کراچی میں بلدیہ ٹاﺅن کی گارمنٹس
فیکٹری میں خوف ناک آتشزدگی کے باعث پونے تین سو کے قریب خاندانوں کی تباہی
پر پوری قوم سوگوار ہے۔ اس سانحے میں متاثرہ خاندانوں پر بیتنے والی درد
ناک داستان کا کوئی اندازہ کیا جاسکتا ہے اور نہ قیمتی جانوں کے ضیاع کا
ازالہ ممکن ہے۔ ان میں سے متعدد لوگ اب تک اپنے پیاروں کی لاشیں مختلف
ہسپتالوں میں تلاش کرنے کے لیے مارے مارے پھررہے ہیں۔ حکومتی اداروں کی بے
حسی اور مجرمانہ غفلت کے باعث متاثرہ افراد کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ سیاسی
جماعتوں کے راہنما متاثرہ فیکٹری کا دورہ کرکے اپنی دانست میں متاثرین سے
اظہار ہمدردی کررہے ہیں۔ حکومتی اداروں اور ہمارے ذمہ داران میں یہ جذبہ
خال خال ہی نظر آتا ہے کہ وہ متاثرہ خاندانوں کی مالی امداد کے علاوہ ان کے
مستقل روزگار کا بھی انتظام کریں۔ اگرچہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے
سانحہ بلدیہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کے لیے 3,3 لاکھ روپے،
ان کے بچوں کو مفت تعلیم، گھر اور سرکاری ملازمتیں دینے کا اعلان کیا ہے،
لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان پر عمل درآمد بھی کرتی ہے یاپھر لوگوں کی
ہمدردیاں بٹورنے کے لیے یہ احکام محض نمائشی اقدامات ثابت ہوتے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر صنعت و تجارت نے سانحہ
بلدیہ ٹاﺅن پر مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد
تحقیقات کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔ وزیر موصوف نے استعفادے کر اچھی مثال
قائم کی ہے۔ اے این پی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے صوبائی وزیر صنعت کے
استعفے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد صوبائی
وزیر کا محض مستعفی ہوجانا کافی نہیں، بلکہ وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کو
بھی استعفا دے دینا چاہیے۔
یہ سچ ہے کہ اگر کسی جمہوری اور مہذب ملک میں اس طرح کا سانحہ پیش آتا اور
اتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا تو وہاں پوری حکومت ہل کر رہ
جاتی ،مگر ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ حکومت تو رہی ایک طرف، اپوزیشن
جماعتیں بھی ایسے موقعوں کو ”سنہری موقع“ سمجھ کر پوائنٹ اسکورنگ میں لگ
جاتی ہیں، جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔
دوسری جانب سائٹ تھانے میں بلدیہ ٹاﺅن کی متاثرہ فیکٹری مالکان کے خلاف
مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ جب کہ سندھ ہائیکورٹ لاڑکانہ بنچ نے فیکٹری کے
مالکان عبدالعزیز بھائیلا، ان کے بیٹوں ارشد بھائیلا اور شاہد بھائیلا کی
5,5 لاکھ روپے کی عبوری ضمانت منظور کرلی ہے ۔علاوہ ازیں گزشتہ روز (ہفتے
کو) مذکورہ مالکان نے سائٹ تھانے میں اپنا بیان بھی ریکارڈ کرادیا ہے۔ ان
کا منظر عام پر آنا اور تحقیقات میں مکمل تعاون بھی ایک اچھی علامت ہے۔
جمعے کے روز نواز شریف اور سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے
متاثرہ فیکٹری کا دورہ کیا۔ جب کہ اس سے ایک روز قبل تحریک انصاف کے سربراہ
عمران خان بھی بلدیہ ٹاﺅن کا دورہ کرچکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد کا کہنا
تھا کہ سندھ حکومت عوام کی بجائے اپنے بچاﺅ میںلگی ہوئی ہے، آگ پر قابو
پانے کے لیے موثر اقدام نہیں کیے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ذمہ دار مالکان
ہوں یا افسران، سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ نواز شریف نے جاں بحق
افراد کے لواحقین اور زخمیوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے پنجاب
حکومت کی جانب سے جاں بحق ہونے والے ہر شخص کے لواحقین کو 3 لاکھ روپے
امداد دینے کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے سندھ میں بلدیاتی آرڈیننس کے خلاف
ڈٹ کر مخالفت کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔
بلدیہ ٹاﺅن میں جس زمین پر متاثرہ فیکٹری قائم ہے، اس کے ایک ایک حصے پر
تعمیرات کھڑی کی گئی تھیں،جس کی وجہ سے ہوا کے اخراج کا کوئی معقول انتظام
نہ تھا ،جس کے باعث زیادہ اموات دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئیں۔ جب کہ اس سانحے
نے حکومتی امدادی اداروں کی بھی قلعی کھول دی ہے۔ اگر حکومت فوری اور بروقت
اقدام کرلیتی تو شاید اتنا بڑا سانحہ پیش نہ آتا۔
کراچی میں5سال قبل بھی ایسے ہی ایک سانحے میں 170 جانیں ضائع ہوئی تھیں، جس
کے بعد آیندہ ملازمین کی جانوں کے تحفظ کے لیے بہتر انتظامات کی یقین
دہانیاں کرائی گئیں۔ جن پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ جو حکمران اپنے حلف
سے کھلے عام روگردانی کررہے ہوں، جن کے لیے ”وعدے قرآن و حدیث نہیں
ہوتے“۔ان کے نزدیک غریب مزدوروں اور ملازمین کی جانوں کے تحفظ کی خاطر کیے
گئے وعدوں کی کیا حیثیت ہوگی؟ وطن عزیز میں عام شہری کی جان و املاک کے
تحفظ کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔
ہمارے حکمران لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں۔ انہیں اتنی فرصت کہاں ہوگی کہ ان
خاندانوں کی اشک شوئی کریں۔ اب کی بار بھی بیانات دیے جائیں گے۔ ذمہ داران
کو کٹہرے میں لاکر کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے کیے جائیں گے۔ امداد اور
متاثرین کو روزگار فراہمی کے وعدے کیے جائیں گے۔ تحقیقاتی کمیٹی بھی ”اپنا
کام“ جاری رکھے گی اور پھر ہم چند روز میں سب کچھ بھول بھال کر معمولات
زندگی میں مصروف ہوکر، کسی اور حادثے کا انتظار کرنے لگ جائیں گے۔
حکومتی اداروں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ملک بھر میں ہزاروں افراد کی
جانیں ضائع اور گھر تباہ ہورہے ہیں۔ حکومت جب تک خالی خولی دعوؤں سے کام لے
گی، تب تک انسانی جانوں سے کھیلنے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اگر ہمارے
حکمران شہریوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے مخلص ہےں تو وہ مجرموں کا تعین کرکے
انہیں کڑی سے کڑی سزا سنادےں تا کہ آیندہ کوئی اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار
اختیار نہ کرے۔ سانحہ کراچی کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ عدالتی کمیشن بنایا
جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ |