصر مہیا کردیا جاتا ہے جس سے جو چاہیے
اپنی سمجھ کے مطابق اپنی راہ کے اصول متعین کرسکتا ہے۔ مملکت کے موجودہ کسی
ایسی شخصیت کی بات نہیں کریں گے جس سے اس بات کا عندیہ کسی کو ملے کہ کسی
خاص طبقے کی ترجمانی مقصود ہے بلکہ پاکستان کی سب سے پہلی اسی شخصیت کے اُس
نئے پہلو کو سامنے لانا مقصود ہے جس سے ہماری نوجوان نسل لا علم ہے ۔
44۔1943 ئ میں جنگ ِپاکستان اپنی انتہائی شدت تک پہنچ چکی تھی۔مصلحت کا
تقاضا تھا کہ متمول شرکا ءکو اپنے ساتھ رکھا جائے ۔ 1943 ءدہلی میں آل
انڈیا مسلم لیگ کا خاص اجلاس منعقد ہوا۔اس کے صدارتی خطاب کے دوران قائد
اعظم نے فرمایا۔
"اس مقام پر میں زمینداروں اور سرمایہ داروں کوبھی متنبہ کرنا چاہتا ہوںِوہ
ایک ایسے فتنہ انگیز ابلیسی نظام کی رو سے جو انساں کو بد مست کردیتا ہے کہ
وہ کسی معقول بات سننے کےلئے آمادہ نہیں ہوتا ، عوام کے گاڑھے پسینے کی
کمائی پر رنگ رلیاںمناتے ہیں ِ عوام کی محنت کو غصب کرلینے کا جذبہ ان کے
رگ و پے میں سرایت کرچکا ہے"۔
یکم مارچ 1945ء کو مسلم لیگ ورکرز سے کلکتہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
"میں ایک بوڑھا آدمی ہوں ، اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے مجھے اتنا دے
رکھا ہے کہ میں اپنی اس بڑھاپے کی زندگی کو نہایت آرام و سہولت سے گذار
سکتا ہوں مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ دن رات بھاگے بھاگے پھروں اور اپنا خون
پسینہ ایک کردوں۔ میں یہ تگ وتاز سرمایہ داروں کےلئے نہیں کررہا ۔ میں یہ
محنت ِ شاقہ آپ غریبوں کےلئے کر رہا ہوں ۔میں نے ملک میں درد انگیز مفلسی
کے منظر دیکھے ہیں ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان میں ہر فرد خوشحالی کی زندگی
بسر کرسکے۔"
دل کا خون آنکھ میں کھینچ آئے تو کیا اس کا علاج ؟
نالہ رو کا تھا کہ یہ پردہ درِ راز نہ ہو
اس بوڑھے انسان نے اپنے جواں ارادوں کی مدد سے پاکستان تشکیل کرانے میں
ناقابل یقین کردار ادا کیا ، لیکن اسی پاکستان کے حصے بخرے کرنے کےلئے اس
سے زیادہ شد و مد کے ساتھ ایسے عناصر سر گرم ِ عمل ہیں جنھیں روکنے کے لئے
آہنی ہاتھ نہیں بلکہ ایسی مومی ہاتھ آتشی نفرت کے لوہے کو پکڑنا چاہتے ہیں
جو گرفت میں آنے سے پہلے بہہ جاتا ہے اور سوائے بے بسی کے عوام کے پاس کچھ
نہیں رہ پاتا۔
ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع ِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا ، محبت کی زبان ہو جا
حضرت اقبال کایہ شکوہ اس پاکستان کےلئے ہی ہے جہاں اخوت ، لسانیت ، فرقہ
واریت ، اقربا پروری اورسیاست کی اس شاہراہ پر پاکستان کی عوام کو لیکر
جایا جا رہا ہے جس کا نتیجہ سوائے تباہی و بربادی کے کچھ نہیں ہے ۔ سرمایہ
دار ، جاگیر دارنہ طبقے کے ہاتھوں پاکستان کا یہ سیاسی نظام ایک اسی نادیدہ
گرفت میں ہے جہاں غریب عوام کی کلائی کمزور سے کمزور پڑتی چلی جا رہی ہیں ،
اس کی ذہنی اسطاعت و استعداد کاربھی مفقود ہو کر رہ گئی ہے ۔ جیسے جب چاہیے
کسی بھی رنگ و نسل کی سازش کے لئے استعمال کرلیا جاتا ہے ۔ جیسے مہنگائی ،
بے روزگاری ،بد امنی ، بے حالی ، بیرونی اندرونی جارحیت کے احوال کے بجائے
باہم دست و گریباں رکھ کر اقتدار کی ہوس کوپایہ ِ تکمیل تک پہنچایا جا رہا
ہے ۔کمال تعجب اس عوام پر ہے کہ کیونکر اور کس قدر اتنا ظلم و ستم برداشت
کرلیتی ہے کہ جسم کے بازو کاٹے جارہے ہیں اور درد کا علاج کرنے کے بجائے
برداشت کس نظرئےے کے تحت کر رہی ہے۔ لڑتی بھی ہے تو لڑاتی بھی ہے ، ظلم خود
پر بھی کرتی ہے تو ظلم کراتی بھی ہے ۔ خود بھی روتی ہے اور رولاتی بھی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح سرمایہ داروںو جاگیر داروں کے خلاف تھے ، ان کی
تمام تر جدوجہد پسے ہوئے عوام کو انکے خون آشام پنجوں سے نجات دلانا تھا ۔
کامیاب بھی ہوئے لیکن کامیاب ہاتھوں میں ریت بھی ساتھ آئی اور ان کے کھوٹے
سکوں نے پاکستانیت کی اصل روح کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس سے آج بھی بد قسمت
پاکستان اور اس کی بے کس عوام شکاری جال سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکی
ہے۔شائد اس میں زیادہ غلطی خود عوام کی ہے کہ وہ غور وفکر سے کام لینے کے
بجائے ، جذباتیت ، انانیت،مورثیت اور خود ساختہ معاشرتی جال سے نکلنے کی
کوشش نہیں کرتے ۔ ہمارے سامنے دنیا کی عظیم ہستوں کی زندگیوں کے نمونے
موجود ہیں ، مسلم یا غیر مسلم ، سب اپنے اکابرین کی عملیت پسندی کا جائزہ
لیں تو کیا مشکل نہیں کہ جس پاکستان کے لئے آپ کے اسلاف نے کوشش کی اس کی
تعبیر کا اچھا نمونہ ہم اپنی آنے والی نسل کو نہ دے سکیں۔اگر باہمی اختلاف
، ریشہ دوانیاں اور مراعات یافتہ طبقوں کی جنگ میں ہم بھی حصہ دار بن گئے
تو سمجھ لینا مشکل نہیں کہ یہ خطہ زمیں زیادہ ظلم خود اپنے لوگوں کے ہاتھوں
برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا ۔اقتدار کےلئے لڑنے والے تو چاہے حکومت بدلے
یا مملکت بدلے اِن سے اُن کو کوئی فرق نہیں پڑتا ، سوچنا تو عوام کوہے
غلامی کے کتنے دور مزید کتنے ادوار کےلئے مسلسل برداشت کرنا ہیں اگر سب کچھ
ایسے ہی برداشت کرنا مقصود تھا تو پاکستان کی تشکیل کےلئے قائد اعظم کی جدو
جہد کیا اجتہادی غلطی تھی ۔؟ ! |