بچوں میں متعدی امراض سے بچائو
کیلئے صوبائی حکومت نے ویکسی نیشن آرڈیننس 1958 اور مغربی پاکستان وبائی
امراض کی روک تھام کے ایکٹ کو ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے یہ فیصلہ پولیو اور
دیگر متعدی امراض میں والدین کے تعاون نہ کرنے پر کیا گیا- قانون کے تحت اب
والدین کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنے بچوں کو متعدی امراض سے بچائو کیلئے
ویکسی نیشن کروائیں - انکار پر والدین کو جرمانہ اور سزا ہوگی جبکہ محکمہ
صحت کے اہلکاروں کے خلاف کوتاہی پر کارروائی کی سفارش کی جائیگی -حکومت کی
طرف سے حالیہ دنوں میں پولیو مہم میں انکاری والدین کو شامل کرنے کیلئے
متعدد اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور یہ اقدام بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے-
گذشتہ کچھ عرصے سے صوبے میں پولیو کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے جس کی روک
تھام کیلئے محکمہ صحت اور ڈونرز ادارے "اخباری بیانات" کی حد تک بڑے مستعد
نظر آتے ہیں - پولیو مہم کے آغاز میں میڈیا سے بھی اپیل کی جاتی ہے کہ قومی
مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں لیکن حقیقت میں ائیر کنڈیشنڈ دفتروں/لمبی
گاڑیوں میں بیٹھ کر لاکھوں روپے کی تنخواہیں لینے والے کچھ بھی نہیں کررہے-
کیونکہ انہیں ڈر اس بات کا ہے کہ اگر اس غریب ملک سے پولیو کی بیماری ختم
ہوگئی تو سالوں سے ایک ہی عہدوں پر " براجمان" صاحبان کی نوکریاں ختم ہو
جائینگی اور ڈونرز کے "خیرات" پر پلنے والے پھر کہا ں سے لاکھوں روپے
تنخواہوں کی مد میں لے سکیں گے کیونکہ پراجیکٹ بند ہونگے تو لینڈ کروزر
گاڑیاں بھی ختم اور ان کی مراعات بھی ختم - سو اپنے مزوں کیلئے یہ ملک کے
مستقبل اور معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں-
پولیو مہم کے آغاز میں بڑی بڑی باتیں کرنے والے "ای پی آئی "کے اہلکاروں کی
کارکردگی کا یہ حال ہے کہ پشاور کے محال تیرائی یونین کونسل میں دس سے بارہ
ستمبر کو کئے گئے مہم میں یوسف آباد کے علاقے میں سینکڑوں بچے پولیو کی
حالیہ مہم میں پولیو ویکسینشن سے محروم رہ گئے والدین اس انتظار میں تھے کہ
تین دنوں میں ویکسی نیشن کرنے والے آجائینگے لیکن یہ مہم ختم ہوگئی اور اس
علاقے کے بچے پولیو کے مہم سے محروم رہے -ہمارے اپنے محلے میں تقریبا بیس
کے قریب بچے جن میں میرا اپنا دو سال کا بیٹا بھی شامل ہے پولیو کے قطروں
سے ابھی تک محروم ہے-جب اس حوالے سے ای پی آئی کے عرصہ دراز سے تعینات
کوارڈینیٹر سے بات کی تو وہ کوئی واضح جواب نہ دے سکے ان کی ہدایت پر ایک
صاحب نے سرکاری فون پر پہلے تو مجھ پر رعب ڈالنے کی کوشش کی کہ آپ نے پولیو
کے حوالے سے شکایت کی ہے جب میں نے اسے اپنا تعارف کروایا تو پھر موصوف کا
لہجہ تبدیل ہوگیا اور مجھ سے میرا پتہ مانگ لیا کہ ہم آپ کے بیٹے کو "پولیو
ویکسینیشن"کیلئے سپیشل طور پر آتے ہیں میں نے جوابا کہ جناب میرا بیٹا
آسمان سے نہیں اترا اس علاقے میں سینکڑوں بچے پولیو کے مہم سے محروم ہے اور
سب کو اپنے بچے پیارے ہوتے ہیں تو جواب میں اسی صاحب نے مجھے بتایا کہ آپ
کے علاقے میں پیر تک ٹیمیں پہنچ جائینگی کیونکہ سڑک کے اس طرف ایک سپروائزر
کا علاقہ ہے اور سڑک کے دوسری طرف کسی اور سپروائزر کا علاقہ ہے اس لئے یہا
ں پر پولیو مہم پیر سے شروع ہوگی- میں بھی چپ کرگیا کہ چلو پیر تک سہی لیکن
پیر کے بعد دو دن گزرنے کے باوجود بھی میرے بچے سمیت اس علاقے میں سینکڑوں
بچے پولیو کی ویکسینیشن سے محروم ہے اور والدین ا س انتظار میں ہے کہ کوئی
غلطی سے ان کے علاقے میں آجائے اور پولیو کی ویکسینیشن ہو- ویسے ہمارا
علاقہ نہ تو قبائلی ہے اور نہ ہی وزیرستان یا متنی ادیزئی کا علاقہ جہاںپر
پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کو "طالبان "مہمان نوازی کیلئے بٹھاتے ہیں
ہمارا علاقہ پشاور شہر کا ایک پسماندہ ایریا ہے جس میں زیادہ تر مزدور پیشہ
افراد آباد ہیں جن کی اوقات اور آواز کی کوئی اہمیت نہیں اس لئے "ای پی آئی
" کے کرتا دھرتائوں کیلئے ہمارے علاقے میں "پولیو زدہ"بچوں کی کوئی اہمیت
نہیں-
پشاور کے سادہ مزاج چیف جسٹس نے تقریبا دو ماہ قبل پولیو مہم کو کامیاب
بنانے کیلئے یہ حکم صادر کیا تھا کہ ہائیکورٹ میں رٹ کے اندراج کیلئے
متعلقہ شخص کو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا سرٹیفیکیٹ بھی فراہم
کرنا ہوگا اس فیصلے پر مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کو خوشی ہوئی تھی کہ چلو ہم
اپنے آنیوالے نسلوں کو اس خطرناک بیماری سے بچا سکیں گے لیکن موجودہ
صورتحال میں محکمے کی غفلت جسے غفلت بھی نہیں کہا جاسکتا البتہ اسے ہٹ
دھرمی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اتنی شکایات کے باوجود بھی کوئی پولیو ویکسی
نیشن کیلئے نہیں آرہا -اس صورتحال میں ہم جیسے لوگوں کیلئے جو اپنے بچوں کو
پولیو کے قطرے پلانے کے خواہشمند ہیں لیکن محکمہ والے پروا نہیں کررہے اس
میں ہمارے لئے چیف جسٹس کیا کرینگے! ہمارے ہاں بھی ایک عجیب سا دستور ہے
یورپی ممالک میں لوگ قانون توڑنے سے ڈرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں لوگ قانون کی
پروا نہیں کرتے لیکن قانون کی عملداری یقینی بنانے والے "ڈنڈے"سے زیادہ
ڈرتے ہیں-
میں بحیثیت صحافی اپنے بچے کو پولیو کے قطرے پلانے کیلئے رابطے کررہا ہوں
لیکن کوئی سنتا نہیں ایسے میں عام لوگ جن کو اس بیماری سے آگاہی نہیں اگر
وہ بھی اس صورتحال سے دوچار ہوں تو پھر لوگ بھی یہی کہیں گے کہ "بھاڑ میں
جائے پولیو کی ویکسی نیشن" خیرات پر پلنے والے "سرکاری اہلکاروں" کی
کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ صحت کے حوالے سے کام کرنے والے بین الاقوامی
امدادی ادارے نے فیلڈ میں کام کرنے والے " ای پی آئی "ورکروں کو فنڈز نہ
دینے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے بارے میں مقامی اخبار میں خبر بھی
شائع ہوئی - جس پرصوبائی سربراہ نے جوابا کہ اکائونٹنٹ جنرل آفس میں "کمیشن
مافیا" کی وجہ سے تنخواہیں لیٹ ہوتی ہیں -دوسری طرف پولیو مہم کو کامیاب
بنانے کیلئے اور"فنڈز"کو " صحیح طور"پر استعمال کرنے کیلئے محکمے نے
"مولویوں "کو بھی ٹارگٹ دیا ہے کہ وہ اپنے خطبوں میں لوگوں میں اس بیماری
سے متعلق آگاہی پیدا کرے اس حوالے سے بھی میڈیا کے سامنے بڑے بڑے دعوے کئے
جاتے ہیں -موجودہ صورتحال میں ہمارے اپنے "مولوی صاحبان"سے گزارش ہے کہ وہ
اپنے خطبوں میں "خیراتی مال پر پلنے والے سرکاری اہلکاروں" کو بھی شرم
دلائیں کہ خدارا تم لوگ بھی ڈیوٹی کرو صرف اخباری بیانات دینے سے کچھ نہیں
ہوتا -کاش ان " بے شرموں"کو یہ سمجھ آجائے اور وہ ملک کے مستقبل اور معصوم
بچوں کے صحت سے کھیلنے سے گریز کرے-
مجھے حکومت کے نت نئے قوانین کی سمجھ نہیں آرہی ایک طرف والدین کو شکنجے
میں جکڑنے کیلئے قوانین تو بن رہے ہیںدوسری طرف "حرام خوری "کرنے والے
اہلکاروں سے بھی کوئی یہ پوچھے کہ "بھائی میرے تم کس مرض کی دوا ہو " تم پر
کون سا قانون لاگو ہوگا جس کی وجہ سے تم ڈیوٹی پر حاضر ہو -حکومت اگر
والدین کو شکنجے میں لانے کیساتھ ساتھ محکمے کے اہلکاروں کو بھی سزا دینے
کا سلسلہ شروع کرے تو بہتر ہوگا کیونکہ نئے قانون میں تو صرف کوتاہی برتنے
والوں کے خلاف کاروائی کی سفارش کی جائیگی -سفارش کیلئے کمیٹی بیٹھے گی اور
جہاں پر کمیٹی بن جاتی ہیں وہاں پر "کام کی مٹی " بن جاتی ہیں - |